ایک مستحسن فیصلہ !

شکیل فاروقی  جمعـء 8 جولائی 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب چند میل کے فاصلہ پر واقع آبادیوں کے بسنے والے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے بے خبر رہتے تھے اور اب عالم یہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں ہونے والے واقعے کی خبر آناً فاناً پہنچ جاتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی نے روئے زمین کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور ساگر کو گاگر میں بند کر دیا ہے۔

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

روس اور یوکرین کی جنگ ہے جسے ہم گھر بیٹھے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ہم بذات خود محاذ پر موجود ہوں۔ اسی طرح دنیا بھر کی بے شمار چھوٹی بڑی خبریں ہم تک پلک جھپکتے ہی پہنچ جاتی ہیں لیکن اس باخبری کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اکثر و بیشتر خبریں ہمارے لیے ذہنی دباؤ کا باعث ہوتی ہیں جو حادثات اور سانحات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ:

’’ No news is good news‘‘

یعنی کسی خبر کا نہ ہونا بھی ایک اچھی خبر ہے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لاعلمی بھی ایک رحمت ہے۔

خبر کے حوالہ سے ہمارا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:

جانے کیا ہوگیا ہے دنیا کو

کوئی اچھی خبر نہیں آتی

بی جے پی کی زیر حکمرانی بھارت میں جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات روز بروز نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ بہت دنوں بعد یہ اچھی خبر ملی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حالیہ توہین رسالت کی مرتکب بی جے پی کی ترجمان نُوپُور شرما کے خلاف اپنا بیلاگ اور انتہائی منصفانہ فیصلہ صادر کرکے ایک لائق تحسین مثال قائم کی ہے۔

سپریم کورٹ نے نُوپُور شرما معاملے میں سماعت کرتے ہوئے کئی تاریخی تبصرے کیے، سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا خاص کر اُدے پوُر معاملے میں نُوپُور شرما ہی پوری ذمے دار ہے، نُوپُور شرما نے پورے ملک کے جذبات کی توہین کی ہے، نُوپُور شرما کو ٹی وی پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

نُوپُور شرما کے خلاف ملک کے الگ الگ حصوں میں ہوئے ایف آئی آر کو دہلی ٹرانسفر کرنے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو پھٹکارتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس عورت کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی، کیا آپ نے نُوپُور شرما کے لیے ریڈ کارپیٹ بچھا رکھا ہے، اقتدار کا نشہ دماغ پر حاوی نہیں ہونا چاہیے، ہم پورے معاملے سے واقف ہیں،اس ایک عورت کی وجہ سے پورا ملک خطرے میں پڑ گیا ہے.

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ ایک عدد ایف آئی آر پر آپ ایک صحافی کو فوری طور پر گرفتار کرلیتے ہیں اور درجنوں ایف آئی آر پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی، دہلی میں درج ایف آئی آر پر ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ سپریم کورٹ نے نُوپُور شرما کے وکیل سے کہا کہ’’ آپ یہاں سے جاسکتے ہیں، عدالت کا ضمیر اس معاملے میں بالکل مطمئن نہیں ہے، ہم آپ کی عرضی پر سماعت نہیں کرسکتے‘‘ نُوپُور شرما کے وکیل نے معافی مانگتے ہوئے سپریم کورٹ سے پی آئی ایل کو واپس لے لیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو مورخ سنہری حرفوں میں لکھیں گے۔ اس قسم کے فیصلہ کی ذرا بھی توقع نہ تھی کیونکہ اس وقت پورے بھارت پر ہندو توا کا نشہ سوار ہے اور بھارتی مسلمانوں کی حیثیت اچھوتوں سے بھی بدتر ہے اور کوئی اُن کا پرسان حال نہیں ہے، اگر بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے موقع پر بھی انصاف کے تقاضہ اسی طرح پورے کیے جاتے تو اسلام دشمنوں کے حوصلہ اتنے بلند ہرگز نہ ہوتے اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

سچی اور کھری بات یہ ہے کہ جب سے انتہا پسند ہندو توا کے زہریلے پرچارکوں کا ہندو مہاسبھا کا جنم ہوا ہے اُس وقت سے مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا آغاز ہوا ہے۔بھارت میں آزادی کے بعد جتنے بھی مسلم کش فسادات ہوئے ہیں، اُس کے اصل مجرم ہندو مہاسبھا جَن سَنگھ اور بھارت کی موجودہ حکمراں انتہا پسند متعصب ہندو سیاسی جماعتیں ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان پر سیکڑوں سال تک راج کیا اور اس پورے عرصہ میں کسی ہندو پر آنچ تک نہیں آئی۔اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور وہ کسی کے ساتھ جبر و زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔

تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے ادوارِ حکمرانی میں مذہب کے نام پر نہ صرف کوئی امتیازی سلوک کیا گیا بلکہ ہندوؤں کو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر فائز کیا گیا بلکہ انھیں خصوصی اہمیت دی گئی اور اُن کی قدرومنزلت میں کوئی بھی کمی نہیں کی گئی۔مغل شہنشاہ اکبر کی مثال کو لے لیجیے کہ جس کے نورتنوں میں ہندو وزیر پیش پیش تھے۔ جہانگیر کے دور میں بھی انصاف کے ترازو میں ہندو مسلم کی تفریق کیے بغیر ہندو اور مسلمان سب کے سب برابر تھے۔

حد تو یہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں بھی مالیات جیسے اہم ترین شعبہ کی وزارت ایک ہندو کے ماتحت تھی لیکن اس کے باوجود تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں نے اس عظیم حکمراں کو بدنام  کرنے کی کوشش کی ہے۔ بقولِ شبلی نعمانی:

تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا

کہ عالمگیر ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستم گر تھا

خیال رہے کہ بھارت کے مسلمان محض اقلیت نہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت ہیں لہٰذا انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ خود بھارتی مسلمانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ تقسیم در تقسیم اُن کی سب سے بڑی کمزوری ہے جس کی جانب اقبالؔ نے بہت پہلے یہ کہا تھا۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

صرف ہندوستانی مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی زبوں حالی کا بنیادی سبب بھی اتحاد کا فقدان ہے، ورنہ تو دنیا کی باگ ڈور آج انھیں کے ہاتھوں میں ہوتی۔ کاش!مسلم اُمہ علامہ کے اِس شعر کا مفہوم سمجھ جائے اور ہوش کے ناخن لے ۔

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔