دفاع وطن اور معاشی دفاع

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 10 ستمبر 2022

چند روز قبل اہل پاکستان نے یوم دفاع انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔ اس تاریخ یعنی 6ستمبر 1965 کو بھارت نے پاکستان پر ایک ایسی بلاجواز جنگ تھوپ دی جس کے نتیجے میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 17 روزہ اس جنگ میں پاکستان کی بری، بحری اور فضائیہ نے کارنامے انجام دیے جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔

اس کالم میں صرف معاشی پس منظر کا ذکر کریں گے، جن کی بنا پر بھارت نے بلااشتعال اور غیراعلانیہ طور پر پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس وقت پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا جس میں سے مغربی پاکستان کے شہر لاہور کے قریب اس نے حملہ کرکے پاکستان سے جنگ چھیڑ دی۔ ہندوستان کی یہ خواہش رہی کہ وہ پاکستان کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچائے اور اس کا اظہار اکثر ہوتا رہا ہے۔

خاص طور پر معیشت کے محاذ پر ہمہ وقت پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے کے درپے رہا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کے حصے میں آنے والی رقم روک لینا۔ اس دوران وقتاً فوقتاً آنے والے سیلاب کے موقع پر دریاؤں میں پانی چھوڑ دینا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی آتی رہی۔ پاکستان معاشی اور صنعتی لحاظ سے انتہائی کمزور تھا۔ لہٰذا قیام پاکستان کے فوری بعد انتہائی ناسازگار اور نامساعد حالات میں ملکی معاشی صنعتی ترقی کی طرف توجہ دی گئی۔ ملک میں 9 بڑے کارخانے موجود تھے۔

جن میں چند ٹیکسٹائل ملیں، دو شکر ساز کارخانے اور 4 سیمنٹ کی فیکٹریاں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیمنٹ بنانے کے لیے جس قسم کے خام مال یعنی چونے کا پتھر، جپسم وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ذخائر مغربی پاکستان میں موجود تھے۔

ان سیمنٹ فیکٹریوں میں اہم ترین سیمنٹ فیکٹری ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری کراچی میں قائم تھی۔ ڈالمیا کے نام سے ایک اہم ترین علاقہ کراچی کے وسط میں انتہائی مصروف کاروباری مرکز بھی ہے۔ لی مارکیٹ جانے والی بسوں کا قدیمی اڈہ بھی یہاں موجود ہے۔ جس کے ساتھ ہی سیکڑوں دکانیں موجود ہیں ، لیکن یہاں کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ دن کے اوقات میں اور شام 7 بجے سے رات ساڑھے نو بجے تک تو بجلی غائب ہوتی ہے اور یہی وقت یہاں کاروبار کا پیک ٹائم ہوتا ہے لہٰذا کے الیکٹرک ان اوقات پر نظرثانی کرے۔

بہرحال 1980 کی دہائی میں آبادی میں اضافے کے باعث اس فیکٹری کو ختم کردیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کی صنعتی ترقی اور سیمنٹ کی برآمدات اور پیداوار میں پاکستان نے کافی ترقی کرلی۔ پاکستان کو معاشی اور صنعتی لحاظ سے ترقی دینے کی خاطر پہلے دو منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پہلا منصوبہ 1955 سے 1960 کا تھا۔ اس منصوبے کا ایک اہم ہدف یہ تھا کہ ملک کی دیہی آبادی کے ایک چوتھائی حصے کو ’’ دیہی زرعی و صنعتی ترقیاتی پروگرام ‘‘ کے تحت ترقی دینا تھا۔

صنعتی پیداوار میں تقریباً 100 فیصد اضافہ کرنا مقصود تھا، معاشی ترقی کی رفتارکو تیز کرنا خصوصاً ملک کے دونوں حصوں کے درمیان معاشی تضادات کو دور کرنا تھا ، لیکن یہ منصوبہ جوکہ تاخیر سے شروع ہوا، اور ملک میں سیاسی افراتفری اور چونکہ پاکستان کا پہلا منصوبہ تھا لہٰذا ناکافی معلومات و اعداد و شمار کی عدم دستیابی اور ناتجربہ کاری کے باعث ناکام رہا۔ اب اس منصوبے کی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا منصوبہ 1960سے 1965تک کے لیے تشکیل دیا گیا جس سے معاشی ترقی کا ایک واضح رخ متعین ہو چکا تھا۔

منصوبے کے اہداف کے حصول کے لیے زرعی صنعتی اور سماجی ترقی سے متعلق شعبوں کی ترقی کو اولین ترجیح دی گئی۔ غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنے کے لیے ملکی بچتوں کی شرح میں اضافے کے لیے چند اہم اقدامات تجویز کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔

1960-61 میں ملکی بچتیں خام قومی پیداوار کے 6.9 فیصد پر مشتمل تھیں جب کہ 1964-65 میں یہ تناسب بڑھ کر 11.2 فیصد تک جا پہنچا۔ دوسرے منصوبے میں خام قومی پیداوار میں 24فیصد اضافے کے ہدف سے بڑھ کر 30.4 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ فی کس آمدنی میں اضافے کا ہدف 12 فیصد تھا لیکن اضافہ 14.8 فیصد ہو کر رہا۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں 21 فیصد سالانہ اضافے کی حد کی جگہ حقیقی اضافہ 27 فیصد تک جا پہنچا۔

صنعتی شعبے کی کارکردگی دیگر تمام منصوبوں پر حاوی رہی۔ دوسرے منصوبے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ بناسپتی گھی کی پیداوار میں 178 فیصد اور شکر کی پیداوار میں 65فیصد اضافہ ہوا، بجلی کی پیداوار میں تقریباً دگنا اضافہ نوٹ کیا گیا۔

تیسرے منصوبے کے آغاز سے قبل جیسے ہی دوسرے منصوبے کی زبردست کامیابی کا چرچا ہونے لگا اس کے ساتھ ہی عالمی پیمانے پر کئی مخالف ملکوں اور خصوصاً ہندوستان نے اسے انتہائی ناگوار جانا۔ اگرچہ کئی ملکوں نے دوسرے منصوبے کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی۔

پاکستانی ماہرین سے معاونت بھی حاصل کی۔ اب جیسے ہی تیسرا منصوبہ شروع کیا گیا تو کچھ ہی عرصے کے بعد ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ دفاع وطن میں تو ہم کامیاب و سرخرو ہوگئے لیکن معاشی دفاع کے محاذ پر بتدریج ناکام ہوتے چلے گئے اور ملک بھر میں سیاسی بے چینی کو ہوا دی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔