ناقدری !

راؤ منظر حیات  پير 12 ستمبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ساغر صدیقی کا تعلق ہریانہ کے ضلع انبالہ سے تھا۔ وہ تقسیم ہند سے پہلے پیدا ہوا ، بچپن میں استاد حبیب حسین کی بدولت اردو شاعری سے شغف پیدا ہوا۔ بچپن میں امرتسر میں لکڑی کی کنگھیاں بیچنے کا کام شروع کیا اور ساتھ ہی بلا کی شاعری بھی۔ پاکستان بنا تو لاہور منتقل ہو گیا۔ یہاں مشاعروںکی جان گردانا گیا۔

ایسی ایسی کمال غزلیں اور تحت اللفظ پڑھنے کے دلکش انداز نے سب کو ساغر کا گرویدہ بنا دیا۔ ساغر ایک شاعر اور حساس انسان تھا، اس معاشرے میں اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ یہاں کوئی انسان سوچنا شروع کر دے۔ ساغر لفظوں اور جذبوںکا کاریگر تھا۔ شعر کہنے کے لیے احساس تو ایک ضروری جزو ہے۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں ہی ساغر نے افسر شاہی اور اشرافیہ کی ہوشرباکرپشن ،ہوس زر، اقرباپروری اور متروکہ و سرکاری املاک کی لوٹ مار دیکھی تو مایوسی اس کی روح تک اتر گئی۔

اس کے پاس دولت نہیں تھی اور نہ اشرافیہ تک رسائی، ناقدری کے سبب وہ فٹ پاتھ پر آگیا،اندرون لاہور کی گلیاں اس کا مسکن بن گئیں۔ پھٹے پرانے کپڑے‘ بڑھے ہوئے بے ترتیب بال اور مفلوک الحالی اب اس کے مستقل ساتھی تھے۔ اس وقت کے ادبی حلقوں کو بھی معلوم تھا کہ ساغر لازوال شاعر ہے۔ ساغر کی مجبوری سے ادبی قزاقوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، اس کا کلام خرید خرید کر خود شاعر مشہور ہو گئے۔

ساغر غربت اور نشے کے ایک ایسے گرداب میں دھنس گیا جہاں سے پوری زندگی باہر نہ نکل پایا۔ 1974 کی ایک صبح اندرون لاہور کے ایک فٹ پاتھ پر چھیالیس برس کی جوان عمر میں ساغر زندگی کی بازی ہار گیا۔ اتفاق دیکھیے ، ایک برس کے بعد ٹھیک اس جگہ ، اسی مقام پر ‘ اس کا واحد ساتھی‘ پالتو کتا بھی مرا ہوا پایا گیا۔

ناقدری کا شکار ساغر صدیقی بے آسرا مر گیا بلکہ ہمارے بے حس اور ظالم معاشرہ کے ہاتھوں خاموشی سے قتل ہو گیا۔ اس کا جرم تھاکیا، صرف یہ کہ باذوق لیکن تنہا اورمفلوک الحال تھا۔

موسیقی میں ایک مستند نام‘ استاد سلیم اقبال کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ فلموں کو لازوال گانے دینے والا انسان‘ لاہور شاہدرہ کے نزدیک ایک کچی آبادی میں نیم پختہ مکان میں سانس لیتا رہا۔ آبادی کے اندر بھی کوئی اسے نہیں جانتا تھا کہ وہ کتنا باکمال موسیقار ہے۔ سلیم اور اقبال دو سگے بھائی تھے۔سلیم‘ حد درجہ زرخیز ذہین تھا۔ چنانچہ فن موسیقی میں اپنے بھائی سے زیادہ مشہور ہو گیا۔

اور یوں وہ ٹو ان ون سلیم اقبال بن گیا۔ 1966 میں نسیم بیگم نے استاد کی موسیقی میں امر گاناگایا۔ ’’اے راہ حق کے شہیدو‘ وفا کی تصویرو ‘‘ یہ نغمہ آج بھی سنیں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ شادی بیاہ میں روایت کے طور پر گایا جانے والا گانا ’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘‘ یہ بھی سلیم صاحب کی موسیقی ہے۔

اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا۔ اس سطح کے ان گنت گانے استاد سلیم اقبال کی موسیقی سے معمور ہیں۔ مگر سوچیے۔ ہم نے اس بلند موسیقار کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ استاد سے میری ملاقات 1982میں ہوئی۔ یہ اتفاقیہ ملاقات تھی مگر بہت کم عرصے میں گہری دوستی میں بدل گئی۔ اس وقت میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ وہ دور سلیم اقبال کے بھرپور زوال کا دور تھا۔ کسی بھی طالب علم کی طرح میں بھی زیادہ خدمت نہیں کر سکتا تھا۔

سلیم اقبال کو دوپہر کا کھانا کھاتے گوالمنڈی میں درجنوں بار دیکھا ہے۔ سوکھا نان اور سرکاری نلکے کا پانی ۔ جس دن تھوڑے سے زیادہ پیسے ہوں تو پکوڑے خرید لیتے تھے۔ یہ آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔ لنچ کا بل دو سے تین روپے بنتا تھا۔ جو کبھی میں ادا کرتا تھا اور کبھی سلیم اقبال خود۔ جس دن ریڈیو پاکستان سے پیسے ملتے تھے۔

اس دن عیاشی ہوتی تھی۔ اور صاحبان ! یہ عیاشی بھی کیا سادہ تھی۔ ہم دونوں ‘ گوالمنڈی کے ملک ٹی اسٹال سے سادہ چائے پی لیتے تھے۔ ہمارے معاشرے اور نظام کا ظلم ملاحظہ فرمایئے۔ گاڑی تو دور کی بات‘ اس قدر ناقدری تھی کہ سلیم اقبال موٹر سائیکل تک سے محروم تھے۔ کئی بار انھیں اپنی موٹر سائیکل پر شاہدرہ چھوڑ کر آیا۔ اتنا بڑا موسیقار اور اس قدر محرومی۔ صرف اور صرف گریہ کیا جا سکتا ہے۔

بعد مرگ ویسے بھی ہم مرثیہ گوئی کے ماہر ہیں۔ زندگی میں کبھی کسی اہل ہنر کی تحقیر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ یہی ہماری روایت ہے۔ سلیم اقبال کی سطح کا موسیقار اگریورپ یا ہندوستان میں ہوتا ‘ تو کم از کم ارب پتی ہوتا۔ اس کے مجسمے اہم مقامات پر لگے ہوتے۔ مگر ہم نے اپنی روایت کے عین مطابق سلیم اقبال کو نظر انداز کیا۔ آخری عمر میں سلیم صاحب کو فالج ہو گیا۔ اپنے گھر میں سہارے کا انتظار کرتے کرتے‘ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ہمارا ظالمانہ معاشرتی رویہ آج بھی ویسا ہی ہے بلکہ زیادہ بھیانک ہوگیا ہے۔

منیر نیازی صاحب ذاتی دوست تھے۔ ٹاؤن شپ لاہور میں حکومت نے انھیں ایک چھوٹا سا پلاٹ دیا تھا۔ نیازی صاحب نے وہاں ایک سادہ سا گھر بنا لیاتھا۔ ان گنت بار وہاں جانے کااتفاق ہوا۔ خیر ساغر صدیقی اور استاد سلیم اقبال کے مقابلے میں وہ بہت خوش قسمت تھے ، انھوں نے ساری زندگی سفید پوشی برقرار رکھی۔ کل وقتی شاعر کتنا امیر ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔

منیر نیازی بھی پوری عمر تنگدستی کا شکار رہے۔ شاید کسی کو اندازہ نہ ہو۔ پوری زندگی نیازی صاحب گاڑی نہیں خرید سکے۔ بسوں‘ ویگنوں پر سفر کرتے کرتے پوری زندگی گزار ڈالی۔ سنا ہے شاید آخری عمر میں حکومت نے انھیں کار فراہم کی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ ایک دن ملے تو ٹاؤن شپ کی بڑی شاہراہ پر بس اسٹاپ کی طرف جا رہے تھے۔ پوچھا کہ نیازی صاحب‘ کیا احوال ہیں۔ بتانے لگے کہ آج کل ایک نایاب مشغلہ ڈھونڈا ہے۔ ٹاؤن شپ سے بس میں بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کا آخری اسٹاپ یادگار پاکستان ہوتا ہے۔ چار پانچ گھنٹوں میں آنا جانا ہو جاتا ہے۔ پھر واپس آ کر سو جاتا ہوں۔ میں حیران رہ گیا۔

مگر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ منیر نیازی کا جواب آج تک یاد ہے۔ ڈاکٹر پورا لاہور بس میں پھرتا ہوں۔ مگر کھڑکی سے کوئی انسان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ دماغ بھک سے اڑ گیا۔ نیازی صاحب۔ لاہور میں تو ہر طرف انسان ہی انسان ہیں۔ نیازی صاحب نے سوچ کر کہا مجھے تو ہر طرف خونخوار جانور نظر آتے ہیں۔

لمبے لمبے دانتوں والے‘ جن کے منہ سے لالچ اور پیسے کی ہوس کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے۔ پتہ نہیں‘ انسان کہاں گئے۔ پورا شہر ہی خالی ہوچکا ہے۔ 1989 کا واقعہ ہے۔ منیر نیازی جیسا عظیم شاعر اپنی زندگی میں مکمل ناقدری کا شکار رہا۔ ادبی لٹیروں کے مخصوص گروہ نے کبھی انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا ۔تنہا اور زچ کرتے رہے۔ اس لیے کہ انھیں پتہ تھا کہ منیر نیازی ان سے بہت بڑا شاعر ہے۔ اور یہ امر بھی حقیقت ہے کہ منیر اپنے زمانے میں شاعروں کاامام تھا۔ ہمارے بیمار معاشرے میں اعلیٰ ظرف آدمی کے ساتھ جو تلخ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کے شاہد آپ بھی ہیں اور خاکسار بھی۔منیر نیازی بھی مکمل ناقدری کا شکار رہا۔

ساغر صدیقی جیسا بلند پایاشاعر ہو ‘ یا استاد سلیم اقبال جیسا اونچا موسیقار ‘ منیر نیازی جیسا لازوال شاعر ہو۔ ہمارے ملک میں کسی بھی میدان میں جو کوئی بھی اہل ہنر ہو گا۔ ہم اس کی گردن کاٹ دیں گے۔ خاکسار کے ان گنت شاعر‘ موسیقار‘ گلوکار‘ سائنسدان شناسا ہیں۔ ان میںایک قدر مشترک ہے۔

آسودہ حالی ان کے قریب نہیں پھٹکتی ۔ بس اوسط درجہ کی سفید پوشی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں باعزت کون ہے۔ صاحب آپ جواب تو جانتے ہیں۔ صرف اور صرف دولت مند کی ۔اگر آپ دو یا چار کروڑ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں تو حکومتی عمال آپ کا چالان نہیں کریں گے۔ کوئی سائیکل ‘ موٹرسائیکل یا چھوٹی گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو سمجھیے کہ سرکار کا ہر ہرکارہ اس کے درپے ہو گا۔اگر آپ کے پاس وسیع و عریض گھر ہے‘ نوکر چاکر ہیں‘ کاروبار ہے‘ تو سمجھ جائیے کہ یہ ملک قائداعظم نے صرف اور صرف آپ کے لیے بنایا ہے۔ آپ ہی یہاں باعزت گردانے جائیں گے۔ یہاں عزت اور احترام کا معیار صرف اور صرف دولت ہے۔

جائز اور ناجائز دھن کی بھی کوئی تفریق نہیں ۔ بس ایک پاگل پن والی دوڑ ہے۔ جس میں ہر آدمی مزید امیر ہونا چاہتا ہے۔ یہ المناک حقیقت تو سب کے سامنے ہے۔ ہمارے ملک کے کسی بھی شعبہ کے اہل ہنر لوگ ہمیشہ برباد رہیںگے یا کر دیے جائیںگے ۔ بس سانس لیتے رہیے اور گمان کیجیے کہ آپ زندہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔