عمران خان کا آخری ہتھیار

احتشام بشیر  جمعـء 23 ستمبر 2022
عمران خان کی شعلہ بیانی رک نہیں رہی جو معاملات کو سدھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کی شعلہ بیانی رک نہیں رہی جو معاملات کو سدھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ (فوٹو: فائل)

جب سے تحریک انصاف حکومت کا تختہ الٹا ہے تب سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف آرام سے نہیں بیٹھے۔ اقتدار کے تخت سے نیچے آنے کے بعد عمران خان مسلسل عوامی رابطہ مہم میں ہیں۔ جلسے، مظاہروں، مختلف تقریبات سے خطاب میں عمران خان کا نشانہ وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں رہی ہیں۔ عمران خان نے شریف برادران، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو نشانے پر لینے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے شہر شہر جاکر جلسے کیے۔ انہوں نے اپنا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح ان کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی۔ بقول عمران خان بیرونی سازش کے ذریعے امپورٹڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوا اور انھیں عوام میں پذیرائی ملی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی تحریک میں تیزی آتی جارہی ہے اور لہجہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے۔

ماضی میں حکومت مخالف جتنی بھی تحاریک چلیں، ماسوائے مارشل لاء دور، حکومتوں کے خلاف وہ کامیاب ہوئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے اور جس تحریک کے پیچھے اسٹیبلمشنٹ کی تھپکی نہ ہو تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ 1988 میں طویل غیر جمہوری دور کے بعد جب الیکشن ہوئے تو بے نظیر کو ہٹانے کےلیے نواز شریف نے تحریک کا آغاز کیا۔ اسی طرح نواز شریف جب برسراقتدار آئے تو پھر پیپلزپارٹی ن لیگ حکومت کے خلاف میدان میں اتری۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے جب نواز حکومت کا خاتمہ کیا تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں حکومتوں کو ہٹانے کے اقدام کے سامنے کھڑی ہوگئیں، لیکن پھر بھی ملک کا کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔

جنرل مشرف کے دور میں بھی میر ظفر اللہ خان جمالی (مرحوم) اپنا دورِ اقتدار مکمل نہ کرسکے اور مختصر مدت کےلیے چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بناکر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کےلیے راہ ہموار کی گئی۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو خیال کیا جارہا تھا کہ وہ واحد وزیراعظم ہوسکتے ہیں جو اپنی مدت پوری کریں گے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو لانے والے ان کی حکومت کو ختم نہیں کریں گے۔ لیکن لانے والے واپس بھجوا بھی سکتے ہیں اور کچھ ایسا ہی ہوا۔

ملک میں جب بھی جمہوری حکومت کو چلتا کیا گیا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگا، چاہے وہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی یا نواز لیگ کی۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دبے الفاظ میں حکومتوں کی رخصتی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو گردانا۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دو کام پہلی بار اس ملک میں ہوئے، ایک تو تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہونے پر اس طرح خوشی نہیں منائی گئی جس طرح ماضی کی حکومتوں کو ہٹانے کے وقت عوام میں خوشی پائی جاتی تھی۔ دوسرا عمران خان کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آئے۔ اس سے قبل کوئی سیاسی لیڈر اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر نہیں بولا۔ اور یہ بھی ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ عمران خان کی تقاریر پر آئی ایس پی آر کو بیانات جاری کرنے پڑے۔ لیکن عمران خان کی شعلہ بیانی ابھی تک نہیں رک سکی۔

عمران خان کے خلاف مقدمات بنائے گئے، ان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آنے لگیں لیکن جس طرح ماضی میں سیاستدان کو سلاخوں کے پیچھے دیکھا جاتا تھا ابھی تک عمران خان کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ مقدمات تو بنتے جارہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ انھیں ریلیف بھی ملتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ شکوک و شہبات بھی جنم لے رہے ہیں کہ عمران خان ابھی تک لاڈلا ہے۔ اور اس خدشے کا اظہار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز بھی کرچکی ہیں۔ عوامی جلسوں میں ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی آرہی ہے۔ ملک بھر میں جلسوں کے بعد اب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ پشاور، خانیوال اور پھر لاہور میں وکلا سے خطاب کے دوران عمران خان نے ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی۔ وہ کسی بھی وقت اسلام آباد کی کال دے سکتے ہیں۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ نومبر سے پہلے حکومت کا خاتمہ ہو اور موجودہ حکومت آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ نہ کرسکے۔ اسی لیے انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ نئی حکومت کے قیام تک موجودہ آرمی چیف ہی کام کرتے رہیں۔ اسی لیے حالیہ جلسوں میں عمران خان کی تقریر کا محور آرمی چیف کی تقرری ہی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت بھی ڈٹ چکی ہے۔ حکومت واضح کرچکی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور وزیراعظم شہاز شریف آئین اور قانون کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ یعنی دونوں طرف سے برف پگھل نہیں رہی۔

عمران خان کشتیاں جلاکر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن انھیں روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، انھیں سمجھایا جارہا ہے کہ اداروں سے لڑنا نقصان دہ ہے۔ معاملات کو سدھارنے کےلیے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس وقت اعجازالحق کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کور کمیٹی کے ارکان کو کسی سے بھی مذاکرات سے روک دیا ہے۔

عمران خان کی شعلہ بیانی رک نہیں پارہی جو معاملات کو سدھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد مارچ کےلیے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی لیے ابھی تک وہ اسلام مارچ کا اعلان نہیں کرسکے۔ انھیں بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد مارچ آخری ہتھیار ہے، اس کے بعد دوسرا ہتھیار نہیں رہتا۔ اگر عمران خان اسلام آباد میں جاکر بیٹھ بھی جاتے ہیں، جیسا کہ وہ پہلے کرچکے ہیں اور حکومت اپنی مدت بھی پوری کرلیتی ہے تو عمران خان کی جدوجہد کا کیا فائدہ ہوا؟ اسی لیے عمران خان کے قریبی ساتھی انھیں اسلام آباد مارچ کے بجائے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔