معدنیات سے مالا مال تھر کے عوام افلاس کا شکار کیوں؟

فیاض ولانہ  بدھ 12 مارچ 2014
سیاستدانوں کی اس روایتی بے حسّی اور قابل نفرت کارکردگی کے باعث عام آدمی کا سیاست اور سیاستدانوں سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے۔  فوٹو : فائل

سیاستدانوں کی اس روایتی بے حسّی اور قابل نفرت کارکردگی کے باعث عام آدمی کا سیاست اور سیاستدانوں سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: کوئلے،گرینائیٹ اور چائناکلے (Clay) کے 172 ارب ٹن کے ذخائر کی دولت سے مالا مال علاقہ میں 130 بچے بھوک اور بیماری سے اپنے والدین کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر مر گئے۔

ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں بچے اور سرکاری ملازمین اکٹھے کرکے قومی پرچم لہرانے کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے حکمرانوں کے ذاتی شوق پورے ہو رہے تھے، سندھ فیسٹیول کے نام پہ کروڑوں روپوں کے اخراجات سے سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک کی آڑ میں سیاسی وراثت کی منتقلی کا غیر اعلانیہ عمل جاری تھا تو دوسری طرف قدرتی ذخائر سے مالا مال تھر کے وارث معصوم بچے ہمارے حکمرانوں کی غفلت، نا اہلی اور لاپرواہی کے سنگین انسانی جرائم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے لمحہ لمحہ موت کی وادی میں اتر رہے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کی نشاندہی پر غفلت کی نیند سونے والے حکمرانوں کو بھی تھر کے بے کسوں کا خیال آیا، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اس بات پر میڈیا کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ناراض ہیں کہ میڈیا والے تو خواہ مخواہ شور کرتے ہیں۔

جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت والوں پہ اعتراض کرنے والے جو چاہیں کہیں یہ حقیقت ہے کہ تھر کے عوام کی اشک شوئی کے لیے سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے رضا کار انہی تنظیموں کے تھے۔ بحریہ ٹاؤن کے چیف ایگزیکٹو ملک ریاض حسین نے بھی بیس کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اس امداد کے بعد اب ملک ریاض حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مرنے والے 130 بچوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے بھی دیں گے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف فوری طور پر اپنی ایک دن کی معمول کی مصروفیات ترک کرکے خود تھر کے علاقے کے دورے پر گئے۔ وہاں انہوں نے متاثرین کی بحالی کے کام کا جائزہ لیا، وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے کی فوری امداد کا اعلان کیا۔ حکومتی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی صدارت کی اور سرکاری گوداموں میں گندم موجود ہونے کے باوجود تھر کے مکینوں میں تقسیم نہ کیے جانے کی مجرمانہ غفلت کے مرتکب افسران و اہلکاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے احکامات جاری کیے۔ ان ہنگامی دوروں اور اقدامات کو سراہے جانے کے ساتھ ساتھ ان سے برآمد ہونے والے اچھے اور بُرے اثرات کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔

خوش آئند بات یہ دیکھنے میں آئی کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کا خود استقبال کیا ان کے ہمراہ ہسپتال میں مریضوں کی عیادت کی۔ علاقہ تھر کے دکھی مکینوں کے علاوہ ملک بھر کے عوام کو یہ مثبت پیغام دیا کہ ہمارے سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر دکھ اور درد کے لمحات اور اہم قومی معاملات میں ہم سب ایک ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کو بھی اس اعتبار سے خوش قسمت وزیراعظم قرار دیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی بار انہیں ایسی اپوزیشن نصیب ہوئی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بات ہو، چیئرمین نیب یا چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ یا بھارت کے ساتھ پاک بھارت سرحد پر سیز فائر یا پانی کا جھگڑا، ہمارے محترم قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آگے بڑھ کر میاں نواز شریف کی جانب دستِ تعاون بڑھایا ہے۔ تحریک انصاف والے عمران خان بھی ہزار مخالفانہ بیانات داغنے کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ایک مختصر سی تفصیلی بریفنگ سے ان کے ہم خیال تصور کیے جانے لگتے ہیں۔

اتنی آئیڈل سیاسی فضا میں بھی اگر ہمارے ملک میں دسمبر کے مہینے سے جاری خشک سالی کے باعث پھیلتی بھوک اور بیماری کی اطلاع پورے تین ماہ بعد مارچ میں ہمارے حکمرانوں کے کانوں تک پہنچتی ہے تو سرکار کے وہ تمام خفیہ اور اعلانیہ ادارے کس کام کے جن پر سالانہ سرکاری بجٹ میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ کیا وہ کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھے صوبائی اور وفاقی حکومت تک ایسی اطلاعات بہم نہیں پہنچاتے کہ فلاں علاقے میں خشک سالی کے باعث بھوک اور بیماری حملہ کرنے والی ہے اور اس کے سدّباب کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ پھر وہاں کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کس کے نمائندہ ہیں اور کہاں بیٹھے اپنے ووٹروں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ضرورت پڑنے پر تو شوکت عزیز جیسے موقع پرست شخص کو بھی تھر کے سادہ لوح عوام سے کروڑوں ووٹ دلوا کر رکن قومی اسمبلی منتخب کرا لیا جاتا ہے لیکن جب ذمہ داری اور جواب دہی کی بات آئے تو تھر کے ممبر صوبائی اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ سندھ میں تو پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور مجھے تو ہسپتال کے اندر بھی کوئی داخل نہیں ہونے دیتا۔ اگر ایسی صورتحال تھی تو ارباب رحیم دسمبر سے مارچ تک کس بات کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے از خود قومی میڈیا کے سامنے آکر تھر کی صورتحال بارے بات کیوں نہ کی۔ سیاستدانوں کی اس روایتی بے حسّی اور قابل نفرت کارکردگی کے باعث عام آدمی کا سیاست اور سیاستدانوں سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے۔ ایسے میں بریکنگ نیوز کی دوڑ میں لگے میڈیا کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ دسمبر سے مارچ تک آپ کیوں گونگے بنے رہے، کیا اس لیے کہ ہاں کوئی وینا یا میرا نہیں رہتی۔ ہمارے میڈیا کو بھی سیاست، کرکٹ اور شوبز سے ہٹ کر عوام کی فلاح اور انسان کی بنیادی ضرورتوں سے متعلق معاملات کی رپورٹنگ کو اہمیت دینا ہوگی۔

ہماری حکومتوں اور فلاحی اداروں کو محض چند روز تک تھر کے عوام کی اشک شوئی کے بعد واپس کراچی یا اسلام آباد آکر بیٹھنے کی بجائے تھر کے عوام کے مسائل کے مستقل بنیادوں پر حل کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ اس صورتحال میں صدر مملکت ممنون حسین انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تو ایوانِ صدر داخل ہوتے وقت ہی خیر آباد کہہ چکے، اب وہ پاکستان بھر کے صدر ہیں اور اپنی مرنجانِ مرنج طبیعت کے باعث وہ سب کے لیے انتہائی قابلِ قبول بھی ہیں۔ آگے آئیں اور ایک حقیقی سرپرست کے طور پر دکھی پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کی قومی ذمہ داری ادا کریں۔ تمام صوبائی حکومتیں، وفاق اور فلاحی ادارے ان کی سرپرستی میں تھر کے عوام کی یہ صدیوں سے جاری خشک سالی کی داستاں کے خاتمے کی ہر مثبت کوشش میں ان کے دست و بازو بننے میں فخر محسوس کریں گے۔

قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے فیصلہ کن دور کے آغاز سے قبل دونوں جانب مذاکراتی صف بندی کا عمل جاری ہے۔ اب کی بار دونوں جانب سے مذاکراتی کمیٹیوں میں پہلے سے زیادہ اختیارات کی حامل شخصیات شامل ہوں گی، وزیراعظم نواز شریف نے پہلے والی مذاکراتی کمیٹیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں باور کرا دیا تھا کہ آپ نے اپنا کام بطریقِ احسن سرانجام دے دیا۔ اب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور پاک فوج کی بالواسطہ شمولیت سے ہی معاملات آگے بڑھیں گے۔ ضرورت بھی اب اس امر کی ہے کہ وہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں جن کے براہ راست معاملات ہیں۔

طالبان نے جن کے ساتھ زیادتیاں کیں یا جن اداروں نے امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے کارروائیاں کیں اور اگر کچھ لوگ زیر حراست ہیں تو ان حکومتی نمائندوں کو بھی وہاں موجود ہونا چاہیے کہ ان الزامات یا شکوک و شبہات میں کتنی حقیقت ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ قیام امن کی اس انتہائی سنجیدہ کوشش میں حکومت اور فوج کا بھرپور ساتھ دیں ،کیونکہ اگر یہ کوشش ناکام رہی تو پھر آپریشن تو ہونا ہے جس سے خون خرابہ یقینی ہے اور اسی خون خرابے سے بچنے کی وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ان کی اپنی کابینہ کے بعض ارکان بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششوں کے قطعاً حامی نہ تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔