- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
فسکل اور اسٹرکچرل ریفارمز معاشی مسائل کا حل
لاہور: اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا یہ بیان کہ افراطِ زر کو نیچے لانے کے لیے مانیٹری پالیسی کو معاشی تنزلی پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا اور مثبت شرح سود طویل المدت طور پر حاصل کی جاسکتی ہے، درست سمت میں اہم قدم ہے۔
ذرائع ابلاغ مسلسل رپورٹ کر رہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال میں افراطِ زر کی شرح 20 فیصد تک رہے گی، اس تناظر میں مارکیٹوں میں یہ تحفظات پائے جارہے تھے کہ مرکزی بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں مزید سختی اقتصادی تنزلی کا سبب بن سکتی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتیں بلندی کی جانب گامزن ہیں، اور رواں مالی سال میں ایک اور عالمی اقتصادی بحران کے آثار نظر آرہے ہیں۔ دیگر اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی طرح پاکستان کو بھی بڑھتی مہنگائی کا سامنا ہے۔ اقتصادی تنزلی کی وجہ سے غربت اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔
ایس بی پی ایکٹ 2022ء میں ترمیم کے بعد افراطِ زر اسٹیٹ بینک کا بنیادی ہدف ہے۔ موجودہ مانیٹری اور ایکس چینج ریٹ فریم ورک افراطِ زر پر قابو پانے اور اس بنادی مقصد کے حصول کے دو بنیادی عامل ہیں۔
اسٹیٹ بینک افراطِ زر کی شرح کی پیش گوئی تبدیل کرتا رہا ہے۔ افراطِ زر پر قابو پانے اور اسے مینیج کرنے میں ناکامی سے مارکیٹ میں تغیرپذیری واقع ہوتی ہے اور مارکیٹ قرض گیروں سے بلند پریمیئم چارج کرتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ صرف مالیاتی اقدامات سے تمام معاشی چیلنجز حل نہیں ہوسکتے۔
یہ اقدامات فسکل اور اسٹرکچرل ریفارمز کو سپورٹ کرسکتے ہیں جو معاشی مسائل حل کرنے کے اصل آلات ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔