پاکستان اسٹیل میں 10 ارب روپے کے میٹریل کی چوری، تحقیقات کا آغاز

کاشف حسین  اتوار 7 اگست 2022
نشاندہی کے باوجود ملوث انتظامی افسران کیخلاف کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، ذرائع
فوٹو: فائل

نشاندہی کے باوجود ملوث انتظامی افسران کیخلاف کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، ذرائع فوٹو: فائل

 کراچی: وزارت صنعت و پیداوار کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان اسٹیل میں 10 ارب روپے کے میٹریل کی چوری کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ سے یکم جنوری 2018سے اب تک پاکستان اسٹیل میں تعینات کیے گئے، ہیڈ آف سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ، ویئرہاؤس، اندرونی و بیرونی دروازوں اور اسٹوریج پر تعینات سیکیوریٹی گارڈز کو سپروائز کرنے والے انچارج سیکیورٹی کے نام، پتہ، شناختی کارڈ نمبر، تقرری کی تاریخ، اب تک کی تمام پوسٹنگز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

پاکستان اسٹیل کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایف آئی اے کے ذریعے 10 ارب روپے کی چوری کی تحقیقات کے آغاز کے باوجود چوری کی نشاندہی کرنے والی رپورٹ میں ملوث انتظامی افسران کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں موجودہ ذمہ داریوں سے الگ کیا گیا جس سے ان افسران اور اہلکاروں کا تحقیقات پر اثر انداز ہونے کا امکان موجود ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اسٹیل سے 10 ارب روپے کا میٹریل چوری ہونے کا انکشاف

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل میں 10 ارب روپے کی چوری میں نامزد سابق اے ڈی جی ایم/انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی 3اگست 2022کو ریٹائر ہونے کے اگلے روز ہی کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کرلیے گئے جنہیں 10ارب روپے کی چوری کی تحقیقات کے ہر مرحلے میں پورا عمل دخل حاصل ہے جس سے اس تاریخی چوری کی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

پاکستان اسٹیل کے سی ای او برگیڈیئر ریٹائرڈ شجاع حسن کی اچانک وفات کے بعد حکومت کی جانب سے سی ای او کے عہدے پر کوئی تقرری نہیں کی گئی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 10ارب روپے کی چوری میں نامزد اعلی انتظامی افسران ہی خود کو قائم مقام سی ای او کا عہدہ کا سب سے موزوں امیدوار ثابت کرنے کے لیے لابنگ میں مصروف ہیں۔

انصاف لیبر یونین (سی بی اے) نے وفاقی وزارت صنعت و پیداوار سے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے سی ای او کا عہدہ فوری طور پر وزارت صنعت و پیداوار کے سیکریٹری یا کسی دوسرے سینئر افسر کو سونپا جائے تاکہ سی ای او کی مستقل تقرری کے مراحل میرٹ کی بنیاد پر شفافیت کے ساتھ پورے ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔