یوم آزادی…کیا کھویا کیا پایا

سرور منیر راؤ  اتوار 14 اگست 2022
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

یوم آزادی کسی بھی قوم کے لیے تجدید عہد اور قومی کارکردگی کے جائزے کا دن شمار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم مختلف شعبہ زندگی میں من حیث القوم اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہم ایک کالم یا مضمون اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ آج ہم عوام کی قسمت سے کھیلنے والے حکمرانوں کے ایک پہلو کا جائزہ لیتے ہیں باقی باتیں انشاء اﷲ پھر کبھی۔

75 ویں یوم آزادی کے موقعہ پر جب ہم اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو عالمی منظر نامے میں ہمارا سر فخر سے بلند نہیں ہوتا ۔ ہم ایک قوم بننے کے بجائے ایک ہجوم کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام مستحکم ہو سکا ہے اور نہ معاشی اور معاشرتی نظام کی سمت درست ہو سکی۔

ہم اسلامی دنیا کا پہلا جوہری ملک بن گئے، معدنی دولت اور افرادی قوت کے اعتبار سے بھی پاکستان ایک نمایاں ملک ہے۔ انفرادی طور پر پاکستانیوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک مثالی کار ہائے نمایاں بھی انجام دیے ہیںلیکن اجتماعی طور پر ہم اپنی منزل کیوں حاصل نہ کر سکے۔ اس کا جواب صرف اور صرف یہ ہے کہ برف ہمیشہ چوٹی سے پگھلتی ہے۔

اگر ملک کے حکمران اپنا وطیرہ درست کر لیتے تو یہ منزل پانا آسان تھی، بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو فوقیت دی۔ یہ وطیرہ ہمارے سیاسی حکمرانوں کا بھی رہا ہے اور فوجی حکمرنوں کا بھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حکمرانوں کے حوالے سے تجزیہ کریں تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے صدرو اور وزرائے اعظموںنے حکمرانی کی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے جائزے سے یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف دو ایسے وزرائے اعظم ہیںجنھوں نے عوام کو سیاسی شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے سیاسی رویے میں حیران کن تبدیلی پیدا کی جب کہ نواز شریف نے سرکاری سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ کو ایک متحرک اور موثر جماعت بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا اور ان کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک آزا د سوچ رکھنے والی سیاسی جماعت کے طور پر قائم ہے۔

بے نظیر بھٹو کو پارٹی وراثت میں ملی۔ ان کا پہلا دور انتقامی سیاست رہا تاہم دوسرے دور میں انھوں نے رواداری اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ، وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے پاکستانی سیاست میں مثبت قدروں کو اپنانے کا فیصلہ کیا، وہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد جب دوبارہ واپس آئیں تو ایک منجھی ہوئی با شعور سیاست دان بن چکی تھیں لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان ان کے تجربے سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔

قیام پاکستان سے اب تک پاکستان میں تین طرح کی حکومتیں آئیں ان میں سیاسی حکمران، فوجی حکمران اور قائم مقام Care takers ان تینوں کا تجزیہ کریں تو نگران وزیر اعظم معین قریشی، ملک معراج خالد، میاں محمد سومرو، بلخ شیر مزاری، وسیم سجاد، غلام مصطفی جتوئی کے مختصر ادوار ایک مخصوص ذمے داری نبھانے آئے لیکن باقی صدر اور وزرائے اعظموں نے کم و بیش اپنے اختیارات کو استعمال کیا ۔

دیکھنا یہ ہے کہ کس حکمران نے ملک کو کیا دیا، اگر غیر جانبدار ہو کر ہر حکمران کا تجزیہ کیا جائے تو سوائے چند ایک کے باقی سب نے صرف اور صرف اقتدار کا مزہ لوٹا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے عام شہری کو ان دونوں ادوار میں کچھ نہ ملا۔ یحییٰ خان کو تاریخ ایک عیاش اور کج فہم حکمران کا درجہ دیتی ہے۔

غلام اسحاق خان کو ضیاء الحق کے حادثے کی وجہ سے صدارت ملی، انھوں نے بطورصدر پاکستانی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ایوب خان نے ترقی کا شور مچایا، کچھ کام بھی کیے لیکن تین دریاؤںکے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کرکے پاکستان کو بنجر بنانے کی پہلے اینٹ رکھ دی۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973کا آئین دیا اور انھوں نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کی قابل عمل منصوبہ بندی کی اور عوام کو حقوق حاصل کرنے کا شعور دیا۔ نواز شریف کو فوجی قوتیں ہی سیاست میں لائیں اور پھر انھیں سیاست سے نکالنے کی کوشش بھی فوجی حکمرانوں ہی نے کی۔ نواز شریف کے تینوں اداروں متنازعہ رہے جس کی وجہ سے انھیں قید کیا گیا اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ۔

پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظموں کی کارکردگی کے اجمالی جائزے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اکثریت کی کارکردگی قابل تحسین نہ رہی ہے اور جب حکمرانوں کی یہ حالت ہو تو قومی وقار کس طر ح بلند ہو سکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی روش بدلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔