ڈاکٹر عبدالکلام بطور صدر ہندوستان

حسان خالد  اتوار 25 ستمبر 2022
سیاست میں آنے سے پہلے تدریس سے بھی وابستہ رہیں۔

سیاست میں آنے سے پہلے تدریس سے بھی وابستہ رہیں۔

بھارت کی موجودہ صدر دروپدی مرمو ملک میں صدر بننے والی پہلی قبائلی خاتون ہیں، جن کا تعلق نچلی ذات سے ہے۔

ریاست اوڈیشہ کے مختلف محکموں میں چھوٹے عہدوں پر کام سے ملازمت کا آغاز کیا۔ سیاست میں آنے سے پہلے تدریس سے بھی وابستہ رہیں۔ ان کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے، 25 جولائی کو انڈیا کے پندرہویں صدر کا حلف اٹھانے سے پہلے وہ اوڈیشہ کے گورنر کے طور پر فرائض انجام دے چکی ہیں۔

بطور صدر ان کے انتخاب کو عمومی طور پر سراہا گیا، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ دور صدارت میں وہ اپنی الگ پہچان بنا پاتی ہیں یا وزیراعظم مودی کی بھاری بھرکم شخصیت میں دب کر ان کا کردار تاریخ کی گرد میں فراموش کر دیا جاتا ہے۔

سائنسدان اور بھارت کے میزائل پروگرام کے سرخیل ڈاکٹر عبدالکلام نے 2002ء سے 2007ء تک ہندوستان کے گیارہویں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ دو بڑی ملکی سیاسی جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر انہوں نے ثابت کیا کہ عوامی صدر کیسے ہوتا ہے اور وہ کس طرح ملک کو کسی بھی گروہی یا ذاتی مفاد سے بالا رکھتا ہے۔ بھارتی بیوروکریٹ پی ایم نائر نے صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور بعد میں اپنی یادداشتوں کو ایک کتاب “The Kalam Effect” میں بیان کیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند واقعات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔

 پہلی تقریر

پی ایم نائر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی صدارت کو ایک مشن کے طور پر لیا اور اسے قوم کی خدمت کا ایک اور موقع سمجھا۔ حلف برداری کے بعد ان کی تقریر محض ایک رسمی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ان کے دل سے نکلے ہوئے پراثر الفاظ تھے، جس میں قوم کے متعلق ایجنڈے کا ذکر کیا۔ انہوں نے ایک ترقی یافتہ قوم اور انڈیا کے ویژن 2020ء کی بات کی۔

اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے فوری کام کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے کبیر کے الفاظ مستعار لیے: کل کرے سو آج کر، آج کرے سو اب۔ (کل جو کرنا ہے آج ہی کر لو اور جو آج کرنا ہے، ابھی کرو۔) عبدالکلام سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی خاص گھڑی میں حلف لینا چاہیں گے جسے وہ مبارک سمجھتے ہوں، ان کا جواب تھا کہ ہر ساعت مبارک ہے۔

ابتدائی ملاقات میں پی ایم نائر نے صدر عبدالکلام سے درخواست کی کہ انہیں توقعات پر پورا اترنے کے لیے اپنی ٹیم منتخب کرنے کی آزادی دی جائے، جو کہ انہیں بخوشی دے دی گئی۔ چنانچہ صدر کے جوائنٹ سیکرٹری، ملٹری سیکرٹری، دوسرے افسروںاور اے سی ڈیز کا انتخاب انٹرویو کے بعد نائر نے خود کیا۔

 غیرمعمولی حافظہ

صدر اپنی صبح کا آغاز اپنے قائم کیے ہوئے بائیو ڈائیورسٹی پارک میں چہل قدمی سے کرتے، جہاں وہ پرندوں، جانوروں اور پودوں کے درمیان وقت گزار کے لطف اندوز ہوتے۔ پھر وہ اخبارات کا بغور مطالعہ کرتے اور انٹرنیٹ پر کچھ وقت گزارتے۔ دوپہر کے قریب وہ ’’ناشتہ‘‘ کرنے کے بعد اپنے دن کی دفتری مصروفیات کا آغاز کرتے۔

اپنے سٹاف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میںصدر کو موصول ہونے والے مختلف کاغذات اور درخواستیں زیربحث آتیں اور ان پر حتمی فیصلہ لیا جاتا۔ صدر کے لیے کوئی بھی چیز غیر اہم نہیں تھی، وہ ایک ایک کاغذ کو پوری توجہ سے پڑھتے اور تمام معلومات ان کے ذہن پر نقش ہوتیں۔

مثال کے طور پر ایک مرتبہ دو روزہ دورے کے بعد صدر عبدالکلام دفتر واپس آئے تو ان کے سامنے کاغذات پیش کیے گئے۔ ان میں ریاست تامل ناڈو کے شہر تھانجور کے صنعتی تربیت مرکز کے طلبہ کی طرف سے دی گئی ایک درخواست بھی شامل تھی۔ مصنف نے تجویز کیا کہ وہ صدر کے نمائندے کے طور پر شہر کے افسر اعلیٰ کو خط لکھ کر طلبہ کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کریں گے۔

اس پر صدر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں طلبہ کی ایک دوسری درخواست بھی آئی تھی۔ سیکرٹری نائر نے پورے اطمینان سے جواب دیا کہ انہوں نے تمام کاغذات غور سے دیکھے ہیں، ایسی کوئی اور درخواست موجود نہیں۔ صدر نے اصرار کیا تو نائر کہنے لگے کہ شاید انہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور پھر دوسرے امور پر بات چل پڑی۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’ (میٹنگ کے بعد) میں کچھ غیرآرام دہ تھا کیونکہ کلام نے پانچ مرتبہ کہا کہ اس سے متعلق کوئی دوسری درخواست موجود ہے اور چھ مرتبہ میں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے تمام کاغذات کو ایک مرتبہ پھر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور میں یہ دیکھ کر منجمد رہ گیا کہ اسی ادارے کے طلبہ کے ایک اور گروہ کی طرف سے بھی درخواست موجود تھی۔

اپنی شرمندگی اور نالائقی محسوس کرتے ہوئے فوراً صدر کے دفتر گیا، ان سے غلطی کی معذرت چاہی اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسے نہیں ہو گا۔ کلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ مجھے یقین ہے تم اس دوسری درخواست پر بھی مناسب فیصلہ کرو گے۔‘‘

 وقت کی پابندی نہ کرنا

پی ایم نائر نے جہاں صدر عبدالکلام کے دوسرے معاملات میں تعریف کی، وہاں اس خامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ وقت کی پابندی بالکل نہیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے بسا اوقات بہت سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ سٹاف کے ساتھ میٹنگ کا وقت دن اڑھائی بجے مقرر تھا، جو ہمیشہ بیس، تیس منٹ تاخیر سے شروع ہوتی۔

معمول کے مطابق صدر کے دورے کے دوران پولیس کو تین گھنٹے پہلے راستے پر تعینات کر دیا جاتا ہے، لیکن صدر عبدالکلام کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے پولیس کو کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی اور وہ سخت سردیوں میں صبح کے وقت اپنے گھروں کو واپس پہنچ پاتے۔ صدر کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا جاتا، جس پر انہیں بہت دکھ ہوتا اور اگلے دو، تین پروگرام وقت پر ہوتے، لیکن پھر وہی پرانی روٹین شروع ہو جاتی۔

نائر لکھتے ہیں، ’’ہم سنتے ہیں کہ بہت سے سائنسدان اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ کلام سائنسدان تھے لیکن پھر وہ صدر بھی تھے۔ اس لیے میں ان کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک سائنسدان صدر کی حیثیت سے بھی انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وقت کی پابندی کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے وقت کو عزت دے رہے ہیں کیونکہ ان کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ناکام ہوئے۔ تیسری جماعت میں استاد نے مجھے کہا تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس وقت مجھے اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ مگر میرے خیال میں یہ دوسروں کی غلطیاں قبول کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘‘

 ایوان صدر کو موصول ہونے والے خطوط

صدر عبدالکلام کے لیے کوئی بھی خط غیراہم نہیں تھا، اس لیے ایوان صدر کو موصول ہونے والے بے سروپا خطوط بھی ان کے سامنے زیربحث لانے پڑتے۔ نائر لکھتے ہیں، ایک خط کے اوپر ’’ورلڈ لیڈر‘‘ اور ’’دنیا کا صدر‘‘ چھپا ہوا تھا، جس میں صدر کلام کو بتایا گیا کہ وہ ویٹی کن اور مکہ کے ذریعے امریکا کو روس سے کیسے بچا سکتے ہیں۔ آخر میں ’’خدا کا سفیر‘‘ کے الفاظ بطور دستخط ثبت تھے۔ نائر نے کہا: ’’سر کسی خبطی شخص نے یہ فضولیات لکھی ہیں، ہمیں اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، اگر تم ایسا سمجھتے ہو، ہم اس پر کوئی ایکشن نہیں لیں گے۔‘‘ کلام نے جواب دیا۔

صدر کو ایک خاتون کی طرف سے دو صفحات پر مشتمل خط ملا جس میں اس نے اپنے پانچ سال کے گھوڑے کو لگنے والی بیماری کا تفصیلی ذکر کیا، اس کو کھلائی جانے والی خوراک کا بتایا اور بیماری سے نجات کے لیے ان سے رہنمائی مانگی گئی۔ صدر عبدالکلام نے اصرار کیا کہ خاتون کو خط بھیج کر تصدیق کی جائے کہ اس کا خط ایوان صدر کو موصول ہو گیا ہے۔

ابھی انہیں صدر بنے چند ہفتے گزرے تھے کہ آگرہ سے ایک لڑکی نے ای میل کی: ’’انکل! ہمارے علاقے میں صرف ایک پارک ہے اور اس میں صرف ایک جھولا ہے، یہ جھولا بھی پچھلے دس دن سے خراب ہے۔ کسی کو پروا نہیں۔‘‘ نائر نے شہر کے مقامی افسر سے بات کر کے شکایت دور کرا دی، صدر کلام کو لڑکی کی طرف سے پھر ای میل ملی: ’’انکل! آپ کا شکریہ۔ جھولا اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ میں آپ سے کب مل سکتی ہوں؟ آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ پونے کے ایک گاؤں سے ایک شخص نے خاندان کو درپیش معاشی مشکلات اور اپنے صحت کے مسائل کا ذکر کیا۔ لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کی ملازمت اور بیٹی کے مناسب رشتے کے لیے بھی پریشان ہے۔

وہ اپنے مسائل کے لیے ضلعی افسران، ارکان اسمبلی، وزراء اور بھارتی حکومت تک سے رجوع کر چکا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب وہ آخری امید کے طور پر صدر کو خط لکھ رہا ہے، اگر صدر نے بھی اس کی مدد نہ کی تو پھر وہ اپنے خاندان کے ساتھ لوگوں کے سامنے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ نائر لکھتے ہیں کہ اس خط کا صدر پر بہت اثر ہوا۔

وہ اس خاندان کی اپنے ذاتی پیسوں سے مدد کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ کسی بھی انتہائی قدم سے باز رہیں۔ سیکرٹری نے صدر کو سمجھایا کہ ایسے بے شمار مثالیں موجود ہیں، وہ سرکاری حکام کے ذریعے خاندان کی مدد کریں گے۔

اس سے یہ ہوا کہ گاؤں، ضلع، ریاست اور پھر تقریباً پورے ملک میں یہ بات پھیل گئی کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو آپ صدر عبدالکلام کو خط لکھیں، وہ اس پر ایکشن لیں گے۔

صدر عبدالکلام خود بھی ہر جگہ اپنی تقریروں میں دہراتے کہ انہیں کوئی بھی شخص ای میل پر پیغام بھیج سکتا ہے، جس پر 24 سے 48 گھنٹوں میں جواب دیا جائے گا۔ نائر لکھتے ہیں، ’’ان کا اخلاص اور ہمدردی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ نہیں بلکہ حقیقی خوبیاں تھیں۔ لوگ بھی یہ بات جانتے تھے۔ حیرت کی بات نہیں انہیں ’’عوامی صدر‘‘ کہا جاتا تھا، جو کہ وہ اپنے دور صدارت کے آخری دن تک رہے۔‘‘

 جنرل پرویز مشرف سے ملاقات

جنرل پرویز مشرف انڈیا کے دورے پر تھے، جس کے دوران صدر عبدالکلام سے ملاقات بھی طے تھی۔  نائر کہتے ہیں کہ ملاقات سے ایک دن پہلے انہوں نے صدر کو مشورہ دیا کہ پرویز مشرف ان کے سامنے مسئلہ کشمیر پر بات کر سکتے ہیں، جس کی تیاری کر لینی چاہیے۔

عبدالکلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’پریشان نہ ہو، میں اس سے نمٹ لوںگا۔‘‘ نائر کے مطابق: ’’صدر کا اعتماد متاثرکن تھا لیکن میں پھر بھی حیران تھا کہ جو مسئلہ بہترین سفارت کاروں کو بھی الجھا دیتا ہے، وہ اس سے کیسے نمٹیں گے۔ جیسا کہ اس کی وجہ سے آگرہ کی مشہور کانفرنس ناکام ہو گئی تھی۔‘‘ خیر اگلی شام ساڑھے سات بجے پرویز مشرف اپنے ساتھیوں کے ساتھ راشٹرپتی بھون پہنچے، جہاں صدر عبدالکلام نے ان کا استقبال کیا۔ مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد صدر کلام یوں مخاطب ہوئے: ’’جناب صدر، ہندوستان کی طرح آپ کے ملک میں بہت سے دیہی علاقے ہیں۔

کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمیں ترجیحی بنیادوں پر ان کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے؟‘‘ جواب میں جنرل مشرف ’’ہاں‘‘ کے سوا کیا کہہ سکتے تھے۔ کلام کہنے لگے: ’’میں آپ کو بہت اختصار کے ساتھ PURA کے بارے میں بتانا چاہوں گا جو کہ دیہی علاقوں میں شہری سہولیات کی فراہمی سے متعلق پراجیکٹ ہے۔‘‘پھر صدر عبدالکلام نے ’’صرف‘‘ 26 منٹ میں پراجیکٹ اور اس کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا۔ جنرل مشرف نے گفتگو میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور جب نصف گھنٹے کی یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی تو کہنے لگے: ’’جناب صدر، بہت شکریہ۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ آپ جیسا سائنسدان، اس کا صدر ہے۔‘‘ نائر لکھتے ہیں، ’’سائنسدان، سفارت کار بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

 اہل خانہ کا ایوان صدر میں قیام

مئی 2006ء میں صدر عبدالکلام کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے ہفتہ، دس دن کے قیام کے لیے ایوان صدر آنا تھا۔ ذاتی مہمانوں کا یہ گروہ 52 افراد پر مشتمل تھا، جن میں صدر کے 90 سالہ بڑے بھائی سے لے کر ڈیڑھ سال کا پڑپوتا تک شامل تھے۔ صدر نے اپنے سیکرٹری کو پہلے سے ہدایت کر دی تھی کہ یہ سارا قیام ذاتی خرچ پر ہو گا اور کوئی سرکاری وسائل استعمال نہیں کیے جائیں گے۔

نائر لکھتے ہیں کہ مہمانوں نے اجمیر شریف حاضری دی اور نوجوانوں نے دہلی میں کچھ خریداری وغیرہ بھی کی۔ ایوان صدر میں آٹھ روز قیام کے بعد وہ واپس چلے گئے۔ مصنف کہتے ہیں کہ سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ مہمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ایک بار بھی سرکاری گاڑی استعمال نہیں کی گئی۔ راشٹرپتی بھون میں ان کے زیراستعمال کمروں کا کرایہ صدر نے خود ادا کیا، حتی کہ انہوں نے ایک ایک چائے کی پیالی کی قیمت بھی چکائی۔ صدر نے تین لاکھ 52 ہزار روپے کے اخراجات اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے اور کسی سے اس کا ذکر بھی نہ کیا۔

ایک مرتبہ ماہ رمضان کے دوران صدر عبدالکلام نے سیکرٹری سے کہا کہ ایوان صدر میں جن لوگوں کو افطار پارٹی پر مدعو کیا جاتا ہے، وہ پہلے سے ہی اچھا کھانے پینے والے لوگ ہیں۔ کیوں نہ اس رقم کو مستحق افراد پر خرچ کیا جائے؟ مصنف کو بتایا گیا کہ افطار پارٹی پر ڈھائی لاکھ روپے خرچ آتا ہے، چنانچہ انہوں نے اس رقم کا راشن خرید کر 28 یتیم خانوں میں تقسیم کر دیا۔ صدر عبدالکلام نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے بھی ایک لاکھ روپے دے کر اس کا راشن اسی طرح تقسیم کرنے کی ہدایت کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔