قربانی کا تقاضا

شبیر احمد ارمان  منگل 12 جولائی 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

جس واقعے سے عید الاضحی اور حج کے موقع پر جانور کی قربانی کی سنت ادا کی جاتی ہے وہ سیرت واسوہ ابراہیمی کا عمدہ نمونہ ہے جسے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے سنت ابراہیمی کا نام دے کر امت مسلمہ پر اس کی اتباع ضروری قرار دی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تمام کھٹن مراحل کو طے کرچکے تو بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلا م اپنے نومولودبیٹے کو اپنے بڑھاپے کا سہارا اور میراث پاکر شادماں ہیں تو دوسری طرف منصب امامت پر فائز ہونے کی سب سے بڑی آزمائش بھی اس وقت کی منتظر تھی جب امیدوں اور آرزؤں کا مرکز پیارا اور لاڈلا فرزند جوانی کی دہلیز پر پہنچا تو آپ علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ’’ بیٹا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ،اب بتا تیرا کیا خیال ہے ؟‘‘ بیٹا بھی پیکر تسلیم و رضا  تھا عرض کیا ’’ جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے آپ اسے کر ڈالیے‘‘انشاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے۔

ارشاد الٰہی ہے ’’آخر جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم  تونے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا ۔اللہ کو نہ تو قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عظیم آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعے کی عظمت کا بیان الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ،اسے تصور کی آنکھ سے ہی دیکھا جاسکتا ہے ذرا تصور کریں جب ضعیف والد اپنے لاکھ ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو اللہ کی خوشنودی پر قربان کردینے پر آمادہ ہے اور بیٹا بھی اپنے گلے پر چھری چلوانے کے لیے باخوشی راضی ہے ۔اس وقت کیسا منظر ہوگا ۔بلاشبہ یہ ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر رحمت الٰہی حق نے جوش مارا ،سبحان اللہ ، فرزند کے بدلے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ایک مینڈھا ذبح کردیا گیا ۔یہی وہ بڑی قربانی ہے جسے قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطور سنت جاری کردیا ۔

قرآن مجید نے اس کو شعائر اللہ ، میں شمار کیا ہے اور 10ذی الحجہ کو قربانی کا دن قرار دیا ۔اس روز حج پر گئے ہوئے حجاج کرام منیٰ کے مقام پر قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں جو مسلمان حج پر نہیں گئے ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے ملکوں میں اپنے گھروں میں قربانی کرتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان کے پاس جان و مال کی جو متاع ہے وہ اسی لیے ہے کہ اللہ کے اشارے پر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں ۔جیسا کہ اوپر ارشاد الٰہی بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے ہیں نہ خون ،مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔

مذہبی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی اللہ سے ڈرنے کے ہیں، دراصل یہ فرض شناسی اور احساس ذمے داری کا نام ہے جو انسان میں خوف خدا سے پیدا ہوتی ہے ، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ہر لمحہ یہ احساس رکھے کہ اس نے اپنی عملی زندگی کو آخرت میں خدا کے سامنے پیش کرنا ہے، اس لیے ہر اس کام سے باز رہے جسے اللہ نے منع فرمایا ہے چناچہ اسے اپنی عملی زندگی میں حلال و حرام ،نیک و بد اور معروف و منکر کے درمیان تمیز کرنے کے لیے پوری ہوش مندی سے کام لینا چاہیے ۔

اللہ تعالی نے بندے کو دل و دماغ ،کان ،آنکھیں ،زبان اور ہاتھ پاؤں دیئے ہیں اس کو چاہیے کہ ان سب کو اسی کی ہدایت اور منشا کے مطابق استعمال کرے پھر اگر دنیا میں کوئی دوسرا بندہ خدا ان سب نعمتوں میں سے کسی ایک یا زیادہ سے محروم نظر آئے تو بجائے اس کے کہ اسے دیکھ کر وہ ہنسے اور تکبر کرکے اللہ کا غضب مول لے ،اسے چاہیے کہ اللہ کے خوف سے لرز جائے اور کہے کہ اللہ تیرا شکر ہے جو تونے مجھے وہ نعمت بھی عطا کررکھی ہے جس سے یہ بے چارہ محروم ہے اورپھر آگے بڑھ کر اس نادار کی مدد کرے ۔

قرآن مجید سورہ حج رکوع 5میں ارشاد ربانی ہے ،ترجمہ :’’ اور ان جانوروں کے گوشت میں سے کچھ آپ کھاؤ اور کچھ اس کو کھلاؤ جو صبر سے بیٹھا ہے یا محتاجی سے بے قرار ہے اسی طرح ہم نے وہ جانور تمہارے قابو میں دیئے ہیں تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔اللہ کی راہ میں محتاجوں پر خرچ کیے ہوئے مال کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے۔‘‘ سورہ بقر کی 245ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے ،ترجمہ :’’ تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے، گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔‘‘

ا س قرض حسنہ کی مزید تفصیل کے لیے رسول مقبول ﷺ کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو جس کے بعد مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں رہتی ۔ترجمہ  :  حضرت ابوہریرہ ؓ  سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’ قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا تونے میری تیمارداری نہ کی ۔‘‘بندہ کہے گا’’ اے میرے  پروردگار تو جہاں کا پروردگار ہے میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا ‘‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تجھے خبر نہ ہوئی کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تونے اس کی پرسش نہیں کی ،اور اگر کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘ پھر خدا فرمائے گا’’ اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تونے مجھے نہیں کھلایا ۔‘‘بندہ عرض کرے گا’’ اے میرے پروردگار ! تو سارے جہان کا رب ہے میں تجھے کیسے کھلاتا۔‘‘ اللہ فرمائے گا ’’تجھے معلوم نہ ہوا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تونے اس کو نہیں کھلایا ۔اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کا بدلہ آج میرے پاس پاتا ۔‘‘پھر فرمائے گا ۔’’اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا تونے مجھے پانی نہیں پلایا ۔‘‘بندہ کہے گا ۔’’پروردگار توتو سارے جہاں کا رب ہے میں تجھے کیسے پانی پلاتا ۔‘‘فرمائے گا ۔’’میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا توتو نے اس کو پانی نہیں پلایا ۔اگر تو اس کو پلاتا تو آج تو اس کو میرے پاس پاتا ۔‘‘ (مسلم )

اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا جو باربار تقاضہ اور مطالعہ کیا ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اللہ کو یاد کرکے اس سے ڈرتا رہے اور یہ نہ سمجھنے لگے کہ دنیا میں جو کچھ اسے ملا ہے وہ اس کی ذاتی محنت اور مشقت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان ہر کامیابی کو ذاتی محنت کا ہی نتیجہ سمجھ کر دوسروں پر ظلم و ستم سے جو کچھ ہاتھ آئے اسے اپنا حق تصور کرے ۔

آج جب ہم اپنے معاشرہ پر نظر کرتے ہیں تو جابجا ہمیں ایسے بے شمار لوگ نظر آتے ہیں جو خدا ترس انسانوں سے مدد کی توقعات رکھے ہوتے ہیںان میں سے کچھ انتہائی مجبوری کے تحت اپنا مدعا بیان کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنی عزت نفس کی وجہ سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں ۔

عیدالفطر ہو یا عید الاضحی ایسے مواقع پر خصوصی طور پر ہمیں اپنی خوشیوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو عید کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں جو غریب ،مسکین ہیں تو ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کرنی چاہیے، مدد کرنے کے ایسے طریقے اپنانے چاہیے کہ سائل کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

اپنے سے روٹھے ہوئے لوگوں کو راضی کرنا بھی قربانی کا ایک تقاضہ ہے یہی وہ قربانی ہے جس سے مثبت معاشرہ پروان چڑھتا ہے ہر طرف امن و خوشحالی، پیار، محبت، اخوت، بھائی چارگی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔مادر وطن کے مخصوص حالات فرزندان پاکستان سے قربانیوں کا تقاضہ کررہے ہیں ہم بہ حیثیت پاکستانی شہری کے اپنے اچھے کردار و عمل سے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ قربانیاں دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔