زباں فہمی؛ اردو اور دیگر زبانوں کے مشترک محاورات و ضرب الامثال (حصہ اوّل)

سہیل احمد صدیقی  اتوار 25 ستمبر 2022
بہت پہلے کہیں سُنا پڑھا تھا، ’’زمیں تنگ ہے، آسماں دور ہے‘‘
۔ فوٹو : فائل

بہت پہلے کہیں سُنا پڑھا تھا، ’’زمیں تنگ ہے، آسماں دور ہے‘‘ ۔ فوٹو : فائل

زبانیں کیسے معرض وجود میں آئیں اور انھیں کیسے فروغ ملا، یہ موضوع اپنے اندر بہت سی جہتیں یا یوں کہیے کئی جہان سموئے ہوئے ہے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ بنی نوع ِ آدم، ایک باپ (حضرت آدم علیہ السلام) اور ایک ماں (حضرت حوا سلام اللہ علیہا) کی اولاد ہیں تو اُن کے مابین لسانی اختلافات کے ساتھ ساتھ، لسانی (نیز تہذیبی) مماثلت اور مشترکات، بے حساب ہیں۔

اردو کا حُسن بے نظیر، یہ ہے کہ اُس کا تعلق دنیا کی تقریباً تمام اہم بڑی، اکثر چھوٹی زبانوں، حتیٰ کہ بولیوں سے بھی ہے۔ عربی، ترکی، فارسی، سنسکِرِت، ہندی، عبرانی، لاطینی (اور اُس سے جنم لینے والی زبانوں بشمول فرینچ، ہِسپانوی یعنی Spanish، المانوی یعنی German، پُرتگِیز یعنی Portuguese) ، انگریزی اور متعدد دیگر، ایشیائی و یورپی زبانوں سے ہماری پیاری زبان کا تعلق موضوعات کا سمندر ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ افریقہ کی زبانوں (عربی کے علاوہ) سواحلی (افریقہ کی سب سے بڑی زبان)، افریکانس [Afrikaans] (جنوبی افریقہ کی ہندآریائی زبان)، امہیری [Amharic]، صومالی اور بربر، نیز، مقامی غلام آبادی کے یورپ اور ہندوستان کے باشندوں کی زبان سے مل جل کر تشکیل پانے والی متعدد مخلوط بولیوں، یعنی خیول ( Creoleکریول) میں بھی ایسے بے شمار الفاظ پائے جاتے ہوں جو اُردو سے مشترک ہیں۔ اس سلسلے میں خطہ ہند سے قریب کے ممالک کی بولیوں اور زبانوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

ہم آج بات کریں گے اردو کے ایسے محاوروں اور کہاوتوں (ضرب الامثال) کی جو اپنے مفہوم (اور کہیں کہیں پس منظر کی حکایت کے ساتھ) کے ساتھ، دیگر زبانوں میں بھی موجود اور رائج ہیں۔ ہمارے یہاں بہت مشہور کہاوت ہے،’’انگورکھٹّے ہیں‘‘۔ اسے انگریزی میں کہتے ہیں:Grapes are sour.، فرینچ میں اس کے لیے کہتے ہیں: Raisins verts۔ مفہوم تو وہی ہے کہ کوئی چیز حاصل کرنے میں ناکامی پر اُس چیز ہی کو ناکارہ قرار دے دیا جائے، مگر لُطف کی بات یہ ہے کہ فرینچ میں کہا گیا، ’’سبز اَنگور‘‘ یعنی ابھی انگور ہَرے یا کچّے ہیں۔

یہ مفہوم ہمیں اردو کے ایسے متعدد، الفاظ وتراکیب کی یاد دلاتا ہے جن میں کچ پن یا کچّا پن، ہرے رنگ سے بیان کیا گیا ہو۔ یہی کہاوت دنیا بھر میں اپنے پس منظر کی حکایت کے ساتھ، اکثر زبانوں میں موجود ہے، حتیٰ کہ پاکستان کی نسبتاً کم معروف زبان بروشسکی [Burushaski] میں بھی ملتی ہے۔

خاکسار نے ماضی میں اس زبان کے فروغ کے داعی جناب نصیر الدین ہُنزئی (المعروف علامہ ہونزئی۔ اپنے الفاظ میں) سے ملاقاتوں میں اس زبان کا کچھ مواد حاصل کیا، اُن کی کتب کے بدلے میں ایک غیرملکی خاتون محقق کی کتاب بزبان انگریزی پیش کی جو وَاخی (یا بہ اختلاف ِ تلفظ وَخی) کے لوک ادب سے متعلق تھی۔ یہ زبان یا بولی وَاخان اور ہنزہ ودیگر علاقہ جات میں رائج ہے۔

میں نے اس کتاب میں شامل ایک مضمون اور بروشسکی کی کہاوتوں سے متعلق کینیڈا کی میک گِل یونیورسٹی کی مطبوعہ ایک کتاب میں شامل مضمون بھی ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کی ترتیب میں ہُنزئی صاحب کا اشتراک شامل تھا}۔ تعجب کی بات ہے کہ لومڑی ہر جگہ بدنام ہوئی، مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ تو پھل یا سبزی کھانے والا جانور نہیں۔ اسی طرح دوسری مثال ہے، اردو کی مشہور زمانہ حکایت پر مبنی کہاوت، ’’شیر آیا، شیرآیا‘‘ کی۔ البتہ اس کہانی میں بعض زبانوں میں ترمیم کی گئی; فارسی میں ’’گُرگ آمد‘‘ (یعنی بھیڑیا آیا) اور عربی میں بھی ’’الذئب‘‘ (بھیڑیا) کا قصہ مشہور ہے۔ فارسی میں اس کا مرکزی کردار ’’چوپان دروغ گو‘‘ یعنی جھوٹا گڈریا (چرواہا) ہے۔ یہی قصہ دیگر عالمی زبانوں میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔

بہت پہلے کہیں سُنا پڑھا تھا، ’’زمیں تنگ ہے، آسماں دور ہے‘‘، یہ بعینہ بروشسکی میں بھی موجود ہے۔ متن بوجوہ نقل نہیں کرسکتا۔ البتہ یہ کہاوت، بائبل میں شامل مختلف صحائف میں، تراجم کے فرق سے کچھ اور ہی مفہوم بیان کرتی ہے۔ بوسنیا ہرزی گووینا پر ڈھائی جانے والی قیامت کا احوال ایک فلم میں دستاویزی شکل میں دکھایا گیا ہے جس کا عنوان ہے:

THE LAND IS HARD, THE SKY IS HIGH
اردو میں کہتے ہیں، پرائی آنکھ کا تنکا دیکھ لیا، اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آیا/ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا، دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے۔ بروشسکی میں کہتے ہیں:’’کسی کو اپنی گردن پر پڑی دھول نظر نہیں آتی۔ فارسی میں کہا جاتا ہے،’’خار را دَر چشمِ دیگراں می بینی و شاہ تیر را در چشم خود نمی بینی ‘‘۔ اسی کی انگریزی یوں ہے (یہ قول، انجیلِ متی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ومذکور ہے):

You can see a mote in another’s eye but cannot see a beam in your own.
{Thou hypocrite, first cast out the beam out of thine own eye; and then shalt thou see clearly to cast out the mote out of thy brother’s eye.

— Matthew 7:1–5 KJV (Matthew 7:1–5)}
اردو میں شیرازہ بکھرنا بہت مشہور ہے، بروشسکی میں کسی نیک ، جوان اور عزیز شخص کی وفات پر کہتے ہیں: ’’دھاگا ٹوٹ گیا اور موتی بکھر کے گم ہوگئے‘‘۔ وقت پڑے پر پِیٹھ دکھانے والے نام نہاد، دوستوں کے لیے اسی زبان میں کہا جاتا ہے:’’یہ تو کسی صحرا میں بکھرے ہوئے باجرے کے دانے ہیں‘‘۔ علاقہ ساندل بار کی پنجابی میں ایک لوک کہانی ’’چبڑھ‘‘ یعنی پودنے کی مشہور ہے جو اُردو میں بھی بچوں کی کہانی کے طور پر مدتوں سنائی جاتی رہی، خاکسار نے اپنے ایک کالم میں نقل بھی کی تھی ، مگر دونوں کے متن میں بہت واضح فرق ہے۔ اردو والی میں تو راجہ نے اُس کی مادہ یعنی پودنی کو جبراً اپنے پاس رکھ لیا تھا اور پودنے نے اس کے خلاف، مختلف جانوروں کو ملاکر، لڑائی کی تھی، پنجابی کی کہانی میں یوں بیان کیا گیا کہ ایک جاٹ نے اپنے کھانے کے وقفے میں اپنے کھیت کے بیلوں کی جوڑی، ہل چلانے کو، پودنے کے سپرد کردی تھی جو راجہ نے غصب کی۔ کچھ پنجابی ’’اَکھان‘‘ یعنی کہاوتوں سے خوشہ چینی کرتے ہیں:

ا)۔ پا نہ پڑھی تے وَختاں نُوں پھڑی: سَرمُنڈاتے ہی اولے پڑے

ب)۔ جٹ جانے، بجو جانے، لالہ نوں برنوں: اپنی لگائی ہوئی آگ خود ہی بجھاتے رہیں گے، ہمیں فکرکرنے کی کیا ضرورت؟
یہی وہی بات ہے جو اُردو کے اس ضرب المثل شعر میں یوں کہی گئی :
؎ ؎ رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
(شیخ ابراہیم ذوقؔ)

ج)۔ پڑھیا نہ پانے، بن بیٹھا علما: پڑھے نہ لکھے، نام …فاضل
(مجھے اس کہاوت میں، نیز ایسی ہی کسی اور کہاوت میں نام نامی شامل کرنا موزوں نہیں لگتا)

د)۔ اَکھوں اَنّی، ناں چراغ بی بی: آنکھوں کے اندھے، نام نین سُکھ
ویسے پرانے دور میں ایک کپڑے کا نام بھی نین سُکھ تھا، کچھ عرصہ قبل بھی کسی نے بازار میں اس نام کا استعمال کیا ہے، مگر وہ دوسری چیز ہے۔ یہاں ایک عجیب سا لِسانی انکشاف دُہرانا چاہتا ہوں۔ اَنّی کا مذکر اَنّا ہے، جبکہ پنجابی کی طرح مراٹھی (مرہٹی) میں بھی اندھے کو اَنّا کہتے ہیں، مگر اس کے برعکس، تیلگو میں بھائی کو اَنّا کہتے ہیں۔

ہ)۔ سوہنڑاں ڈھیرا ں تے، تے سُفنے شیش محلاں دے: رہیں جھونپڑوں میں، دیکھیں خواب محلوں کے۔

و)۔ گُڑ کھاڑاں تے گُلگلیاں تُوں پرہیز: گُڑ کھائیں، گلگلوں سے پرہیز

ز)۔ گھر دِیاں دی صلاح ناں، پروہنے دودوہوکے بیٹھن: مان نہ مان، میں تیرا مہمان
یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمارے علاقائی ادب خصوصاً لوک ادب [Folk literature] پرایسی کوئی تحقیق ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی جس میں قومی زبان اردوسے مماثلت واشتراک کا عنصر تلاش کیا گیا ہو۔

عربی، فارسی اور انگریزی میں ایسے مماثل، مشترک مفہوم یا تقریباً یکساں مفہوم کے حامل، مواد کی بہتات ہے۔ ہم اردو میں کہتے ہیں، ’’ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا‘‘ اس سے قریب تر مفہوم کا حامل محاورہ، انگریزی میں یو ں ہے: his tools. A bad (or an ill) workman quarrels (or blames)۔ اسی کا عربی متبادل ملاحظہ فرمائیں: الصانع المُھمل (أو الردی ء) مَعَ (أو یُلقی باللاَئمۃ علی) أدواتہ۔ اسی کو فارسی میں دو طرح ادا کرتے ہیں:

ا)۔خوئی (خوئے) بدرا بہانہ بِسیار اور ب)۔ خطائی (خطائے) خویش را کو ردَائم بہ عصا بندد۔
اردو میں ’’آپ کاج (اپنے ہاتھ سے کام)، مہاکاج (بڑا کام)‘‘ ہے تو فارسی میں قدرے مشکل ہے: ’’کس نخارد پُشتِ من۔ چوں ناخنِ انگشتِ من‘‘۔ اردو کی مشہور کہاوت ’’آج کا کام کل پر مت چھوڑو/ مت ٹالو/آج کا کام کل پراُٹھا نہ رکھو‘‘، انگریزی میں یوں ہے:
”Never put off,till /until tomorrow, what you can do today/ what can be done, today.
(یہ قول الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ متعدد مشاہیر بشمول بینجمن فرینکلن سے منسوب ہے، اس بارے میں ایک ویب سائٹ پر بحث بہت دل چسپ محسوس ہوئی:https://quoteinvestigator.com/2013/01/17/put-off/۔ علاوہ اَزیں لُبنان سے شایع ہونے والی مشہور انگریزی عربی لغت ’المورد‘ میں اس کا رَواں عربی ترجمہ درج کرتے ہوئے اس کا انتساب قدیم انگریزی شاعر Chaucer سے کیا گیا ہے) اور فارسی میں: ’’کارِ اِمرُوز بہ فَردا مَفِگَن‘‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا ماخذ عربی میں سیدنا عمرفاروق (رضی اللہ عنہ‘) کا قول مبارک ہے: لَا تُؤَخّرِعَملَ یَومِکَ اِلیٰ غَدِک۔ کہا جاتا ہے کہ سست اور کاہل ہِسپانوی [Spanish] لوگ اس کے برعکس کہتے تھے کہ جو کام کل ہوسکتا ہے، اُسے آج مت کرو،کل ہی پر ٹالو۔ اس سے بھی قیاس لگایا جاسکتا ہے کہ عرب، اسلامی عہداقتدار میں جہاں دیگر معاملات ہوئے، وہیں (ایک معمولی بولی سے ترقی کرکے باقاعدہ زبان بننے والی )، ہِسپانوی میں اس طرح کا شعوری انحراف کرکے مسلمانوں کا مذاق اُڑایا گیا ہوگا۔
اردو میں کہاوت مشہور ہے،’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘، فارسی میں کہتے ہیں،’’از دل بِرَوَد، ہرآنکہ از دیدہ برفت‘‘ اور اسی کا انگریزی میں ترجمہ ہے: Out of sight, out of mind.۔ عربی کیوں پیچھے رہتی ، سو عربی میں کہا گیا: ’’ بَعِید عَنِ العَین، بَعِید’‘ عَنِ اَلبال‘‘ اور اسی سے جُڑا ہوا ہے ، ’’اَلبُعدیَزیدُالقلبَ وَلوعاً‘‘ (جدائی /دُوری سے محبت بڑھتی ہے)۔ انگریزی میں : Absence makes the heart grow fonder.۔اسی مضمون کو اُردو میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہجر عشق کی آگ دہکاتا ہے تو وَصل اسے مضبوط کرتا ہے۔

اردو میں بہت مشہور کہاوت ہے، ’’آدھی چھوڑ، ساری کو جائے /جاوے، آدھی رہے، نہ ساری پائے/پاوے‘ ‘ ۔یا۔بہ اختلافِ متن، ’’ آدھی (کو) چھوڑ، ساری کو جاوے (دوڑے)، آدھی رہے (ملے) نہ ساری پاوے (مطابق مختصر اُردولغت از اُردولغت بورڈ)۔ دکنی بولی میں یہی کہاوت الفاظ کے فرق سے آج بھی موجود ہے۔ یہاں انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کہاوت، فرہنگ آصفیہ میں شامل نہیں، جبکہ نوراللغات میں یوں درج ہے: ’’آدھی چھوڑکر، ساری کو دوڑنا;تھوڑ پر قانع نہ ہوکر زیادہ کی کوشش کرنا ؎ گر خُدا دیوے قناعت، ماہ یک ہفتہ کی طرح+دَوڑے ساری کو کبھی، انسان نہ آدھی چھوڑکر (ذوقؔ)۔ چلیں خیر، ہم بات کرتے ہیں اس کے باب میں تو بہ لحاظ ِ مفہوم اس سے قریب تر ، انگریزی کہاوت ہے:

A bird in the hand is worth two in the bush.
اس انگریزی کہاوت کا پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے کہ شاہین (یا باز) کے ذریعے پرندوں کا شکار کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ شکاری کے ہاتھوں میں موجود پرندہ گویا اُس کا اثاثہ ہوتا ہے، اگر وہی ہاتھ سے چلا جائے تو باقی کیا بچا۔ اس کہاوت کا قدیم ترین استعمال1450ء میں منظرعام پر آنے والی، John Capgrave کی کتاب The Life of St Katharine of Alexandriaمیں یوں ملتا ہے:

“It is more sekyr [certain] a byrd in your fest, Than to haue three in the sky a-boue.”
اسی کہاوت کا انگریزی سے جدید عربی میں ترجمہ ہوا تو منیر بعلبکی نے لفظی ترجمہ کرنے کے بعد ، تشریح کرتے ہوئے عربی کی دو طبع زاد کہاوتیں نقل کیں جو اصل سے بہتر ہیں:

ا)۔ عصفور فی الید خیر من عشرۃ علی الشجرہ (یعنی ہاتھ میں موجود ایک چڑیا، درخت پر بیٹھی ہوئی دس سے بہتر ہے)

ب)۔ بیضۃ الیوم خیر من دجاجۃ الغد (یعنی آج کا اَنڈہ ، کل کے مُرغ سے بہتر ہے)۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ جدید یورپ کی دیگر زبانوں میں بھی ’’آدھی چھوڑ…‘‘ والی کہاوت مروج ہے۔ چیک [Czech]زبان میں کہتے ہیں:
‘Lepsi vrabec v hrsti nez holub na strese’.
جس کا ترجمہ انگریزی میں یوں کیا گیا:
A sparrow in the fist is better than a pigeon on the roof.
المانوی (یعنی جرمن) زبان میں اسی کہاوت کا رَنگ کچھ اور ہے:
‘Der Spatz in der Hand ist besser als die Taube auf dem Dach’.
ترجمہ بزبان انگریزی:
The sparrow in the hand is better than the dove on the roof.
اردو میں کہتے ہیں، انسان خطا کا پُتلا ہے۔ یہی بات فارسی میں یوں ہے: انسان جایزالخطاست، جبکہ انگریزی میں مشہور ہے:
To err is human.
اردو میں مَثل مشہور ہے، ’’جلدی کا کام، شیطان کا‘‘ ، فارسی میں کہتے ہیں، مستعجل بسر در آید۔ اس کی جگہ انگریزی میں کہا جاتا ہے:
Hasty climbers have sudden falls.
اردو میں مثل بہت مشہور ہے، ’’ہِیرا، ہِیرے کو کاٹتا ہے‘‘، فارسی میں اس کے لیے پتھر کا لفظ استعمال ہوا (کہ ہِیرا بھی قیمتی پتھر ہی تو ہے):
سنگ، سنگ را می شکند۔ عربی میں یہی قول یوں ہے: ’’اِنّ الحدید، بِالحدید ِ یُفلح‘‘، جبکہ انگریزی میں کہا جاتا ہے:
Diamonds cut diamonds.
اب اس کا لفظی عربی ترجمہ ہے: ’’ الماس ُ یَقطَعُ اَلماس‘‘
ہمارے یہاں مشہور مَثل ہے: اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے، (کہیں یہ بھی کہتے سُنا تھا: چوہا بھی اپنے گھر میں شیر ہوتا ہے)، فارسی میں کہا جاتا ہے: ’’سگ، دَر خانہ صاحبش، شیر است‘‘ بالکل لفظی ترجمہ معلوم ہوتا ہے اور ایسا ہی انگریزی میں Henry George Bohnکا قول بھی ہے:
Every dog is a lion at home.
اردو بولنے والے اپنی سہولت کے لیے اس کہاوت میں کسی جانور کی جگہ ’’ہرآدمی‘‘ بھی بولتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی انگریزی میں کہا جاتا ہے:
A man’s (or an Englishman’s) house is his castle.
عربی میں بھی ایسی ہی کہاوت موجود ہے۔ خاکسار کی کچی پکی عربی دانی یہاں کام نہیں آسکتی، بس اتنا سمجھ لیجئے کہ صحابی رسول سیدنا امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ‘ اور اُن کی زوجہ محترمہ حضرت مَیسون البَحدلیہ (تابعیہ ) رضی اللہ عنہا کے ایک نجی واقعے میں اس کا استعمال ہوا ہے۔
اردو میں بہت پرانی کہاوت ہے، ’’پہلے پیٹ پُوجا، پھر کام دُوجا‘‘ ۔ پرانے بزرگ یہ بھی کہا کرتے تھے، ’’اول طعام، بعد کلام‘‘۔ یہ درحقیقت عربی میں ہے : ’’اول طعام، بعدہ‘ کلام‘‘ ۔ فارسی میں بھی کہا گیا: اول طعام، آخر کلام ۔ انگریزی میں اس موقع کے لیے کیا خوب کہاوت ہے:
The belly hates a long sermon.
اردو میں کہتے آئے ہیں، ’’تندرستی ، ہزار نعمت ہے‘‘ ۔ قربان علی بیگ سالکؔ کا ضرب المثل شعر ہے:
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ+تندرستی ہزار نعمت ہے
(یہ سہواً میرزا غالبؔ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے)، جبکہ فارسی میں اس کا متبادل ہے : ’’ ھزاران نعمت و یک تندرستی‘‘۔ اسی مفہوم میں انگریزی فرماتی ہے:
Health is better than wealth.

مآخذ
ا)۔Hunza Proverbs by Etienne Tiffou
ب)۔’’ساندل بارل۔ وسطی پنجاب کی کہانی ، لوک روایات کی زبانی ازاحمد غزالی۔ فیروز سنز: 1988ء۔
ج)۔’’المورد، القاموس انکلیزی۔ عربی‘‘[Al-Mawrid: A modern English-Arabic Dictionary] : منیر بعلبکی، لُبنان:1980ء
د)۔ ’ ’الفاروق‘‘ از علامہ شبلی نعمانی ہ)۔ نوراللغات و)۔ فرہنگ آصفیہ ز)۔ مختصر اُردولغت (اردولغت بورڈ)
ز)۔ آموزگارِ فارسی از پروفیسر حضور احمد سلیم ح)۔ فرہنگ ِ عصریہ (اردو۔فارسی) ازپروفیسر حافظ نذر احمد
ط)۔ English-Urdu Dictionary: National Language Authority
ی)۔ مختلف ویب سائٹس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔