ہر کوئی سایہ شجر مانگے

راضیہ سید  پير 8 اگست 2022
درختوں کا کیا قصور ہے جو ان کا قتل عام کیا جارہا ہے؟ (فوٹو: فائل)

درختوں کا کیا قصور ہے جو ان کا قتل عام کیا جارہا ہے؟ (فوٹو: فائل)

سلمان نے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی لیکن پارکنگ کےلیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک تو گرمی کا موسم اور اوپر سے سورج آگ برسا رہا تھا۔ اس بڑے پلازے کے گرد جہاں اس کا دفتر تھا، روزبروز مزید نئی عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے سایہ دار مقامات ختم ہورہے تھے۔

سلمان کے دفتر میں ہر کسی کی یہی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ وہ سایہ دار جگہ پر اپنی سواری پارک کریں لیکن ہر مرتبہ کبھی کوئی بازی لے جاتا تو کبھی کوئی کسی کو مات دے دیتا۔ سبھی آپس میں کڑھتے اور جھگڑا کرتے لیکن کوئی بھی یہ نہیں سوچتا تھا کہ جو تعمیراتی کمپینیاں اس علاقے میں پھول پودے تباہ کرکے رہائشی اور دفتری عمارات بناکر پیسے بٹور رہی ہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے۔

ٹمبر مافیا، جنگلات کو آگ لگانا، درختوں کی کٹائی، ان سب میں ہم سب براہ راست نہیں تو کسی نہ کسی ذریعے سے شریک ہیں، کیونکہ ہم ان سب غلط کاموں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے سائبان خود ہی ختم کررہے ہیں۔ ایک طرف درخت کاٹ رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے سائے کےلیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ الٹا ماحولیاتی آلودگی کا رونا رو رہے ہیں۔

سب سے باتیں جتنی مرضی کروا لو کہ درخت بہت کٹ رہے ہیں، بارشیں نہیں ہورہیں، گرمی بہت پڑ رہی ہے اور لوگ پودے نہیں لگارہے، لیکن اتنی ہمت کسی میں نہیں کہ بازار سے ایک گملہ خرید کر اس میں ایک پودا ہی لگا لیں۔ اسے باقاعدہ کھاد دے کر، پانی دے کر نگہداشت کریں تاکہ نہ صرف ایک دن وہ تناور درخت بن کر ان کےلیے بھی باعث ثواب ہو بلکہ دوسروں کےلیے بھی راحت کا سامان بنے۔

ہمارا معاشرہ عمل کا نہیں بلکہ باتوں کا ہی بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں، جبکہ کسی بھی ملک کے 25 فیصد حصے پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے کل رقبے کے 19 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ میں سے صرف ایک کروڑ رقبے پر جنگلات ہیں۔ جب شجر کاری مہم شروع کی جاتی ہے تو ایک ہی پودا لگا کر بس کر لیا جاتا ہے، پودوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

اگر کوئی حکومت درخت لگا بھی دے تو مخالف سیاسی جماعت کے اراکین نفرت اور تعصب کی بنا پر پودے تک اکھاڑ لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کی کوئی توجہیہ نہیں ہے اور کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ ایک غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔

پاکستان میں جنگلات پہلے ہی کم ہیں۔ نہری علاقوں جیسے تونسہ، گدو، چھانگا مانگا، بہاولپور، سکھر میں نہروں کے کناروں پر درخت لگائے گئے ہیں، جن میں کیکر، دریک، پھلاہی اور شیشم کے درخت ہیں۔ شمال اور شمال مغربی جنگلات میں سدا بہار درخت ہیں، جن میں دیودار، صنوبر، کیل درخت ہیں۔ آخر ان درختوں کا کیا قصور ہے جو ان کا قتل عام کیا جارہا ہے؟

ہمارے ہاں گرین بیلٹس کی حالت بھی درست نہیں۔ ان کھلی اور ہوادار جگہوں پر بھی کوڑا کرکٹ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں چپس، ٹافیوں کے ریپر، جوس کے ڈبے، کھانے کی باقیات اور بھی طرح طرح کی غلاظت دکھائی دیتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی دیہاتی بھائی یہاں آبھٹکے تو اس نے بھی اپنے جانوروں کو گرین بیلٹس سے ہی گھاس کو بطور چارہ ہی استعمال کرنا ہے۔

مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہم کینیا سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کینیا میں گرین بیلٹس کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔ وہاں پروفیسر ونگار مارتھائی نے 1977 سے اس کام کا آغاز کیا اور کینیا میں 51 ملین سے زیادہ پودے لگائے اور کینیا میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کےلیے ان کی خدمات کے عوض انھیں 2004 میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔

لیکن ہمارے ملک میں کوئی اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ درخت کاٹ کاٹ کر ہاؤسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں اور ان بڑے بڑے لینڈ مافیاز اور ٹھیکے داروں سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

راولپنڈی میں میٹرو بس سروس منصوبہ 45 ارب میں مکمل ہوا لیکن اس کےلئے 400 سے زائد چھوٹے بڑے درخت کاٹے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنے یا اس سے بھی نصف تعداد میں درخت دوبارہ لگائے گئے؟ یقیناً نہیں۔

کئی لوگ ایسے ہیں جو اس معاشرے کے تحفظ کےلیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، پودے لگا رہے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے اور آئندہ یہ اور بھی ہوگا۔ ہمیں اپنی آئندہ نسل کو تحفظ دینے کےلیے اچھا اور صحت مندانہ ماحول تشکیل دینا ہوگا جو شجر کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔