مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

شکیل فاروقی  منگل 5 جولائی 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وطن عزیز پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ایک عظیم کرشمہ قدرت اور معجزہ ہے جس کی بنیاد دینِ اسلام ہے۔ اس کی جدوجہد کی بنیاد نہ تو معاشی تھی اور نہ لسانی اور نہ ہی محض سیاسی بلکہ اس کی بنیاد مسلمانانِ ہند کی وہ دیرینہ خواہش اور جدوجہد تھی جو انھوں نے اللہ کے نظام کو قائم کرنے کے لیے کی تھی۔ یہ جدوجہد پاکستان کی شکل میں 1947 میں قائد اعظم کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی اور اس طرح علامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔

برصغیر کے مسلمانوں نے اس مملکت کے قیام کی خاطر بے دریغ قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، چناچہ اس مملکت کے قیام کے وقت 14اگست سے قبل یو پی ، بہار ، بنگال ، دلی اور پنجاب میں دل دہلا دینے والے خونی فسادات پھوٹ پڑے اور نہایت وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا اور اس طرح مسلمانوں نے آزادی کی پوری قیمت چکا دی۔ یہی نہیں اْن کو اپنی جائیداد سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلام کی بنیاد پر ایک شعوری اور عظیم جدوجہد کے نتیجہ میں وجود میں آئی۔ تمام مسلم ممالک میں پاکستان وہ واحد ریاست ہے جو اسلامی بنیادوں پر قائم کی گئی اور پاکستان کے قیام کو نظامِ اسلام کے قیام سے منسلک کیا گیا۔ پاکستان کا قیام اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر عمل میں آیا۔

ریاست پاکستان کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے تحریک پاکستان چلاتے وقت کارکنوں کی اسلامی تربیت نہیں کی تھی۔ کوئی بھی نظریاتی ریاست چلانے کے لیے ایسے تربیت یافتہ کارکنوں  کی ضرورت پڑتی ہے ، جن کی تربیت ملک کے اساسی نظریات پر کی گئی ہو ورنہ بغیر اس قسم کے تربیت یافتہ کارکنوں کے کوئی ریاست کامیابی سے چلائی نہیں جاسکتی ہے۔

یوں کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ نہ تو عملاً اسلامی ہے اور نہ ہی جمہوریہ۔ اسلامی اور جمہوریہ کی حیثیت محض ایک لیبل سے زیادہ نہیں۔ اس کی مثال اس دکان کی سی ہے جس کے سائن بورڈ پر تو یہ لکھا ہوا ہو کہ یہاں خالی دیسی گھی فروخت ہوتا ہے اور بناسپتی گھی فروخت کیا جا رہا ہو۔ سنسکرت کا ایک اشلوک ہے جس کا سلیس ترجمہ ہے۔

’’ یتھا راجہ تتھا پرجا ‘‘

جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

’’ جیسا راجہ ویسی رعایا ‘‘

پاکستان کا حال ہو بہو یہی ہے کہ نہ تو یہاں کے حکمراں شعائر اسلام پر عمل پیرا ہیں نہ عوام ہی عملی طور پر اسلام کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ خوف خدا اور خدا ترسی کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے۔ غالب اکثریت اسلامی احکامات اور ہدایات سے عاری ہے۔ اقبال نے درست کہا ہے کہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

حکمرانوں سے لے کر عوام تک نہ کوئی ایماندار ہے نہ کوئی مخلص۔ سب کے سب مال کمانے میں مصروف نظر آتے ہیں اور ہر کوئی دولت کا پجاری ہے ، ہر کسی کی کوشش ہے کہ راتوں رات امیر بن جائیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ نے مملکت اسلامی کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اور جھوٹے وعدے کرکے برسرِ اقتدار آتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر عملاً آمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رشوت اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور احتساب کا نظام محض ایک مذاق ہے۔ ملکی خزانہ خالی ہو رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی جیبیں بھرنے سے فرصت نہیں۔ مختلف مافیاز من مانی کر رہے ہیں اور عوام الناس اْن کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

آئے دن حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن تبدیلی چہروں کی حد تک ہوتی ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسرِ اقتدار آنے والے حکمرانوں نے بھی عوام سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

بدقسمتی سے  مقتدرہ کا چلن یہی رہا ہے کہ حکمرانی کے مزے لوٹو اور چلے جاؤ۔ انتہا یہ ہے کہ 1971 میں سیاسی ہتھکنڈوں کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوگیا مگر افسوس صد افسوس اس سانحہ عظیم کے ذمہ داروں نے کوئی احساسِ جرم نہیں کیا بلکہ اْن کا وہی ہتھکنڈے آج بھی آزما رہے ہیں۔ وطنِ عزیز کو آج پھر شدید اندرونی اور بیرونی چیلنج درپیش ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اِس کی ذرا بھی پروا نہیں ہے اور وہ مسلسل ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اورکسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

مہنگائی نے عام آدمی کا کچومر نکال دیا ہے اور متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ معاشی دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے عوام کو کسی نہ کسی طرح نکلنے کی جستجو ہے اور نزع کی حالت میں کسی مسیحا کے آنے کا بے قراری کے ساتھ انتظار ہے۔

حکمرانوں اور مال داروں کے وارے نیارے ہیں اور شامت کے مارے عوام کے لیے جسم و روح کا رشتہ بحال رکھنا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے اور عزت دار کو عزت بچانا مشکل ہورہی ہے۔ ایک طرف بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کو لگام دینے والا کوئی نہیں۔ گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے روز مرہ کی اشیاء  روز بروز مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔

قومی بجٹ جو ہر سال ایک مرتبہ آیا کرتا تھا اب روز کا معمول بن چکا ہے اور عالم یہ ہے کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ :

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے اور لوگ کسی بھی طرح روپیہ کمانے کی فکر میں مصروف ہیں۔ ذہنی سکون غارت ہوچکا اور قوتِ برداشت جواب دے رہی ہے۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک طرف دوائیں مہنگی ہیں تو دوسری طرف پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مختلف امراض میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی طرف سے عوام کو کوئی ریلیف تو کْجا نت نئے ٹیکس لگانے کا عمل جاری ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ انسانوں کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔