پاک بھارت تعلقات

زمرد نقوی  پير 4 جولائی 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

نوازشریف دور میں کارگل جنگ پاکستان ، بھارت تعلقات کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اعتماد میں جو گہرا شگاف آیا وہ پھر کبھی بھر نہ سکا۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بذریعہ واہگہ پاکستان اور مینار پاکستان جا کر پہلی مرتبہ پاکستان کو تسلیم کر لیا۔

امید تھی کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے روشن دور کا آغاز ہو گا لیکن افسوس سب کچھ مٹی میں مل گیا۔ آصف علی زرداری نے صدر پاکستان بنتے ہی پاک انڈیا تعلقات میں بہتری لانے کا ڈول ڈالا لیکن نادیدہ طاقتور عالمی قوتیں یہ نہیں چاہتی تھیں۔ جنرل مشرف دور میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا کارگل جنگ یا ممبئی حملہ بھارت میں پاکستان دشمنی اس انتہاء پر پہنچ گئی جس کی پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

2014کے انتخابات میں بی جے پی نے اس پاکستان دشمنی کا فائدہ اٹھا کر بھارتی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ بھارتی الیکشن 2019 میں اس کارڈ کو پھر استعمال کیا گیا اور یوں پورے بھارت کو فتح کرتے ہوئے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ۔

اس دو تہائی اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا گیا، لیکن اس سے بھی پہلے 2019 کے بھارتی الیکشن سے ذرا پہلے ایک کشمیری نوجوان نے بھارتی فوجی کانوائے  پر خود کش حملہ کیا جس نے بھارتی ریاستوں کے انتخابات میں ہارتی ہوئی بی جے پی کو وہ دو تہائی اکثریت دلوا دی جس کے ذریعے کشمیر کی تاریخی خصوصی حیثیت کا قتل کر دیا گیا۔ اس چوتھے حملے نے جس کا آغاز بھارتی پارلیمنٹ پر حملے سے ہوا نہ صرف کشمیری مسلمانوں بلکہ بھارتی مسلمانوں کی قسمت کا بھی فیصلہ کر دیا۔

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 20کروڑ سے زائد ہے لیکن اتنی بڑی تعداد کے باوجود ان کی سیاسی حیثیت صفر ہے کیونکہ مسلمان کسی ایک جگہ پر نہیں بلکہ پورے بھارت میں ٹکڑیوں کی شکل میں بٹے ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیں بی جے پی کو جیت کے لیے مسلمانوں کے ایک ووٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی مسلمان اب اپنی سیاسی قوت کھو کر ایک شودر کی سطح پر گر چکے ہیں۔ چنانچہ بھارتی مسلمان ہر گزرتے دن اس خوفناک نسل کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس پر عالمی تجزیہ نگار دنیا کو بار بار خبردار کر رہے ہیں۔

وہ نسل کشی جو برما کے مسلمانوں کو ملا عمر کے دور میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی کی شکل میں بھگتنا پڑی جس میں لاکھوں برمی مسلمان تباہ و برباد ، ہزاروں قتل اور ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ بھارتی مسلمان بھی مستقل قریب میںہندو بنیاد پرست مذہبی جنونیت کا شکار ہو کر نسل کشی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں بچانے کے لیے دوبارہ سے ہندومذہب اختیار کر لیں۔ اندازہ کریں ہندو بنیاد پرست دہشت گردوں کی پلاننگ کا۔

اب سوال یہ ہے کہ بھارت نے ایک سیکولر ریاست سے مذہبی جنونی ریاست کا سفر کیسے طے کیا۔ اس کا آغاز برصغیر کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ بی جے پی کے بانیوں نے اسے بھارت ماتا کے دو ٹکڑے ہونے سے تعبیر کیا۔ پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت نے بی جے پی کے لیے ایک کھاد کا کام کیا۔

لیکن بی جے پی کے اصل عروج کا آغاز ضیاء الحق کی پاکستان میں اسلامائزیشن سے شروع ہوتا ہے جو دہلی ماسکو سینٹرل ایشیاء اور واشنگٹن پر اسلام کا پرچم لہرانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ طالبان کے تخلیق کار ٹھہرے۔ اس طرح پاکستان میں شدت پسندوں کو تقویت ملی۔ اصل عظیم سانحہ یہ ہوا کہ یہ شدت پسند گروہ امریکا کی ضرورت اور مجبوری بن گئے کہ انھی لوگوں کو استعمال کر کے امریکا نے اپنے دشمن سوویت یونین کا خاتمہ کرنا تھا۔ یعنی ان کی تو لاٹری نکل آئی۔ اس طرح سامراجی ایجنڈے کے تحت امریکا نے پاکستان پر مذہبی شدت پسند قوتوں کا آگے بڑھایا۔

پاکستان میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی اس اسلامائزیشن نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے کر دیے۔ چنانچہ اس نے بھی اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر ہندو بنیاد پرستی کو بڑھاوا دیتے ہوئے بی جے پی کی سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ کیونکہ بنیاد پرستی کا توڑ بنیاد پرستی ہی ہے۔ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔

1971میں اپنے اور پرائیوں کی مدد اور دماغ سوزی سے پاکستان توڑا گیا لیکن اب بقیہ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔ جس مقصد کے لیے برصغیر کو تقسیم کیا گیا وہ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین کا خاتمہ کر کے حاصل کر لیا۔ اب امریکا برصغیر میں تقسیم سے قبل کی صورتحال بحال کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر کنفیڈریشن کی تجویز بھی زیر غورآئی جسے قائد اعظم نے منظور کر لیا لیکن گاندھی ، نہرو اور خاص طور پر عیار سردار پٹیل نے اس کی مخالفت کی کیونکہ اس نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا کہ قائد اعظم برصغیر کے تمام مسلمانوں ، سکھوں اور شودر ہندوؤں کو ساتھ ملا کر پورے برصغیر پر مغلوں کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی بالا دستی قائم کرنے جا رہے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے وقت کنفیڈریشن کی تجویز ناکام ہوئی لیکن اب مستقبل میں ایسی صورتحال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مد نظر رہے کہ بھارت اور پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کا اثر یہ ہو گا کہ پورے مشرق وسطی ایران، عراق، شام وغیرہ میں بھی مذہبی شدت پسندی کمزور ہو جائے گی۔ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مذہب کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔

تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے،جو آخر کار برصغیر سمیت پورے مشرق وسطیٰ کا ناک نقشہ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔کشمیر اور اسرائیل مسئلے کا حل بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کو بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے… رہے نام اللہ کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔