مذاکرات کا بزدلانہ انداز کامیاب ہونے کا نہیں

غلام محی الدین  اتوار 16 مارچ 2014
شہبازشریف کو اب تک اپنا نام بدل لیناچاہیے، قمر زمان کائرہ۔ فوٹو: فائل

شہبازشریف کو اب تک اپنا نام بدل لیناچاہیے، قمر زمان کائرہ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے فلسفہ اور سیاسیات کی ڈگری حاصل کرنے والے پاکستان پیپلز  پارٹی پالیمینٹیرین کے رکن قمر زمان کائرہ شاید وہ واحد پارٹی رہ نما ہیں جو اپنی جماعت کی وکالت کرنے میں منطقی انداز اپناتے ہیں۔

ان کی سیاسی زندگی کی عمر گو طویل نہیں مگر نپی تلی سیاسی گفت گو، جوابی جملے کی بے ساختہ ادائی، موقع کے مطابق اپنی ہی بات کی کانٹ چھانٹ، چہرے کے اتار چڑھاؤ، جذبات کے اظہار اور اپنے مافی الضمیرکو بیان کرنے کا فن انہوں نے اپنے کئی ہم عصر سیاست دانوں سے بہت جلدی اور بہتر انداز میں سیکھا، جو سننے اور دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے شاید اسی لیے نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ان کا شمار پروگرامز کی ریٹنگ بڑھانے والوںمیں کیا جا تا ہے۔ سال 2002 سے 2008 اور پھر 2013 تک دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم حالیہ انتخابات میں ہیٹ ٹرک مکمل کرنے کے اعزاز سے محروم رہے۔ اپنے دور اقتدار میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے انہوں نے حکومت اور اپنی جماعت کی وکالت نہایت عمدگی سے کی اور اس کے اعتراف میں دو  بار اس عہدے پر فائز ہوئے اس کے علاوہ وہ امورِ کشمیر کے قلم دان اور گلگت بلتستان کی گورنری سے بھی مستفید ہوئے۔ آج کل اپنی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات ہیں۔

چند دن قبل ملک کی موجودہ صورت حال پرایک خصوصی نشست میں ان سے گفت گو کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی پارٹی کی وکالت کچھ یوں کی ’’ پی پی پی ایک بار پھر مشکل دورسے گزررہی ہے لیکن انشاء اللہ یہ مشکل وقت کٹ جائے گا‘‘۔ ان کا کہنا ہے ’’یہ ملک کی واحد جماعت ہے جسے حکومت تو دے دی جاتی ہے، اقتدار نہیں دیا جاتا۔ ہمارے مخالف جانتے ہیں کہ اس جماعت کے کارکن ہی اس کی اصل طاقت ہیں، کبھی منافقت نہیں کرتے، کھرے ایسے کہ ناراض ہوں تو اپنی جماعت کو بھی ووٹ نہیں دیتے لیکن پارٹی سے الگ ہونے کا تصور بھی کرتے، پی پی پی کے کارکنوں یہ رویہ بہ ظاہر بہت بے رحمانہ ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اسی رویے کی بہ دولت ملک میں جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے، ہمارے کارکنوں کا یہ جمہوری رویہ معتبر رائے عامہ کی خوب صورت ترین مثال ہے، جس دن ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں بھی یہ صفت پیدا ہوگئی، ملک سے بدعنوانی، غربت اور مخصوص مائینڈ سیٹ کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا ، ہم شکست کو تسلیم کرنے، مفاہمت کو فروغ دینے اوراتفاق رائے سے مسائل کو حل کرنے کا ادراک رکھتے ہیں، یہ وہ سنگ میل ہے جس سے گزرے بغیر ملک کی سالمیت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں، ہمارے مخالفین بھی جانتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو مانتے بھی ہیں اور مخالفین مانتے نہیں۔‘‘  قمرزمان کائرہ  نے ہمارے دیگر سوالات کے کیا جواب دیے،آئیے پڑھتے ہیں۔

ایکسپریس: 2008 سے 2013 تک آپ کی حکومت کو جو چیلنجز درپیش رہے، کیا وہ اس حکومت کو بھی درپیش ہیں، یا چیلنجز کی نوعیت بدل چکی ہے؟

قمر زمان کائرہ: اِس سوال کے جواب کے لیے دونوں ادوار کا مختصر سا جائزہ پیش کروں گا۔ سال 2008 میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں، ہر طرف مایوسی کا راج تھا، بلوچستان میں قومی پرچم جلایا جا رہا تھا اور قومی ترانہ پڑھنا منع کر دیا گیا تھا، زرعی ملک ہونے کے باوجود 25 لاکھ ٹن گندم درآمد ہو رہی تھی، چینی باہر سے آ رہی تھی، بجلی اور گیس کا بحران منہ کھولے کھڑا تھا، قوموں کی برادری میں پاکستان مکمل تنہائی کا شکار ہو چکا تھا، کوئی یونٹ فیڈریشن کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھا، آدھے جج گھروں میں قید تھے، صدر فوجی وردی اتارنے پر تیار نہیں تھے، ہمارے پاس اس وقت 127 نشستیں تھیں اور حکومت بنانے کے لیے 172 درکار تھیں، میاں شہباز شریف پنجاب کے سربراہ کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کے ساتھ بات کرنے کی زحمت بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں تھے، دوسری طرف سوات سے لوگ طالبان کے خوف سے ہجرت کر رہے تھے۔

معاشی سطح پر ہماری جی ڈی پی گروتھ صفر تھی، ملک کی بڑی فصلیں مقررہ اہداف سے کم تھیں اور کرنسی نوٹ دھڑادھڑ چھپ رہے تھے، اس پر بدقسمتی یہ کہ عالمی سطح پر بد ترین معاشی بحران بھی سال2008 میں ہی آتا ہے اور اس کے بعد ملک میں دو بہت بڑے سیلاب؛ جن سے ملک کھنڈر ہوجاتا ہے، 2008 ہی میں صدر پاکستان ہمیں اور میاں صاحبان کو مکے دکھا دکھا کر دھمکیاں دیتے ہیں، اِن حالات میں حکومت کی باگ ڈور پاکستان پیپلز پارٹی کو تھما دی جاتی ہے لیکن جب ہم  نے اپنا اچھا یا برا دور مکمل کرنے کے بعد 2013 میں (ن) لیگ کو حکومت منتقل کی تو پاکستان گندم میں خود کفیل  تھا، چاول چینی برآمد ہونے لگی تھی، مینوفیکچرنگ گروتھ کم ہی سہی مگر شروع ہو چکی تھی۔ گو مقررہ ہدف حاصل نہیں ہورہا تھا مگر معاشی شرح نمو 2008 کے مقابلے میں بہتر تھی، دیوالیہ ہونے والی کیفیت نہیں تھی ، علاقائی سیاسی جماعتوں نے صوبائی خود مختاری کی آڑ میں جس طرح وفاق کو یرغمال بنا رکھا تھا، 2011 میں ہم نے وہ ایشو ہی ختم کردیا، صوبوں کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا، این ایف سی ایوارڈ باہمی مشاورت سے طے پا چکا تھا، ریاست کے بنیادی اور آئینی ایشوز 2013 تک حل ہو چکے تھے۔

اِن چیلنجز کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہم آئے، تو پاکستانی فوج وردی پہن کر شہروں میں گھومنا چھوڑ چکی تھی، دہشت گردی کی جنگ کو امریکا کی جنگ قرار دیا جا رہا تھا مگر ہماری حکومت نے فوج کا مورال بلند کیا ، لوگ وطن کے دفاع کے لیے فوج کے ساتھ قدم ملانے پر تیار ہو ئے، سوات آپریشن کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے دھند چھٹ چکی تھی، قومی سطح پر یک جہتی اور مفاہمت کی لہر چل چکی تھی، طالبان کا حقیقی چہرہ سامنے آ رہا تھا، یہ وہ تبدیلی  تھی جو ہم نے فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر شروع کی، آج اس کے ثمرات موجودہ حکومت حاصل کر رہی ہے۔ اپنے دور میں ہمیں بہت گالیاں پڑیں، خود میاں برادران نے بھی حصہ ڈالا مگر ہم نے بی بی شہید کی دی ہوئی برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، جس کی وجہ سے، جو پاکستان سر کے بل کھڑا تھا، پائوں کے پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گیا۔ میرے اِس جملے کو سیاسی بصیرت رکھنے والا زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔

ایکسپریس: مگر جو سیاسی بصیرت نہیں رکھتا، اس کو کیسے علم ہو گا؟

قمر زمان کائرہ : تو پھر سنیں! سابق صدر مملکت آصف علی زراری کی ذات میں 10 ہزار عیب نکالنے والے بھی انگشت بہ دنداں تھے کہ انہوں نے کس طرح اپنے تمام آئینی اختیارات واپس کر دیے؟ اپنی طاقت وزیراعظم کے سپرد کیوں کر دی؟ مرکز کی طاقت صوبوں کو کس لیے دے دی گئی؟  آج خود دیکھ لیں کہ طاقت کی اِس منتقلی کا سب سے زیادہ فائدہ خود میاں نوازشریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بن کر پہنچ رہا ہے، یہ الگ بات کہ وہ اسمبلی میں تشریف ہی نہیں لاتے۔  آج پارلیمنٹ، جہاں پہلے سے زیادہ فعال ہے، وہاں یہ احتساب کے دائرے میں بھی نظر آ رہی ہے۔ ایک دوسرے پر تنقید ہو رہی ہے مگر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل رک چکا ہے، ملک کی اعلیٰ عدالتیں مکمل آزادی سے فیصلے کر رہی ہیں، ہماری حکومت نے جبر کی  آلودگی میں سانس لے کر وقت مکمل کیا مگر آج ن لیگ جس تازہ ہوا میں سانس لینے کے قابل ہوئی ہے، وہ اسی جمہوری عمل کا تسلسل ہے،جس کی بنیاد ہم نے رکھی۔

ایکسپریس : جبر کی آلودگی سے تازہ ہوا کے تسلسل تک، کیا میاں نواز شریف نے آپ کی مدد نہیں کی؟

قمر زمان کائرہ : ان کی مدد کا ایک فعال نمونہ پوری قوم کو نہیں بھولنا چاہیے، میمو گیٹ اسکینڈل میں جب ہماری مشکیں ہر طرف سے کس دی گئیں اور میاں صاحب کو یقین ہو گیا کہ اب آصف علی زرداری کو غدار وطن قرار دینے کے لیے راہ ہم وار ہو چکی ہے تو وہ بغیر کسی وکیل کے، بغیر کسی ساتھی کے، خود کالا کوٹ پہن کر سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی عدالت میں ہیرو بننے کے لیے پیش ہو جاتے ہیں، خود پیٹیشن دائر کرتے ہیں مگر جب دیکھا کہ بلی تھیلے سے باہر نہیں نکل رہی تو چپ سادھ لی لیکن قوم دیکھ چکی ہے اور مزید دیکھے گی کہ ہم میاں صاحب کی حکومت کو کم زور کرنے کے لیے اِس طرح ہیرو بننے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم ہیرو تھے، ہم ہیرو ہیں، ہم ہیرو رہیں گے، ہیرو بنائے نہیں جاتے بھٹو شہید اور محترمہ شہید کی طرح پیدا ہوتے ہیں، ہیرو ’’ بھاگا ‘‘ نہیں کرتے۔ میاں صاحب تو ہماری حکومت میں شامل ہو کر اِس لیے بھاگ گئے تھے کہ انہیں ہماری جیبیں خالی نظر آ رہی تھیں، ان کا خیال تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایک سال حکومت کرسکیں گے مگر جب ہم نے ان کے بغیر بھی پانچ سال پورے کر لیے اور اس پر ن لیگ والے کہنے لگے کہ میاں صاحب نے ہم کو سپورٹ کیا، سچ تو یہ ہے کہ سپورٹ انہوں نے نہیں، ہم نے ان کی ہر جائز بات مان کر ان کو سپورٹ کیا تھا، مفاہمت کی داغ بیل ہم نے ڈالی تھی اور ان کی ہر ناراضی اور اختلاف رائے کو صبر و تحمل سے برداشت کیا۔

کیاآج وہ ہم سے کوئی الگ راہ نکال کر حکومت کر رہے ہیں؟ لیکن ہم آج بھی ان کو ان کے ویژن کے مطابق ملک کو مضبوط کرنے کا ہرموقع فراخ دلی سے فراہم کر رہے ہیں، ان کی طرح نہیں سوچتے اور نہ ہی دل ہی دل میں جلتے کڑھتے ہیں، ہاں جہاں تنقید کرنا ہوتی ہے وہاں اپنا جمہوری حق بھرپور طریقے سے استعمال بھی کرتے ہیں۔  آج پارلیمنٹ میں ان کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں، اِس پر بھی ہمیں بہت طعنے دیے جا رہے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت کی بقا کے لیے اِس حکومت کو اپنی  آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق ملنا چاہیے لیکن یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ سیاسی حکومت کو بیماری باہر سے  نہیں ہمیشہ اندر سے لگتی ہے اور اس کا تدارک صرف ایک ہی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔ ہم اس حکومت پر پریشر ڈالنے کے بہ جائے پریشر کم کرنے والوں میں سے ہیں، مشرف نے عدالت میں جس دن پیش نہ ہو کر ن لیگ کی حکومت کو انڈر پریشر کیا، اسی دن آصف علی زرداری نے احتساب کورٹ میں پیش ہو کر جمہوری حکومت سے پریشر کم کرایا اور ثابت کیا کہ جمہوریت کی آب یاری اس طرح بھی کی جاتی ہے۔ 2008 میں جب ہم کو حکومت ملی تھی اور 2013 میں جب ن لیگ کو حکومت ملی؛  اُس کا مختصر فرق بیان کیا ہے ۔ ہم آمریت سے جمہوریت میں داخل ہوئے تھے اور ن لیگ جمہوریت سے جمہوریت میں داخل ہوئی ہے۔

ایکسپریس:  آپ کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحبان نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا؟

قمر زمان کائرہ : ہمیں یہ خوش گمانی ہے، رکھنی بھی چاہیے کہ انہوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہو گا لیکن اگر انہوں نے نہیں بھی  سیکھا تو ہم پھر بھی ان کی حکومت کو کم زور کرنے کا وتیرہ نہیں اپنائیں گے، چھوٹے میاں صاحب کے علاوہ بہت سے ن لیگی زعماء کے سخت روّیے ہمیں مفاہمت کی راہ سے بھٹکا نہیں سکیں گے کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جو اپنا سیاسی نقصان کرکے بھی ملک بچانے سے گریز  نہیں کیا کرتی،  آج تک ملک کی کسی سیاسی جماعت نے اپنا سیاسی نقصان نہیں کیا، ہم نے ہر بار ایسا کیا، اس لیے کہ جمہوریت کی بقا پارٹی کی بقا سے  کہیں زیادہ اہم ہے۔ آج بھی ن لیگ کو مضبوط کرنے کے ہمارے دعوے، پیپلزپارٹی کو کم زور کر رہے ہیں لیکن قوم دیکھے گی کہ ہمارا یہ نقصان ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں ہم نے اپنا نقصان کیا مگر اس کا ملک کو فائدہ ہوا۔ اگر یہ ترمیم نہ ہوتی تو ہم وفاق میں بیٹھ کر مزے سے حکومت کرتے اور گالیاں ہرگز نہ کھاتے، صوبوں کو اپنی مرضی سے پیسے دیتے مگر ہم نے دوسری راہ اپنائی جو خطروں سے پُر تھی۔

ایکسپریس : شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹوکی سیاسی بصیرت نے ماضی میں پی پی پی کو نہایت کام یابی کے ساتھ بحرانوں سے نکالا مگر پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر بحرانی دور سے گزر رہی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ویژن کی روشنی میں پارٹی ایک بار پھر ملک کی مقبول سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی؟

قمر زمان کائرہ : پاکستان میں کئی طرح کی سیاسی جماعتیں ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے روّیے کا نام ہے، یہ ایک روایت کی طرح ہے اور لوگ روایات سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق نہیں کیا کرتے، ناراض ہو جاتے ہیں، ان کا تعلق کم زور ہو جاتا ہے مگر پھر مضبوط بھی ہوجاتا ہے۔ عوام اور پارٹی کے درمیان تعلق کو کم زور کرنے کے لیے گزشتہ 40 سال سے کوششیں جاری ہیں مگر ایسی کوششیں کرنے والے ہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں اور پھر ہمارا ہی ہاتھ تھام کر کھڑے ہوتے ہیں، اِس پارٹی نے گرنے والوں کا ہاتھ آج تک نہیں جھٹکا، زیڈ اے بھٹو شہید سے بی بی شہید تک اور بی بی سے آصف علی زرداری تک جس کو بھی حکومت ملی، وہ اقتدار نہیں تھا، ذمہ داری تھی، گرنے والوں کو اٹھانے کی، ان  کے آنسو خشک کرنے کی، ہم کو علم تھا، ہے اور رہے گا کہ ان کو کندھا چاہیے تھا کیوں کہ کندھے ان بہادروںکے ہی استعمال ہوتے ہی جو بھاگتے نہیں، پھانسیاں،  قتل اور جیل کی مشقتیں ان کے راستے نہیں روک سکتیں، ان رستوں سے گزر کر ہی ظالم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا یارا ملتا ہے۔

زیڈ اے بھٹو کے بعد بی بی شہید کونا اہل سمجھنے کے با وجود دو مرتبہ ان ہی کا کندھااستعمال کیا گیا، بی بی کے بعد ان کے شوہر کی ضرورت پڑی تو آصف علی زرداری نے سب کچھ بھول کر جمہوری تسلسل کے لیے پارٹی مفادات پر ملک کے مفادات کو ترجیح دی۔  آج ہم غیر مقبول ہیں اور مسائل میں گھرے ہوئے بھی ہیں لیکن آج ہم گرنے سے پہلے ہی بڑھ کر تھام لینے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہم تمام تر اختلافات کے باوجود میاں صاحبان کو گرنے نہیں دیں گے، ہر طرح سپورٹ کریں گے تاکہ پانچ سال بعد رائے عامہ کو ووٹ سے مزید بہتر تبدیلی کا کھل کر موقع مل سکے، قوم یاد رکھے کہ ملک میں مسلسل تین سے چار انتخابات، ہر سیاسی جماعت کو’’ شیشہ‘‘ کر دے گی اور ہم اپنا سیاسی نقصان کرکے بھی اِس منزل تک جانے کے لیے پرعزم ہیں، اِس بات کا آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کو مکمل ادراک ہے کہ ملک ہو گا تو پیپلز پارٹی ہو گی، اگر ملک ہی نہ رہا تو پھر کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں رہے گی، یہ وقت دور اندیشی کا ہے، میں نہ مانوں سے حکومت کرنے  میں مزید مشکل ہوگی جب کہ وہ پہلے ہی خوف زدہ دکھائی دے رہی ہے۔

ایکسپریس :  تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق

عام انتخابات میں بہت بڑی دھاندلی ہوئی ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟

قمر زمان کائرہ : تحریک انصاف کیا؟ ہم خود سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں بہت بڑی دھاندلی ہوئی ہے لیکن اِس کے باوجود ہم ملکی مفاد کی خاطر سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی منفی قدم نہیں اٹھائیں گے، حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مذاکرات کی جو حکمت عملی اپنائی، ہم نے اُس کا کھل کر ساتھ دیا ہے، کوئی ذومعنی بات نہیں کی، ملک میں امن ہونا چاہیے اور حکومت کی رٹ قائم ہونی چاہیے، باقی باتیں بعدکی ہیں۔

ایکسپریس : ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاثر سچ ہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟

قمر زمان کائرہ : تاثر بنانے والوں کو روکنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ عمران خان صاحب کو کون سمجھائے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ نوکریوں کے دروازے کھولے اور ن لیگ نے کام کرنے والوں کی ڈائون سائزنگ کی، ہم نے ہمیشہ مزدور کی بات کی، ن لیگ نے سرمایہ دار کا فائدہ دیکھا، ہم پارلیمانی طرز حکومت کے تو وہ مضبوط مرکز کے قائل ہیں، ہم روشن خیال پاکستان کے لیے کوشاں رہتے ہیں تو وہ اسٹیٹس کو کی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں، ہم برداشت اور صبر و تحمل کا علم ا ٹھائے ہوئے ہیں مگر شہباز شریف کا روّیہ بادشاہوں سا ہے، سکے کے اِن دو رخوں پر کتاب لکھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ اور کیا کہوں۔

ایکسپریس : پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف کا کوئی مستقبل بھی ہے یا یہ محض نوبتی بخار ہے؟

قمر زمان کائرہ : پاکستان میں اگر کوئی سیاسی پارٹی اپنا منشور لے کر عوام کے پاس جاتی ہے اور عوام اُس کی بات پر غور و فکر کرتے ہیں تو یہ ایک مثبت قدم ہے، تحریک انصاف کو بھی عوام نے ویل کم کیا، اچھی بات ہے مگر تحریک انصاف کے مختلف فیصلوں سے ان میں شامل بہت سے روشن خیال طبقات کو جو مایوسی ہوئی ہے، اس کا اثر ان کی پالیسیوں پر پڑا، وہ بہت سے ایشوز میں پریشر میں آئے۔ عمران خان صاحب کی اپنی سوچ ہے لیکن میرے خیال میں وہ کوئی بہت بڑا بریک تھرو نہیں کر سکیں گے۔ اِس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا کہ میری جو بھی رائے ہو گی وہ غیر جانب دارانہ نہیں ہو گی۔

ایکسپریس : میمو گیٹ اسکینڈل کو وطن دشمنی سے تعبیر کیا گیا، اس اسکینڈل سے پی پی پی کی ساکھ کو جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟

قمر زمان کائرہ : اگر ہم نقصان کا ازالہ کرنے بیٹھ جائیں تو  آگے بڑھ ہی نہیں سکیں گے۔ پیپلز پارٹی پر غداری کے الزامات نئے نہیں، وقت نے ہر بار ثابت کیا کہ یہ محض الزامات ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا اصل گناہ عام آدمی اور مزدور کی بات کرنا ہے، اُسی وجہ سے ہم پر ہر طرح کا کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اِس پارٹی کو پہلے دن سے توڑنے والی قوتیں آج تک کام یاب نہیں ہو سکیں اور نہ ہی ہوں گی، یہ ہی ہمارا سچ ہے اور یہ ہی ان قوتوں کا جھوٹ ، میمو گیٹ اسکینڈل میں، میڈیا سے لے کر عدالتوں تک، ہم نے اپنا ساتھ ’’محبت‘‘ کے ہر رشتے کو صبر و تحمل سے نبھایا۔

ایکسپریس : ن لیگ کے دور میں آرمی اور عدلیہ کے چیف بدل چکے، اس تبدیلی سے ملک میں بہتری آرہی ہے یا حالات جوں کے توں ہیں؟

قمر زمان کائرہ : یاد رکھیں! چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس بدل جانے سے ملکوں کے حالات کبھی نہیں بدلا کرتے، ریاستوں کے حالات تسلسل کے نظام چلنے سے بدلا کرتے ہیں، گورننس، رائے عامہ اور عوامی مفادات میں بہتر فیصلے کرنے سے ہی بہتری آیا کرتی ہے۔ پاکستان میں اِن دو تبدیلیوں کے بعد موجودہ حکومت کو پہلے زیادہ یک سوئی کے ساتھ کام کرنا چاہیے کیوں کہ اب دونوں ادارے حکومت کو پریشر میں لانے کی بجائے اُس کے ساتھ کھڑے  نظر آ رہے ہیں، اس کے باوجود اگر حالات جوں کے توں رہتے ہیں تو پھر یہ نااہلی ہی کہلائے گی۔

ایکسپریس : سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مجموعی بصیرت میں آپ کوئی فرق محسوس کرتے ہیں؟

قمر زمان کائرہ : افراد کی ذاتی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں مگر میں دونوں چیفس میں فرق اس لیے نہیں کر سکتا کہ میرا، نئے چیف کے ساتھ کوئی انٹرایکشن نہیں ہوا اس لیے کوئی رائے دینا فضول ہوگا البتہ یہ ضرور کہ سکتا ہوں کہ بہ حیثت  ادارہ، فوج کا روّیہ جنرل کیانی کے دور میں بہت حد تک بدلا، فوج بھی اب ملک میں مضبوط جمہوری اقدار کو آگے بڑھانے کی خواہاں نظر آتی ہے۔

ایکسپریس : آپ کا بیان تھاکہ ’’موجودہ حکم ران عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں‘‘۔ اگر اس کو درست مان لیا جائے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آئندہ انتخابات میں قوم پی پی پی کو دوبارہ موقع دینے والی ہے؟

قمر زمان کائرہ : قوم نے ہمیں تین بار حکومت کا موقع اُس پس منظر میں دیا جب پی پی پی مخالف قوتیں کہ رہی تھیں کہ اب پیپلز پارٹی اٹھ نہیں سکے گی۔ پارٹی قیادت واضح کر چکی کہ ہم 5 سال بعد سیاست کریں گے، جب قوم کے پاس ہم جائیں گے تو مجھے کامل بھروسہ ہے کہ وہ ہماری بات پر دھیان دے گی، گو اُس وقت دوسری ہم عصر سیاسی جماعتیں بھی عوام کے پاس جائیں گی لیکن اگر عوام کو اُس کی مرضی کرنے دی گئی تو ناکامی ہم ناکام نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس : جو طعنے پی پی پی کو اس کے دور حکومت میں دیے جاتے رہے، اب وہ ہی ن لیگ کو دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اصل خرابی کہاں ہے؟

قمر زمان کائرہ : اس ملک میں آئین ہو گا تو جمہوریت ہو گی، جمہوریت قائم رہے گی تو ملک قائم رہے گا، جو احباب یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین سے پیٹ نہیں بھراکرتا، وہ  نہیں جانتے کہ آئین کی بالادستی سے ہی بھوک اور افلاس ختم ہوتی ہے، آئین ہی تحفظ فراہم کرتا ہے اور ادارے بہتری کی طرف جاتے ہیں۔ اب دوسری خرابی بھی سن لیں، شریف برادران نے انتخابات سے پہلے جتنے وعدے کیے تھے، نعرے لگائے تھے، آج وہ سب ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں، چھے ماہ میں ہر کام درست کرنے کا وعدہ کہاں گیا؟ شہباز شریف صاحب، بھٹو صاحب کی نقلیں اتار اتار کے نعرے لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں یہ نہ کر سکا، وہ نہ کر سکا تو میرا  نام بدل دیا جائے، اب اُن کو نام بدل لینا چاہیے، سال ہو چکا اب بھی وہ نام نہیں بدلتے تو، میں بذریعہ اشتہار عوام سے رائے لوں گا کہ اِن کا نیا نام کیا ہونا چاہیے؟ میں یہ گستاخی نہیں کرنا چاہتا مگر ان کی خواہش یہ ہی تھی۔  آج جہاں ملک کھڑا ہے، کیا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور سے بہتر ہے؟ وزیراعظم قومی اسمبلی میں نہیں آتے اور چھوٹے میاں صاحب پنجاب اسمبلی نہیں جاتے، 52 اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کا فیصلہ نہیں ہو سکا، منہگائی اُسی طرح قائم ہے، نوٹ اُسی طرح چھاپے جا رہے ہیں، فرق کہاں آیا ہے؟

ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ ہم  نے مشرف اور ق لیگ کی حکومت کے رکھے ہوئے جن لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کو اپنے دور میں ریگولر کیا تھا، اب ان کو نکالنے کے لیے فہرستیں تیار ہو رہی ہیں۔ ہم پر الزام تھا کہ میرٹ کے بغیر بھرتیاں کرتے تھے تو اب سن لیں اور چیک بھی کرلیں کہ ہمارا میرٹ یہ تھا کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر پاکستانی بچے بچیوں کو پکی نوکری دی جائے کیوں کہ یہ پہلے پاکستانی ہیں بعد میں سیاسی کارکن، نوکری ان کا جائز حق ہے، جو ہم نے گالیاں کھا کر بھی دیا، اگر آپ لوگوں کو کچھ دے نہیں سکتے تو ان سے چھین کیوں رہے ہیں؟ بہ قول میاں صاحبان کے حالات سازگار ہو رہے ہیں! میں پوچھتا ہوںحالات سازگار  ہو رہے ہیں تو غریب لوگوں کو نوکریوں سے نکالنے کی کیوں تیاریاں ہو رہی ہیں؟ پاکستان کا آج بھی اصل مسئلہ اس کی وحدت کو مضبوط کرنا ہے، جو روزگار ہی سے ممکن ہے، اس لیے ہم  نے یہ کیا، یہ کیا کر رہے ہیں؟ چشم پوشی مت کریں، خدا کے لیے اس وحدت کو کم زور  نہ کریں! میں کہتا ہوں کہ یہ حکومت اگر صرف اور صرف اپنے منشور پر ہی کام کر لے تو بھی ملک بہتری کی جانب گام زن ہو جائے گا۔  آج حکومت، کشمیر میں جس عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے منکر  ہے، ایسا ہی وقت وفاق پر بھی آ سکتا ہے۔ میاں صاحبان کو ماضی سے سیکھ کر بھی سمجھ میں نہیں  آ رہا کہ عوامی مینڈیٹ کے آگے سر جھکانا ہی، اصل تحفظ ہوتا ہے۔

ایکسپریس : انتخابات کے بعد آپ نے کہا تھا کہ عوام ہمیں ایک سال بعد شدت سے یاد کریں گے،  آپ نے یہ جملہ کیا سوچ کر کہا تھا؟

قمر زمان کائرہ : سوچ کر نہیں بل کہ اِن کو قریب سے دیکھ کر کہا تھا، مجھے علم ہے کہ یہ کتنے پانی میں ہیں۔ یہ سمجھتے تھے کہ لوگ ہمارے نعرے بھول جائیں گے لیکن اس کا کیا جائے کہ وہ نعرے ذرائع ابلاغ نے محفوظ کر لیے ہیں۔

ایکسپریس : آپ کا کہنا ہے ’’ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو منتخب حکومت گرائی،  آئین توڑا، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘‘۔ کیا موجودہ کاروائی سے آپ مطمئن ہیں؟

قمر زمان کائرہ : جنرل مشرف کے دو گناہ ہیں ۔۔۔ ایک 12 اکتوبر کو کیا، دوسرا 3 نومبر کو۔ پہلا گناہ بہت بڑا ہے، دوسرا چھوٹا۔ یہ دونوں گناہ بہ طور آرمی چیف سرزد ہوئے۔ اگر ایک گناہ کا احتساب شروع ہو چکا ہے تو اس کو بڑے گناہ سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ غداری کے موجودہ مقدمے کا  آزادانہ فیصلہ سامنے آنا چاہیے۔ رہی میرے اطمینان کی بات، تو وہ یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کا صدر اِس مقدمے میں ملوث ہوتا تو اُس کو جنرل مشرف جتنی مراعات ہرگز نہ ملتیں۔ اگر حکومت نے اور عدالتوں نے جنرل مشرف کو مزید ریلیف دینے کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھا تو مستقبل میں کوئی بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوگا، کم از کم میں تو پیش نہیں ہوں گا۔ اب عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ قانون سب کے لیے ایک ہے یا پھر یہ قانون بنا دیا جائے کہ مشرف جیسے لوگوں کے لیے دوسرا قانون ہے اور ہم جیسوں کے لیے وہی ماردھاڑ والا قانون۔

ایکسپریس :  آپ کی باتوں سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں  آمریت کا امکان ابھی ختم نہیں ہوا؟

قمر زمان کائرہ :  آمریت کا امکان تو ختم ہے، اب اگر پھر بھی آمریت آجاتی ہے تو اب سب سے زیادہ مزاحمت پاکستان پیپلز پارٹی کرے گی۔

ایکسپریس : کیا سابق جرنیل کو ملنے والے اس ریلیف کو امکان قرار نہیں دیا جا سکتا؟

قمر زمان کائرہ : دیکھیں! یہ طاقت کا نشہ ہے، نشے کی لت جاتے جاتے جاتی ہے، جنرل صاحب کا اشہ کسی حد تک ہرن تو ہوا ہے جس پر کچھ لوگوں کو واقعی بہت تکلیف ہو رہی ہے۔  اُس تکلیف کو امکان کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ یقین کریں صرف دو انتخابات کے بعد قوم کی بہت سی تکلیفیں ختم ہو چکی ہوں گی، سارے نشے ہرن ہو جائیں گے۔

ایکسپریس : ملک میں اگر برطانوی پارلیمانی نظام کے بہ جائے امریکی پارلیمانی نظام ہو تو کیا جمہوریت کو زیادہ تقویت ملے گی؟

قمر زمان کائرہ : یہ بڑی عجیب بحث ہے، پہلے دبے دبے لفظوں میں ہو تی تھی، اب کھل کر کی جا رہی ہے، اس کی فلسفیانہ توجیہ یہ ہے کہ دنیا میں پاکستان نام کا کوئی ملک نہیں تھا، جو پہلے قید ہوا اور پھر آزاد ہوا ہو۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان بنا بھی اور آزاد بھی ہوا، دنیا بھر میں یہ اِس ملک کی انفرادیت ہے۔ دنیا کے تمام ملک پہلے ملک تھے مگر محکوم تھے اور پھر آزاد ہوئے مگر پاکستان نام کا کوئی ملک کبھی اُن معنوں محکوم نہیں تھا۔ پانچ صوبوں پر مشتمل اس ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس ملک کے لیے جو نظام منتخب کیا تھا، وہ وفاقی پارلیمانی نظام تھا۔ المیہ مگر یہ بھی ہے کہ اِس دھرتی پر پہلے بادشاہوں کی حکومت تھی، پھر انگریزوں کی قائم ہوئی، یہاں کے لوگ چوں کہ صرف مرکزی نظام حکومت ہی دیکھتے رہے لیکن بانیٔ پاکستان نے جب وزارت عظمی کے نطام کو ترجیح دی تو طاقت چھن جانے کے خوف سے اس نظام کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا کہ کہیں عوام بااختیار نہ ہو جائیں جب کہ بھارت نے اس حرکت سے گریز کیا تھا اور آج وہ اس کا پھل کھا رہا ہے، ہم نے تو 1970 تک  پاکستانی عوام کو ان کی شناخت تو درکنار، شہریت ہی نہیں دی تھی، جس کے نتیجے میں ایک دن پاکستان ہی ٹوٹ گیا، ہم جان بوجھ کر وفاق کو تسلیم کرتے رہے مگر وفاقی یونٹوں کو تسلیم نہیں کیا، اب یہ بحث پھر ماضی کے ناکام مگر مخصوص ٹولے کے مفادات کو اجاگر کرنے کے لیے چھیڑی جا رہی ہے، امریکی جمہوریت کی آڑ میں ایک آدمی کو بادشاہ،  آمر یا بااختیار بنانے کی بات کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ ماضی میں اِس طرح کے تجربات نے اس ملک کے غریب عوام کو دیا کیا؟ اِس ٹولے کو اختیارات عوامی سطح تک منتقل کرتے ہوئے خوف آتا ہے، پھر یہ لوگ جمہوریت کے ناکام ہونے کی باتیں کرکے اس کی  آڑ میں کہتے ہیں ’’جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟‘‘  آپ ملک میں جمہوری دور کا اصل عرصہ نکالیں تو محض ایک دہائی نکلے گا اور آمریت کا صرف ایک دور گیارہ سال پر محیط، بولیے جمہوریت آپ کو ہتھیلی پر سرسوں جما دے؟ جمہوریت اُن کو اُس طرح سے دے بھی نہیں سکتی جس طرح سے وہ طلب کرتے ہیں۔ یہ بحث دوبارہ اِس لیے شروع ہوئی ہے کہ ہم نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کی اصل روح کو جس مشکل سے بہ حال کیا ہے، وہ بہت سے مفاد پرستوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے لیکن میں خبردار کرتا ہوں کہ اب اگر آئین کی شکل بگاڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک قائم نہیں رہے گا۔

ایکسپریس : حکومت اور طالبان میں مذاکرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

قمر زمان کائرہ :  وزیراعظم کی کوششیں اپنی جگہ بہت احسن لیکن ہم کیا، سب جانتے ہیں کہ ان مذاکرات کا منطقی انجام ناکامی ہی ہو گا کیوں کہ طالبان کے چہرے بہت حد تک پہلے ہی عیاں ہوچکے ہیں۔ طالبان اپنی فقہ کو شریعت اور پاکستان کے آئین کو بے معنی قرار دے بُری طرح ایکس پوز ہوئے ہیں۔ طالبان ہم میں سے ہی ہیں، زیادہ تعداد پاکستانی مسلمانوں کی ہے، چند فی صد غیر ملکی ہیں، میں ان کو بھٹکے ہوئے پاکستانی سمجھتا ہوں، اب آپریشن ہوتا ہے تو دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے گا، یہ ملک کی بدقسمتی ہو گی، طالبان کو بند گلی میں داخل ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس : حکومت طالبان مذاکرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

قمر زمان کائرہ : مسلم لیگ (ن) اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں سے طالبان کے غیر محسوس تعلق کو سب جانتے ہیں، اس کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا لیکن اس کے باوجود آپ اس تعلق کو مثبت انداز میں استعمال کرنے سے معذور ہوں تو اس کا واضح مطلب ایک ہی ہے کہ آپ نااہل ہیں اور طالبان آپ سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔  آپ جب تک بزدلی کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں گے، کام یابی ممکن نہیں ہو گی۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، دہشت گردی کا جن عقل، دانش اور باہمی اتحاد سے بوتل میں بند ہوسکتا ہے۔ بھتا خوری، اغوا برائے تاوان کرائے پر خود کش بمبار اور قاتلوں کو حاصل کرنے کی خبروں پر  آنکھیں بند کرنا اب مسئلے کا حل نہیں رہا، اب نعرے بازی نہیں چلے گی، یہ الیکشن نہیں ایکشن کا وقت ہے، اب حکم رانوں کو اس میں فرق کرنا ہی پڑے گا ورنہ یہ اختیار بھی طالبان آپ سے چھین کر لے جائیں گے۔

ایکسپریس : دہشت گردی کی حالیہ جنگ کیا عالمی طاقتوں کی خطے میں گریٹ گیم کا حصہ ہے؟

قمر زمان کائرہ : تاریخ گواہ ہے کہ جب سے دنیا قائم ہے، طاقت ور طبقات اپنے اپنے مفادات کے لیے جنگ کرتے چلے آ رہے ہیں، گریٹ گیم کی اصطلاح نئی ہے مگر اِس کے پیچھے محرکات وہی صدیوں پرانے ہیں، یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خطے میں بد امنی اور دہشت گردی کی جنگ کو عالمی طاقتوں کے مفادات سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ اِس کو اگر سچ مان لیا جائے تو پھر سب سے پہلے طالبان کو یہ سمجھ جانا چاہیے تھا کہ وہ یہاں امن قائم کرکے عالمی طاقتوں کے مفادات کو ناکام کر دیں مگر کھیل اس کے الٹ ہو رہا ہے، سوچیے! کہیں ایسا تو نہیں کہ عالمی طاقتیں خطے میں امن چاہتی ہوں اور یہاں کے وار لارڈز اپنے اپنے مفادات کے لیے بد امنی کے خواہاں ہوں۔ قوم اب بھی یہ جان جائے کہ یہ جنگ نہ امریکا کی ہے اور نہ ہی شریعت کے نفاذ کی، یہ جنگ عالمی ٹریڈ روٹ پر اپنی اجارہ داری کے پس منظر میں جاری ہے، جس کو طاقت کے بہ جائے مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر پہلا  آپشن طالبان نہیں مانتے تو پھر حکومت کی رٹ قائم کرنا لازمی ہو جائے گا۔

ایکسپریس :  آپ نے بڑے تیز لہجے میں کہا تھا کہ موجودہ حکومت نے پانچ ماہ میں اتنے نوٹ چھاپ لیے،جتنے ہم نے پانچ سال میں چھاپے تھے، یہ ناراضی نوٹوں کی چھپائی پر تھی یا ’کاپی رائٹ‘ کا مسئلہ ؟

قمر زمان کائرہ : جب میری مجبوری کو بھی میرا ناقابل معافی گناہ قرار دے دیا جائے گا اور قاضی صاحب خود وہی کام دیدہ دلیری سے کریں گے، تو کیا میں خفا نہیں ہوں گا؟  آپ نوٹ چھاپنے کو رو رہے ہیں، یہاں تو بجلی اور گیس کی قیمتں دو گنا کرنے کے بعد بھی لوگوں کو یہ میسر نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔