پیر ’’Lilibet‘‘ کا جادو!!

عارف انیس ملک  اتوار 11 ستمبر 2022
arifanees@gmail.com

[email protected]

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی موت کے بعد کئی زاویوں سے بات چیت چل رہی ہے۔Lilibet، ملکہ الزبتھ کا نک نیم تھا۔ میں چونکہ لیڈرشپ کی سائنس کا طالب علم ہوں تو اسی حوالے سے ان کی زندگی کا جائزہ لوں گا۔کہا جاتا ہے کہ طاقت کی سب سے اونچی سیڑھی پر شور موجود نہیں ہوتا۔ ملکہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت تھیں۔

بہت کم دوستوں نے ملکہ کے اثر اور لیڈرشپ پر بات کی ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ متعلق بات ہے۔ بی بی سی نے جب سرخی چھاپی کہ ’’ملکہ کی موت پر تاریخ رک گئی‘‘ تو شاید کسی کو مبالغہ لگے مگر برطانیہ اور فرسٹ ورلڈ کی حد تک ایسا ہی ہے۔ جب الزبتھ ملکہ بنیں تو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر سورج ڈھل چکا تھا اور دوسری جنگ عظیم میں اس کی ہڈیاں چورا بن چکی تھیں۔ یاد رہے کہ ملکہ الزبتھ کی شادی کا لباس بھی کچھ عوامی عطیات جمع کر کے بنایا گیا تھا۔ Lilibet نے جو تاج پہنا تھا وہ بہت بھاری اور کئی جگہوں سے چبھنے والا تھا۔

انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایک کانسپٹ ’’سافٹ پاور‘‘ ہے کہ جنگی سازوسامان اور فوج کی ہیبت کے علاوہ کس طرح اقوام اپنی زبان، ثقافت اور موسیقی سے دنیا میں اپنا مصالحہ بیچتی ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ تقریباً سو سال سے عالمی طاقت کے اسٹیج پر اپنی جگہ کھو چکا ہے تاہم گزشتہ دس برس میں کئی مرتبہ دنیا میں سب سے بڑی سافٹ پاور رہنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس اعزاز کا 80فیصد کریڈٹ ملکہ برطانیہ کو جاتا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ برطانوی شاہی خاندان کی موجودگی، ہر برس دس ارب پاؤنڈز کے برابر رقم، سیاحوں، طالب علموں اور دیگر اثر ورسوخ سے برطانوی خزانے میں جانے کا باعث بنتی ہے یعنی اگر ہاتھی ہے بھی سہی تو سفید ہاتھی نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر مرتب کی گئی ایک فہرست کے حساب سے، ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم 96 سالہ زندگی میں مندرجہ ذیل تاریخی ساعتوں سے گزریں۔

طاعون سے، چیچک سے، دوسری جنگ عظیم کے دوران، کوریا کی جنگ کے دوران، ویتنام کی جنگ کے دوران، لینڈ رورو اور رینج روور کے بننے والے عرصے کے دوران، کنکورڈ جہاز کے شروع ہونے کے وقت ، کنکورڈ کے خاتمے کے بعد ، جرمنی میں نازی حکومت کے دوران، برلن کی تباہی کے دوران، برلن کی تقسیم کے وقت، برلن کی یکجائی کے وقت ، اسرائیل کی تخلیق کے وقت، فلسطینیوں کی ان کے علاقوں سے بے دخلی کے وقت، 1956 میں تین مغربی قوتوں کے مصر پر حملہ کے وقت، 1973 میں ہونے والی جنگ کے دوران، سرد جنگ کے عرصے میں، ایران اور عراق کی جنگ کے دوران، پہلی خلیجی جنگ کے دوران، صدام حسین کے زوال کے وقت، سوویت یونین کے خاتمے اور ریاستوں کا شیرازہ بکھرنے کے وقت، برطانیہ کے یورپی یونین میں شمولیت کے وقت، برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے وقت، اپالو 1 سے 17 کے درمیانی عرصہ کے دوران، ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی آزادی کے وقت، 15 برطانوی وزرائے اعظم کی حکومتوں کے دوران، چارلس اور ڈیانا کی ازدواجی زندگی ، چارلس اور کامیلا پارکر، اینڈریو اور فیرگی ، ہیری اور میگن ۔

اور انھوں نے اپنے اس وقت میں بھگتا دیے :

15 امریکی صدر، 7 سعودی بادشاہ ، 48 اطالوی وزرائے اعظم، اقوام متحدہ کے 10 سیکریٹری جنرل ، 22 عدد پاکستانی وزرائے اعظم، 13 عدد پاکستانی صدور ، تیسری، چوتھی اور پانچویں فرانسیسی ریپبلک، انٹرنیٹ، ایپل ٹی وی، نیٹ فلیکس، کووڈ 19 ( کورونا وائرس)۔ میں سب سے زیادہ متاثر اس امر سے ہوں کہ ملکہ برطانیہ نے انسانی ترقی اور تبدیلی کے سب سے تیز اور تند سالوں میں اپنے آپ کو تبدیل کیے رکھا اور شاہی خاندان جیسے فرسودہ ادارے کو مرنے نہیں دیا۔ آج بھی برطانیہ میں 65-70 فیصد افراد شاہی خاندان سے محبت کرتے ہیں اور گوروں کی مشہور زمانہ جمہوریت سے محبت اور اختیار سے نفرت کے باوجود اس وقت تاش کے پتوں کے علاوہ برطانوی بادشاہ بھی باقی ہے۔

حال ہی میں نیٹ فیلکس پر ڈرامہ CROWN THE نے باہر کی دنیا کو شاہی خاندان کے اندر کے مناظر دکھائے اور لوگوں کو نظر آیا کہ شاہی تاج بھی پہننے والے کو کہاں کہاں چبھتا ہے۔ میں ٹاپ کمپنیوں کے سی ای اوز کو کوچ کرتا ہوں تو انھیں یہ ڈرامہ سیریز دیکھنے کی ترغیب دیتا ہوں، انفلوئنس اور ایگزیکٹو پریزینس کے حوالے سے شاید اس سے بہتر چیز نہیں بنی۔

لیڈرشپ کے طالب علموں کو ایک اور شاندار چیز ضرور دیکھنی چاہیے۔ برطانوی ملکہ یا بادشاہ ہر منگل کو بکنگھم پیلس میں ساڑھے چھ بجے کے آس پاس برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں۔ 2013 میں ویسٹ اینڈ پرAUDIENCE THE نام کا ڈرامہ بنا جس میں ہیلن مرن نے ملکہ الزبتھ کا شاندار کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنے ستر برس کے دوران 14 برطانوی وزراء اعظم سے ملاقاتیں کیں جن میں چرچل سے لے کر بورس جانسن تک شامل تھے۔ سیاست اور لیڈرشپ کے طالب علموں کے لیے یہ ملاقاتیں اور کاروبار حکومت میں مداخلت کیے بغیر ملکہ کی وزراء اعظم کو ایڈوائس بیش قیمت اور خاصے کی چیز ہیں۔

گزشتہ دس برس میں ملکہ برطانیہ سے دو مرتبہ شاہی تقریبات میں ملاقاتیں ہوئیں، شہزادہ چارلس، سارہ فرگوسن، شاہزادہ ولیم اور شہزادیوں سے کئی مرتبہ ملاقاتیں رہیں۔ 2 برس قبل جب میں نے سلیمان رضا کے ساتھ مل کر کووڈ کے دوران پورے برطانیہ میں طبی عملے اور دیگر افراد کو کھانے فراہم کرنے کی مہم ’’ون ملین میلز‘‘ چلائی تو اس کے بعد ملکہ برطانیہ کی طرف سے تعریفی خط موصول ہوا، جسے پا کر میں بہت حیران ہوا تھا کہ میرے خیال میں شاہی خاندان کو اس رضاکارانہ مہم سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ پچھلے دس سالوں میں، میں یہی دیکھ پایا کہ شاہی خاندان کے اس ادارے کی گوند ملکہ برطانیہ ہی تھیں۔ شاہ برطانیہ کے طور چارلس یقیناً مؤثر رہیں گے تاہم اس امر کا خطرہ موجود ہے کہ یونائیٹڈ کنگڈم متحد نہ رہ پائے اور اسکاٹ لینڈ اگلے کچھ برسوں میں علیحدہ ملک بن جائے۔

خیر اس وقت برطانیہ میں شدید سوگ کا عالم ہے۔ بکنگھم پیلس کا چکر لگا ہے تو وہاں کئی گوروں اور گوریوں کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا ہے جو گوروں کے ٹھنڈے پن کو جانتے ہوئے، ایک اجنبی سی ساعت ہے۔ سب سے خاص بات یہ تھی جب کچھ بزرگ گورے، گوریوں سے بات ہوئی تو اس کا مفہوم یہ بنا کہ برطانیہ ویسے تو دوسری عالمی جنگ میں ختم ہوگیا تھا تاہم یہ ملکہ کی برکت تھی کہ وہ اپنے پاؤں پر جم کر کھڑا ہوا اور پاؤنڈ میں طاقت بھی برقرار رہی۔ اب یہ بزرگ لوگ آنسوؤں سے پریشان تھے کہ اب ملکہ نہیں رہی تو اس ’’برکت‘‘ کا کیا بنے گا؟ ثابت ہوتا ہے کہ پیر صرف دیس میں نہیں ہوتے یا شاید خدمت کرنے والے کسی بھی دیس میں ہوں، انھیں پیر مان لیا جاتا ہے۔

انسانی نفسیات صدیوں سے شاہوں، بادشاہوں اور شہزادیوں کو پسند کرتی ہے کیونکہ وہ ان کی کہانیوں کے مرکزی کردار ہوتے ہیں جنھیں شاید جان بوجھ کر ابھارا جاتا ہے تاہم ایسے غبارے دس بیس برس میں پھٹ جاتے ہیں، اگر کوئین الزبتھ ستر برس کی فرماں روائی میں دنیا کے سب سے بے رحم پریس اور تنقید کا سامنا کرتی ہوئی عزت سے رخصت ہوئی ہے تو اس میں لیڈرشپ کے طالب علموں کے لیے کافی کچھ سیکھنے کو موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔