ڈالر مہنگا ہونے سے بلڈ بیگز بھی مہنگے، مریضوں کو مشکلات

طفیل احمد  منگل 9 اگست 2022
بلڈ بیگزکی قلت ،سربراہ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی، ایل سیز نہیںکھولی جارہیں، درآمد کنندگان۔ (فوٹو: فائل)

بلڈ بیگزکی قلت ،سربراہ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی، ایل سیز نہیںکھولی جارہیں، درآمد کنندگان۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔

ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بیرون ممالک سے درآمد کیے جانے والے خالی بلڈ بیگزکی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے غریب مریضوں بالخصوص تھیلیسمیا کے بچوں کے علاج معالجے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

دوسری جانب درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک سے درآمد کیے جانے والے خون کے بیگز اور دیگر سرجیکل سامان کی مارکیٹ میں قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی، جس کے واضح امکانات ہیں، تو خون کے بیگز سمیت بیشتر سامان کی ملک میں شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔

ایکسپریس ٹریبیون کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل 2022 میں سنگل خالی بلڈ بیگ (500 ملی گرام ) کی قیمت 249 روپے تھی جو بڑھتے بڑھتے جولائی میں 300 روپے فی بیگ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ڈبل بیگ کی قیمت اپریل میں 465 روپے تھی جوجولائی میں 600 روپے کردی گئی۔ اسی طرح ٹرپل بیگ کی قیمت اپریل میں637 روپے سے بڑھ کر اب 825 روپے ہوگئی ہے۔

بلڈ بینکوں میں ڈبل اور ٹرپل بلڈ بیگ کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ خون میں شامل پلیٹلیٹس اور پلازمہ کو یقینی طور پر محفوظ بنایا جاسکے۔ خون کے ان دونوں اجزا کو محفوظ بنانے کیلئے ڈبل اور ٹریپل بلڈ بیگ زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بلڈبیگز کے ساتھ بلڈ ٹرانسفیوژن سیٹ کی قیمت بھی 150 روپے سے بڑھاکر 250 روپے کردی گئی ہے۔ خون کی اسکریننگ کی قیمت اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ اس طرح ایک مریض کو خون لگوانے کے لیے کم سے کم 4 تا 8 ہزار روپے ادا کرنے پڑرہے ہیں۔

اس صورتحال کی وجہ سے چند فلاحی اداراے ایسے ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت متاثرہ مریضوں پر اضافی بوجھ نہیں ڈال رہے۔ دوسری جانب تجارتی بنیادوں پر خون فراہم کرنے والے ادارے خون کے بیگ، خون کی اسکریننگ کے 11 ہزار روپے وصول کررہے ہیں۔

مارکیٹ میں خون کے بیگز کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے ’’ ایکسپریس ٹریبیون ‘‘ نے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی سربراہ ڈاکٹر درے نازجمال سے رابطہ کیا جس پر انھوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے صحت کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

سندھ حکومت بلڈ بیگز اور دیگر سرجیکل آئٹم کی قیمتوں میں کمی کا اختیار نہیں رکھتی تاہم میں نے محکمہ صحت سے درخواست کی ہے کہ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے بات کی جائے تاکہ ان ضروری سامان کی قیمتوں میں نظرثانی کی جاسکے۔

انھوں نے کہا کہ سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے تحت رجسٹرد بلڈ بینکوں کی تعداد 169 ہے۔ ان تمام بلڈ بینکوں کو بلڈ بیگ کی قلت کا سامنا ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان بلڈ بینکوں کو مناسب قیمتوں میں خون کے بلڈ بیگز فراہم کیے جائیں تاکہ مریضوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جاسکے۔

واضح رہے کہ سندھ بھر میں تھیلیسمیا سمیت دیگر مریضوں کو انتقال خون کے لیے ماہانہ ڈھائی لاکھ بلڈبیگزکی ضرورت ہوتی ہے۔

درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے بیرون ممالک سے درآمد کیے جانے والے طبی سامان کی ایل سی بھی نہیں کھولی جارہی۔ ایل سی نہ کھولنے کی وجہ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھائو بتائی جارہی ہے۔

دریں اثنا ایک نجی اسپتال میں ڈائلیسس کروانے والے مریضوں نے بتایا کہ ظالم حکمرانوں نے ڈالر 170 روپے سے 3 ماہ کے دوران 240 روپے تک پہنچا دیا جس کی وجہ سے ہم جیسے مریضوں کو جو ڈائیلیسز یا کسی بھی پروسیجر سے گزر رہے ہیں شدید مہنگائی کا سامنا ہے۔ ادھر ’ نہ نفع نہ نقصان‘ کی بنیاد پر خون دینے والے اداروں اور این جی او کاکہنا ہے خون کے بیگ کی سپلائی کم کر دی گئی ہے۔

تھلیسیمیا کے بچوں کو خون کی فراہمی کرنے والے ایک فلاحی ادارے کے مہدی رضوی نے بتایا کے کہ اب نجی شعبے میں انتقال خون کے عمل سے گزرنا بہت مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ادھر مارکیٹ میں تاحال پیناڈول سمیت دیگر ادویات بلیک میں فروخت کی جارہی ہے۔ پیناڈول ایک ڈبے کی قیمت 340 روپے تھی جو اب 550 روپے میں ہول سیل میں فروخت کیا جارہا ہے۔

اسی طرح بچوں کے درآمد کیے جانے والے بچوں کی دودھ کی قیمتوں میں ایک بار بھر اضافہ کردیا گیا ہے۔ بچوں کے دودھ کے ڈبوں کی قیمت پر آخری بار جون میں اضافہ کیا گیا تھا تاہم 28 جولائی کو بچے کا دودھ کا ڈبہ 1590 روپے تھا جسے 80 روپے بڑھا کر 1670 کردیا گیا ہے۔ مارکیٹ میں بخار چیک کرنے والے مینوئل تھرمامیٹر ناپید ہیں جبکہ چائنا کے الیکٹرونکس تھرمامیٹر کی بھی قلت پیدا ہوگی ہے اور اسے بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔