سیاسی مفادات

فاروق عادل  پير 19 ستمبر 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

فوج کے سربراہ کے تقرر کے بارے میں عمران خان اور سراج الحق کے بیانات خاصے معنی خیز ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے سے اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی غیظ و غضب کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس طرز عمل کا نکتہ عروج لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر کا سانحہ تھا،پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ نے ان شہدا پر رکیک حملے کیے لیکن پھر جیسے ہی حالات بدلے، عمران خان بھی بدل گئے۔ انھوں نے آیندہ انتخابات تک ایک اہم عہدے کی توسیع کی تجویز پیش کر دی۔

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کا انداز فکر مختلف ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ فوج کے سربراہ کی تعیناتی میں بھی عدلیہ کے چیف جسٹس کے تقرر جیسا طریقہ اختیار کیا جائے۔ سراج الحق اور عمران خان کی تجاویز اور ان تجاویز کے مقاصد میں ایک جوہری فرق ہے۔ عمران خان کے پیش نظر اپنے لیے فوری اقتدار کی منزل ہے ۔ وہ کسی بھی طرح اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

ضرورت پڑے تو قومی اداروں کی قیادت کو میر جعفر اور میر جعفر جیسے بدترین تاریخی اور قومی غداروں کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ اگر سیاسی مفادات برعکس ہو جائیں تو وہ ان ہی ناپسندیدہ لوگوں کے لیے امکانات کے دروازے کھول سکتے ہیں۔

سراج صاحب نے جو تجویز پیش کی ہے، اس کے پس پشت ان کا یا ان کی جماعت کا کوئی فوری سیاسی مفاد کارفرما نہیں ہے۔ قومی اسمبلی ہو یا سینیٹ، اقتدار کی راہ کھولنے والے ان دونوں ایوانوں میں ان کا ایک ایک رکن موجود ہے۔ پاکستان میں اس وقت جس قسم کا سیاسی ماحول ہے، اس کے پیش نظر آنے والے دنوں میں بھی جماعت کے مکمل اقتدار میںآنے کا امکان محدود ہے۔

حالیہ سیلاب کے دوران الخدمت نے جس تن دہی کے ساتھ عوام کی خدمت کی ہے، اس کی وجہ سے سیاسی سطح پر اس کی پذیرائی میں غیر معمولی اضافہ ہو بھی جائے تو جماعت کے مفادات تحریک انصاف جیسے نہیں ہوں گے۔

جماعت کے سیاسی مفادات کا ایک پہلو تو یہ ہے۔ ایک پہلو اس سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو اسے دیگر تمام جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کے متعلقین ہوں، اس کے ہم خیال یا مخالفین، ان تمام طبقات کے درمیان عمومی اتفاق ہے کہ قومی معاملات کے بارے میں جماعت اسلامی کی طرف سے جو بھی تجویز آئے گی، وہ جماعت کے سیاسی مفاد کے بجائے قومی مفاد کے تابع ہوگی۔

سراج الحق صاحب کی طرف سے فوج کے سربراہ کے تقرر کے بارے میں پیش کی جانے والی تجویز کو بھی جماعت کے اس مزاج کے مطابق سمجھنا چاہیے لیکن یہ اصول طے کر لینے کے باوجود امیر جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز کے تجزیے اور اس کے ممکنہ اثرات پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

عدلیہ میں چیف جسٹس کے تقرر کا موجودہ طریقہ کار یہ ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینیارٹی کے اعتبار سے سینیئر جج از خود چیف جسٹس بن جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کے تقرر کا یہ طریقہ کار سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس وقت جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔

2007 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اسی زمانے میں اٹھارھویںترمیم منظور کی گئی جس میں میثاق جمہوریت میں طے کیے اصولوں کے مطابق عدلیہ میں تقرر کے معاملات پارلیمنٹ کے سپرد کر دیے گئے جسے آزاد عدلیہ کے خلاف تصور کیا گیا۔

یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سترہ رکنی بینچ کے زیر سماعت آیا ۔بینچ نے حکومت کو تین ماہ کی مہلت دی کہ اس دوران میں اصلاح کردے۔ چناں چہ انیسویں ترمیم منظور کی گئی۔حکومت خطرہ محسوس کرتی تھی کہ اس موقعے پر اگروہ ایسا نہ کرتی تو ایک نہ ختم ہونے والا بحران پیدا ہو جاتا۔ حکومت نے اس مرحلے پر کسی تنازعے میں پڑنے کے بجائے پسپائی مناسب سمجھی۔ اسی پسپائی کے نتیجے میں انیسویں ترمیم منظور ہوئی جس کے نتیجے میں ججوں کے تقرر کے ضمن میں پارلیمنٹ کا اختیار محدود ہوا اور عدلیہ کا کردار بڑھ گیا۔

انیسویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ اس وقت تو دب گیا لیکن بعد میں بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح خوف ناک ہو گیا۔ اس کا سب سے مہلک مظاہرہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے زمانے میں سامنے دیکھنے میں آیا جنھوں نے متوازی حکومت قائم کر کے ریاست کی جڑیں ہلا دیں۔ اس وقت ملک میںجو سیاسی، تہذیبی اور اقتصادی بحران سنگین تر ہوتا دکھائی دیتا ہے، اس کی جڑیں اسی زمانے میں ڈالی گئیں۔

اسی طرح انھوں نے اس زمانے میں ہائی پروفائل مقدمات کو نمٹاتے ہوئے مصدقہ اور طے شدہ جوڈیشل اصولوں اور روایات کو پامال کر کے ایسے فیصلے دے دیے جن کے مضمرات سے قوم آج بھی نبرد آزما ہے۔ بعد کے زمانوں میں کچھ ایسے فیصلے بھی ہوئے جنھیں آئینی اور قانونی حلقوں کی طرف سے نیا آئین لکھنے سے تعبیر کیا گیا۔

ان تمام مسائل کی بنیاد سجاد علی شاہ کے اسی فیصلے نے رکھی۔ ماضی میں بروقت اصلاح کر لی جاتی تو جسٹس ثاقب نثار جیسی منہ زوری دیکھنے کو نہ ملتی۔اس تجربے سے سبق ملتا ہے کہ سسٹم میں اوّل تو کوئی ایسا عنصر داخل ہونے ہی نہ پائے ، کسی طرح داخل ہو بھی جائے تو اس کے من مانی کرنے کے امکانات محدود تر ہو جائیں۔ یہ مقصد ایک مربوط اور موثر نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس پس منظر میں سراج الحق صاحب کی تجویز کا گہرائی میں جا کر جو کوئی بھی تجزیہ کرے، ایک ہی نتیجے پر پہنچے گا کہ اس کے نتیجے میں حکومت کے اختیارات سلب ہو جائیں گے۔ ریاست میں اداروں کو طاقت ور ہونا چاہیے اور ان میں بڑے فیصلے کرنے کی اہلیت بھی ہونی چاہیے لیکن یہ نظام ریاست کے ایک مرکزی نظام کے تابع ہونا چاہیے تاکہ امور مملکت کسی رکاوٹ کے بغیر ہموار طریقے سے رواں رہیں۔

کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا نگراں ادارہ پارلیمنٹ ہی ہو سکتی ہے ، ملک کے اندر اور ملک کے باہرجس کی نمایندگی حکومت کرتی ہے ۔ کسی بھی حکومت کو عوام منتخب کرتے ہیں تاکہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک معاہدے کے تحت طے ہونے والے ریاستی امور کو چلایا جا سکے۔ عوام جب کسی کو ووٹ دے کر حکومت کے طور پر منتخب کرتے ہیں تو وہ حکومت کو کار مملکت چلانے کااختیار ہی تفویض کرتے ہیں ۔اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد حکومت قائم کرنے کا ہوتا ہی نہیں۔

موجودہ حالات میں جس قسم کی تجاویز سامنے آرہی ہیں ، ان پر عمل کرتے ہوئے اگر حکومت کو اہم ریاستی معاملات چلانے کے اختیارات سے محروم کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں حکومت ، حکومت نہیں رہے گی، ایک بلدیاتی ادارہ بن جائے گی۔ ایسی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے جس کے پاس ریاست کو چلانے کا کوئی اختیار ہو نہ کوئی پالیسی بنانے کا۔ایسی صورت حال ہی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کوئی معاشرہ طوائف الملوکی کا شکار ہو جاتا ہے۔

حکومت کو اہم ریاستی اختیارات سے محروم کرنے کے ضمن میں ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ حکمران بدعنوان ہوتے ہیں، اس لیے انھیں یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے اعتراضات ریاست، آئین، سیاست اور جمہوری اقدار سے ناواقفیت کی مظہر ہیں۔ کوئی بھی قانون کسی خاص شخصیت کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا۔ قانون ریاست اور قوم کے لیے وجود میں لایا جاتاہے۔ کسی ملک میں نظام جب ایک بار مستحکم ہو جاتا ہے تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خود سر کو بھی سہار جاتا ہے لیکن اگر قانون میں ہی کوئی سقم رہ جائے تو ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہمیں یہی چیلنج درپیش ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔