عامر لیاقت حسین ۔۔ شہرت اور تنازعات میں بسی زندگی گزار گئے۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  اتوار 10 جولائی 2022
عامر لیاقت نے جلد ہی شہرت کی بلندیوں کی چھو لیا تھا، فوٹو: فائل

عامر لیاقت نے جلد ہی شہرت کی بلندیوں کی چھو لیا تھا، فوٹو: فائل

 کراچی: یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب ہمارے ملک میں ’نجی ذرایع اِبلاغ‘ میں صرف اخبارات ہی نمایاں تھے، برقی ذرایع اِبلاغ میں ایک محدود اور ’نیم آزاد‘ ’ایس ٹی این‘ کے علاوہ صرف ’ایف ایم‘ ریڈیو ہی کا ڈنکا بجتا تھا، یہی کوئی اکیسویں صدی کا آغاز تھا، جب یکایک شہر میں قائم ہونے والے دوسرے ایف ایم چینل ”ایف ایم 101“ سے ایک نئی آواز اپنے خوب صورت لب ولہجے، شین قاف کی درستی اور تلفظ کی چاشنی اور برجستگی کے ساتھ سامعین کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہے۔

ایسی اردو تب تک ہم نے صرف ایف ایم 100 پر خلیل اللہ فاروقی صاحب سے ہی سنی ہوئی تھی۔ سو اس آواز کا تعارف ہی یہ بنا تھا کہ یہ سنو تو، کون ہے۔۔۔؟ جب اپنے لب کھولتا ہے، تو خلیل اللہ فاروقی کی طرح جملے کے جملے چست ہوئے جاتے ہیں، جب بات شروع کرتا ہے تو اپنی بامحاورہ زبان میں مترادفات سے لے کر تشبیہات اور تلمیحات کے ایک ڈھیر لگاتا چلا جاتا ہے، ایسے کہ گویا اس کی زبان سے ادا ہونے کے لیے لفظ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے، بس بولنے کا وقت چلا جاتا ہے۔

پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ ’کوئی‘ عامر لیاقت حسین ہیں یہ لگ بھگ نجی ٹی وی چینلوں کی آمد یا کچھ اس سے کچھ ہی وقت پہلے کا زمانہ تھا، پھر کچھ ہی دن میں جب ملک کے نجی خبری چینلوں کے باب میں ”جیو“ کی شروعات ہوئی، عامر لیاقت کے لیے بھی یہ ایک نیا آغاز تھا۔

’ایف ایم 101‘ پر ان کا یہ مختصر سلسلہ تمام ہوا، تاہم وہ اپنے سامعین کو گرویدہ کر گئے تھے۔ یہاں انھیں ہندوستان میں امیتابھ بچن کے سوال وجواب کے مشہور پروگرام ”کون بنے گا کروڑ پتی؟“ کی طرز پر ”موبی لنک اور جیز بنائے منٹوں میں مالا مال!“ کے عنوان سے ایک پروگرام کرنے کا موقع ملا۔ جس میں وہ ٹیلی فون کال پر بالکل امیتابھ کی طرح سوال جواب کرتے اور ممکنہ جواب کے اشارے دیتے۔ پھر ’جیو‘ چلے جانے کے بعد ایک مرتبہ ’ایف ایم 101‘ کی سال گرہ وغیرہ کے کسی خصوصی پروگرام میں وہ بھی آئے تھے اور انھوں نے ’ایف ایم‘ سے اپنے تعلق کی یادیں تازہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’آج میں رکن قومی اسمبلی ہوں‘ تو یہ امر ہمارے لیے باعث حیرت اور انکشاف تھا۔ تب جا کر ہم پر ان کی سیاسی وابستگی کا عقدہ کھلا اور معلوم ہوا کہ اچھا یہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے وابستہ ہیں اور دراصل ’ایم کیو ایم‘ ہی کی رابطہ کمیٹی کے رکن شیخ لیاقت حسین کے صاحب زادے ہیں۔

پھر چل سو چل عامر لیاقت حسین پر شہرت کے ساتھ ہی تنازعات کی سرحدیں بھی وسیع ہوئیں۔ ’ڈاکٹریٹ‘ کی ڈگری جعلی ہونے کی بات بہت اُٹھی، جب بہت سی سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنی جعلی ڈگریوں کے سبب نا اہل قرار پا رہے تھے، اسی بازگشت میں 2007ءمیں انھوں نے ایک مذہبی مسئلے پر اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور چھوڑ دی، بلکہ اپنی سیاسی جماعت اور سیاست سے بھی مکمل علاحدگی اختیار کرلی، اور اپنے سنجیدہ ٹی پروگرام ’عالم آن لائن‘ میں مصروف ہوگئے، جس میں انھوں نے رمضان المبارک اور دیگر مخصوص مذہبی ایام میں خصوصی نشریات کا ایک رجحان بھی پیش کیا، پھر ان سے وابستہ کچھ تنازعات بھی اٹھنے شروع ہوئے۔ جس میں 2011 ءمیں ان کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ’پس پردہ‘ کی ’بے تکلفی‘ کے دوران گالم گلوچ وغیرہ کی ریکارڈنگ سامنے آئیں۔ یہ شاید ایسی پوشیدہ ویڈیو منظر عام پر آنے کا پہلا بڑا واقعہ تھا، جس کے وہ جعلی ہونے کی صفائیاں دیتے رہے، لیکن اس دوران ان کی نگاہ واضح طور پر چغلی کھاتی تھی۔

خیر، پھر ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ کے پھیلاﺅ کے بعد کئی مرتبہ وہ اس ’ذریعے‘ کی چکا چوند کے منہ زور طوفان میں بہتے ہوئے نظر آئے۔ کبھی مذہبی تنازعات، تو کبھی کچھ کہتے ہوئے قافیے سے قافیے ملاتے ملاتے بہت زیادہ آگے نکل جاتے بد تہذیبی اور بدتمیزی کے ساتھ ذاتیات پر بات کرنا ان کے اخباری کالموں، ٹی وی پروگراموں میں خاصا عام چلن رہا۔ پھر وہ فقروں پر فقرے کستے، ایک لمحے میں بات سے بات بدل دیتے، معنوں میں الٹ پھیر کر کے بات کا مقصد گھما دیتے، جس سے ان کا سنجیدہ تشخص بھی بری طرح مسخ ہوتا، ورنہ ان کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں خہ وہ ذہین اتنے تھے کہ اگر تحمل کے ساتھ کوئی تعمیری اور سنجیدہ سمت متعین کرتے تو بلاشبہ اس سماج کے بھلے کے لیے خاصے کارآدمد ہو سکتے تھے۔

’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ میں ’بات برائے بات‘ ایک بات کے دوسرے مطلب نکالنے والے اور ’بات کا بتنگڑ‘ بنانے والے ’صارفین‘ نے شاید جس کے جملوں کو سب سے زیادہ لطف اٹھانے کے لیے خوب پھیلایا اور ’جدید ضرب المثل‘ کی طرح بہت فروغ دیا، شاید ہی اس میدان میں کوئی ان کا ثانی رہا ہو ایسے فقروں کے حوالے سے تو ایک علاحدہ مضمون بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے، جو دانستہ اور غیر دانستہ طور پر ان کی زبان سے نکلے اور مشہور ہوئے اور اب بھی نہ جانے کب تک اتنی ہی شدومد کے ساتھ استعمال کیے جاتے رہیں گے۔

ان کی زندگی کے نشیب وفراز، کام یابیوں اور ناکامیوں سے لے کر خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر ان کا ایک کردارا ایسا ہے کہ اس باب میں یہ نقصان خاصا گہرا ہے اور وہ ہے کراچی اور مہاجروں کے لیے ہر جگہ اور ہمیشہ ببانگ دہل انداز میں آواز اٹھانا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی لوگ ’تجاہل عارفانہ‘ سے کام لیتے ہوئے لفظ ’مہاجر‘ کے لغوی معنی کی بحث اٹھانے لگتے ہیں کہ آپ 70 برس بعد بھی مہاجر کیسے ہیں اور ہجرت تو آپ کے باپ دادا نے کی تھی آپ خود کو کیوں مہاجر کہتے ہیں وغیرہ، جس کی بنا پر بڑی بڑی شخصیات بھی عام منچ پر ’مہاجر تشخص‘ کی بات کرنے سے گریزاں رہتی ہیں، کیوں کہ ماحول ہی ایسا رہا کہ آپ جب بھی یہ بات کرتے، چاروں طرف سے ’عدم قبولیت‘ کے رویے دکھائے جانے لگتے ہیں، انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے ایک سینئر صحافی کو کراچی جیسے شہر میں بھی صرف اِس بنا پر ملازمت ملنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کھل کر اپنے لسانی وقومی حقوق کا سوال اٹھاتے رہتے ہیں، یہی وجہ رہی کہ اس اہم موضوع پر مہاجر اکابر نجی محفلوں میں تو کچھ لب کھول لیتے، لیکن عام تقریبوں میں بہت زیادہ مصلحتوں کا شکار ہوتے، ایسے میں عامر لیاقت حسین اپنی سیاسی وابستگیاں بدلنے کے باوجود ڈنکے کی چوٹ پر اپنی اس فکر کا اظہار کرتے پائے جاتے اور اپنی مقبولیت کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کراتے کہ اس ملک میں مہاجر بھی برابر کی ایک لسانی اکائی ہیں، اور ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی خود اپنے ’مہاجر‘ ہونے کی بنا پر کسی بھی تفریق کا احساس بھی وہ کبھی اپنے دل میں دبا کر نہیں بیٹھے، بلکہ برملا اس کا اظہار کیا۔

عامر لیاقت حسین 2018ءمیں کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن انھوں نے عمران خان سے اپنے سیاسی اختلافات کا اظہار کر دیا تھا۔۔۔ وہ دنیا کی 500 بااثر مسلمان شخصیات میں شامل رہے، عصر حاضر میں اُن جیسی اردو اور خطابت کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ انسان بہرحال انسان ہوتا ہے اور علم اور شہرت کی سمائی پانا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے، اور عامر لیاقت ان دونوں کے بھاری بوجھ تلے کچلتے چلے گئے اللہ جانے انھیں اس کا احساس تھا بھی یا نہیں تھا، پھر ان کی ذاتی زندگی بھی متاثر ہوئی، اس میں پیدا ہونے والی تلخیاں بھی خبروں میں آنے لگیں، پہلی بیوی بشریٰ سے علاحدگی کے بعد یکے بعد دیگرے دو ناکام شادیاں، اور چوتھی شادی کی دعوے دار خاتون کا سامنے آنا، ان کی گھریلو زندگی کی شدید بے چینیوں کی خبر دے رہے تھے۔ اور پھر جب لگ بھگ ایک ماہ پہلے عامر لیاقت حسین نے اپنی تیسری بیوی دانیہ شاہ کی جانب سے ان کی انتہائی ذاتی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے بعد شدید دل برداشتہ ہو کر ایک ویڈیو بنائی تھی، اس میں عامر لیاقت کی حالت نہایت افسوس ناک اور قابل رحم تھی وہ زاروقطار رو رہے تھے اور دنیا میں لوگوں سے کی گئی بھلائیاں اور فلاحی کام گنوا رہے تھے۔

یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد نفسیات کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کے طور پر یہ بات شدومد سے محسوس ہوئی تھی کہ عامر لیاقت اس وقت اپنی زندگی کے بحرانوں اور غلطیوں کے باعث بے بسی کی ایک انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اب غلطی ہو یا نہ ہو انسان کی یہ حالت اس کی بے بسی کا انت ہوتا ہے کہ جہاں وہ زار وقطار رونے لگتا ہے، یہاں وہ کسی بھی انتہائی انجام سے بھی دوچار ہو سکتا ہے، جو خود کو نقصان پہچانے سے لے کر شدید اور جان لیوا بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں یہی خیال آیا تھا اور شاید ہم نے ’فیس بک‘ پر کسی کی جانب سے لگائی گئی اِس ویڈیو پر لکھا بھی تھا کہ انھیں اس وقت باقاعدہ نفسیاتی علاج کی اشد ضرورت ہے۔ کاش، اس وقت ان کا بیٹا ساری تلخیوں اور اختلافات کو بھلا کر صرف اس لیے ان کے پاس آجاتا کہ آخر وہ اس کے باپ تھے! صحیح یا غلط سے قطعہ ¿ نظر اس وقت شدید ترین تنہائی اور پژمردگی کا شکار ہو رہے تھے۔ انھیں اس وقت کسی اپنے کے ایسے سائبان کی ضرورت تھی، جو انھیں اپنے ہونے کا احساس دلائے اور جینے کا حوصلہ دے اور وہ یقیناً ان کا بیٹا احمد اور بیٹی دعا ہی ہو سکتی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ اس سنگینی کا ادراک نہ کر سکے، یا پھر ان کے اختلافات اور فاصلے اتنے تھے کہ وہ اس موقع پر بھی انا کی اونچی دیوار بن کر حائل رہے۔۔۔ پھر بہت دیر ہوگئی، انھوں نے ہار کر ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑنے کا اعلان کر دیا، اگرچہ عامر لیاقت نے اس آب دیدہ ویڈیو کے بعد ایک اور ذرا مختلف ویڈیو بھی ریکارڈ کرائی، جس میں اگرچہ وہ پرسکون دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے اپنے باطن کے دکھوں اور تکلیفوں کو ظاہری مسکراہٹ سے چھپایا ہوا تھا یا واقعی وہ اس کیفیت سے باہر نکل آئے تھے۔

’ایکسپریس‘ ان کا آخری ادارہ ثابت ہوا، جہاں وہ چند ماہ پہلے تک موجود رہے۔ ہمیں دفتر ’ایکسپریس‘ ایک سے زائد بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، کبھی جلدی میں آتے جاتے اور کبھی اپنا کالم ’لاﺅڈ اسپیکر‘ بھیجنے کے سلسلے میں وہ ہمارے ساتھ موجود ایڈیٹوریل انچارج نادر شاہ عادل صاحب کے پاس آتے۔۔۔

اس موقع پر وہ ہمیشہ ہی بہت جلدی میں ہوتے تھے، شاید جلدی جلدی انھوں نے اپنی زندگی گزاری اور ایسے ہی بھاگم دوڑیمیں وہ 9 جون 2022ءکو دنیا کی حدود سے باہر نکلتے چلے گئے۔۔۔ ان کے قریب کے لوگ توجہ کی حصول کو ان کی کمزوری بتاتے تھے، اب اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ انھوں نے اپنی موت سے بھی دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، اس موقع پر ان کا مسکراتے ہوئے وہ مشہور ہونے والا جملہ کہنا یاد آتا ہے کہ
”ہاں بھئی، کیسا دیا۔۔۔؟“

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔