فارن فنڈنگ کیس، ایک نیا میثاق جمہوریت؟

فاروق عادل  پير 8 اگست 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہمارے یہاں ایک نئے عہد کی ابتدا کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ چھ آٹھ برس کے دوران میں ہم بڑے پیمانے پر سیاسی تقسیم کا شکار ہوئے۔ یہ تقسیم فقط سیاست تک رہتی تو بھی غنیمت ہوتا۔ یہ تقسیم نفرت میں بدل گئی۔ نفرت کی اس آگ میں بہت کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ مثال کے طور پر رکھ رکھاؤ، روا داری اور برداشت۔

تازہ خبر یہی ہے کہ سعودی عرب میں مسجد نبویﷺ کے تکلیف دہ واقعے کے ذمے دار مختلف افراد کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ مسجد نبوی ایک ایسا مقام ہے جہاں فرشتے بھی سر جھکا کر چلتے ہیں لیکن بدقسمتی سے چند پاکستانی مزدور اس نفرت کے آلہ کار بن کر صرف اپنی زندگی ہی نہیں آخرت بھی تباہ کر بیٹھے۔ مسجد نبوی کا واقعہ بھی نفرت ہی کی ایک بدترین مثال ہے۔

اس واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پہلو زیر بحث لایا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس واقعے میں پکڑے جانے والے بے علمی یا بسب جہالت یہ گناہ کر بیٹھے ہوں؟ اس امکان کی کسی حد تک گنجائش نکلتی ہے لیکن اگر ایک پڑھا لکھا آدمی محض سیاسی اختلاف کی بنا پر کسی خاتون سیاسی رہنما کے بارے قابل اعتراض جملے بازی کرے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا سیاسی مخالفت کی بنیاد پر جائز قرار دیا جا سکتا ہے کہ کسی کے نام و نسب پر حرف گیری کی جائے؟ اس کا کوئی قرینہ نہیں۔ نہ اب، نہ ماضی میں اور نہ آیندہ کبھی لیکن ہمارے یہاں یہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ چند برس کی سیاست میں اس قسم کے رویوں کی مثالیں تلاش کی جائیں تو طویل فہرست تیار ہو جائے گی۔ یہ اس کا محل نہیں ہے۔ ضرورت یہ سمجھنے کی ہے کہ اس رویے سے پیدا ہونے والے نقصانات کیا ہیں۔ اس رویے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ فریق مخالف کو دیوار سے لگا کر، زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دے کر بلکہ بدترین صورت میں سزائے موت دلوا کر بھی آتش انتقام ٹھنڈی نہیں ہوتی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت ہماری سیاسی زندگی کا تکلیف دہ واقعہ ہے۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں ایک سیاسی مخالف کا صفایا تو ہو گیا لیکن ہماری قومی سیاسی زندگی اس سے بہت بری طرح متاثر ہوئی جس کے منفی اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ یہی کچھ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔

جنرل مشرف نے انھیں عمر قید دلوائی، اس پر دل ٹھنڈا نہ ہوا تو انھیں سزائے موت دلوانے کے لیے اپیل دائر کر دی گئی۔ سزائے موت ممکن دکھائی نہ دی تو جلا وطن کر دیا۔ جنرل مشرف کے تجربے کی ناکامی کے بعد بہتر ہوتا کہ سبق سیکھ لیا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔

2014 سے شروع ہونے والے سیاسی دور میں نفرت کا کاروبار نئی بلندیوں پر جا پہنچا۔ اسپتال میں داخل ہو کر کسی بیمار کے سر پر نعرے لگانا، سیاسی مخالف کو نا اہل قرار دلوانے کے بعد بھی آتش انتقام کا سرد نہ ہونا اور اقتدار ملنے کے بعد بھی انھیں دیوار سے لگانے کے سوا کوئی اور کام ہی نہ کرنا اسی رویے کی واضح علامتیں ہیں۔ ان واقعات کے بیان کا مقصد عمران خان کے سیاسی مخالفین کی مظلومیت کی داستان بیان کرنا نہیں بلکہ اس ماحول اور ذہنی و جذباتی فضا کو اجاگر کرنا ہے جس میں عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر غیر فارن فنڈنگ کا الزام ثابت ہوا ہے۔

کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر آٹھ دس برس سے تحریک انصاف اور اس کے پیروکاروں کا نشانہ بنے رہنے والے سیاسی گروہوں کے گھروں میں خوشی کے شادیانے نہ بجے ہوں؟ یہ انسانی مزاج کے خلاف ہے۔ یہی سبب ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام مخالفین کی صفوں میں اس وقت مسرت کی لہریں صاف دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے باوجود اس فریق کی طرف سے یہ کہا جانا غنیمت ہے کہ ان کی طرف سے ایسا رویہ کبھی اختیار نہیں کیا جائے جیسا رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ سیاسی روا داری کا ارادہ ظاہر کرنے کے باوجود حکومت پی ٹی آئی کی تحلیل اور عمران خان کی نا اہلی کے سلسلے میں ڈیکلریشن جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حکومت ایسا کرتی ہے تو جیسا کہا جا رہا ہے، یہ اس کی ذمے داری ہوگی۔ اس میں قانون کے خلاف بھی کچھ نہیں لیکن کسی سیاسی عصبیت کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے آج تک ختم کیا جاسکا ہے اور نہ آیندہ ایسا ممکن ہو گا۔ ایسا ہو پاتا تو ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف اب تک قصہ پارینہ بن چکے ہوتے۔

عمران خان کو بھی کوئی استثنا نہیں ہے لیکن یہاں ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے۔عمران خان کے پیروکار اپنے رہنما کو ایک سیاسی رہنما نہیں سمجھتے، انھیں نجات دہندہ بلکہ اس سے بڑھ کر کوئی برگزیدہ شخصیت سمجھتے ہیں۔ اس کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔چند روز قبل ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پی ٹی آئی کے ایک لیڈر سینئر صحافی سے الجھ گئے کہ وہ عمران خان کے نام کے ساتھ دیگر سیاست دانوں کا نام کس طرح لے سکتے ہیں؟ ایسا ہی رویہ ان کے کم و بیش تمام پیروکاروں کا ہے۔ اس رویے کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہے کہ موجودہ چیلنج سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت یا پی ٹی آئی کے مخالفین قانون کے مطابق پارٹی کی تحلیل اور نا اہلی کے لیے متحرک نہیں ہوتے تو اسے مخالفین کی سیاسی روا داری نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اسے مخالفین کی کمزوری اور عمران خان کے راہ راست پر ہونے کی دلیل قرار دیا جائے گا۔ یہ انداز فکر سیاسی رواداری کے تمام دروازے بند کر دیتا ہے ۔

اس پیچیدہ نفسیاتی کیفیت میں آگے بڑھنے کی ایک ہی راہ دکھائی دیتی ہے اور وہ ہے پی ٹی آئی اور عمران خان کا بھی اسی تجربے سے گزرنا جس سے ان کے مخالفین گزارے گئے اور عمران خان نے اس میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔

عمران خان کی نااہلی اور پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے لیے قانونی چارہ جوئی اس حکمت عملی کا محض ایک ابتدائی حصہ ہو سکتا ہے۔ اس کا دوسرا حصہ وہ تجربہ ہے جس سے گزر کر ہماری پرانی سیاسی جماعتوں میں اعتدال، برداشت اور رواداری پیدا ہوئی ہے۔

اس تجربے سے گزرنے کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت میں بھی اعتدال پیدا ہو گا اور وہ بقائے باہمی جذبے کے ساتھ سیاست کر سکے گی۔ پی ٹی آئی کے مزاج میں ایسی مثبت تبدیلی رونما ہو جاتی ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو جائے۔ ایسا ہو جاتا ہے تو تا حیات نا اہل قرار دلوانے کی دوڑ ہی ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ نواز شریف اور عمران خان دونوں بھی سیاسی میدان میں واپس لوٹ سکیں گے۔ یہ ایک نیا میثاق جمہوریت اور نئے دور کی ابتدا ہو گی۔ ایسا کسی جھٹکے کے بغیر ہو جائے تو اس سے بہتر کیا ہو گا لیکن پی ٹی آئی کا مزاج اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔