ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور پانی بحران

سرور منیر راؤ  اتوار 11 ستمبر 2022
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جمعہ کے دن پاکستان میں سیلاب کی صورت حال دیکھ کر کہا کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی بڑھانے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں لیکن پاکستان سب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔ دنیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔

پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور پانی کے خطرناک بحران کا شکار ہیں، رواں سال سرکاری اعداد و شمار میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کا نہری نظام 50فیصد پانی کی کمی کا شکار ہے، پاکستان آج بھی دستیاب پانی کا بڑا حصہ سمندر میں گرا کر ضایع کر دیتا ہے۔

60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیزائن کردہ چھوٹے بڑے ڈیمز ترجیحا تعمیر کیے جائیں ، زرعی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں، راجباہوں کی باقاعدگی کے ساتھ بھل صفائی کی جائے، پانی کی کفائت شعاری کا کلچر اختیار کیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب پٹرول ڈیزل نہیں تھا تب بھی انسانی زندگی موجود تھی، پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔ زمانہ قدیم سے پانی کے مسئلے پر جنگیں جاری ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ بارش کولمبیا میں 3240 ملی میٹر ہوتی ہے۔ پاکستان 145ویں نمبر پر ہے جہاں سالانہ اوسط 494 ملی میٹر بارش ہے۔ بنگلہ دیش تیسرے نمبر پر ہے۔ یورپ کے کئی ممالک جہاں کم و بیش پورا سال بارش ہوتی ہے لیکن وہاں پاکستان جیسا کوئی سیلاب یا تباہی اور بربادی کی صورتحال نظر نہیں آتی۔

اصل معاملہ کیا ہے اس پر شاید ہی کوئی حکمران یا صاحب اقتدار اور اختیار بحث کرے گا۔ ہم سب ہی جانتے ہیں یہاں ڈیم نہیں بنائے گئے اور مون سون کی تیز بارشوں کے پانی کو جمع کرنے اور اسے ریگولیٹ کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایک طرف کراچی، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اندرون پنجاب کے بیشتر علاقوں کے پاس پینے کو صاف پانی نہیں، فصلیں بنجر ہو رہی ہیں جب کہ دوسری طرف بارشوں کا پانی سیلاب کی شکل میں اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ آدھا ملک ڈوب کر تباہ ہو جاتا ہے۔ اگر ملک میں ڈیم بنائے گئے ہوتے تو نہ پینے کے پانی کا مسئلہ ہوتا نہ کاشتکاروں کی زمینیں بنجر ہوتیں نہ ہی بجلی کا مسئلہ اور نہ ہی سیلاب کا تباہ کن منظرنامہ ہوتا۔ ہم پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹم بم تو بنا سکتے ہیں لیکن چند ملک دشمن عناصر کے خوف سے ڈیم نہیں بنا سکتے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں موسمی تبدیلیاں اور آلودگی کے بڑھنے کی وجہ سے ایسی گیسز پیدا ہو رہی ہیں جس نے دنیا بھر میں ماحولیات کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ ماحول کی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہمارا خطہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا کے بڑے ممالک بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں شدید ہوئیں۔ ماحول میں اس تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات تو ایک بین الاقوامی عمل ہے لیکن کیا ہم نے بطور پاکستانی اپنے ملک اور عوام کو اس تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے کوئی دانشمندانہ اور بصیرت افروز قدم اٹھایا ہے۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ عالمی ماحولیاتی اداروں نے آج سے دس پندرہ سال پہلے الارم کی گھنٹی بجا دی تھی کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی اثرات کی جانب توجہ نہ دی گئی تو سن 2020 سے 25 کے درمیان پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہوگا جہاں شدید موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں آئیں گی اور غذائی پیداوار کی کمی کی وجہ سے قحط کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس جانب کوئی توجہ دی؟ تو یقینا جواب نفی میں ہی ملے گا ۔

پاکستان اس وقت سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ شدید ترین معاشی بحران کا بھی شکار ہے۔ سیلاب کی وجہ سے بین الاقوامی برادری کو انسانی ہمدردی کے نام پر ہمارا خیال آگیا۔ سیلاب اور بارشوں سے تباہی کسی اعتبار سے خوش کن پہلو نہیں لیکن رب کریم نے اس آزمائش میں بھی پاکستانیوں کے لیے اپنے نظام کی اصلاح کا دروازہ کھول دیا ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے اربوں ڈالر اور سامان مل رہا ہے، ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس رقم کو ضرورت مندوں تک پہنچائیں اور ٹاؤن پلاننگ کر کے بے گھر افراد کو اس طرح بسایا جائے کہ وہ آیندہ سال تیز بارشوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ملک میں پانی کے ذخیرے اور ڈیم بنانے پر بھی ترجیحی توجہ کی استدعا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔