بے حسی کا کوئی وقت معین نہیں ہوتا

خالد محمود رسول  ہفتہ 24 ستمبر 2022

جس تن لاگے سو تن جانے۔ ملک کا پانچواں حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں نے کھیت کھلیان، دیہات، مکانات اور سڑکوں کو روند ڈالا ہے۔

وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دنیا کو بتانے اور امداد کی درخواست کرنے نیویارک جنرل اسمبلی میں پہنچے ہوئے ہیں ۔ دہائی یہی ہے کہ ملک تباہی سے دوچار ہے ، معیشت کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ کھانے پینے کے لالے پڑے ہیں۔ دنیا ہماری مدد کرے۔

عین اسی وقت جب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دنیا سے امداد کی اپیل کر رہے تھے، نیشنل ہائی وے کونسل کو ایک اہم قومی مسئلہ حل کرنے کا موقع مل گیا۔ حسنِ نیت کے ساتھ نیشنل ہائی وے کونسل نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا مگر برا ہو اس میڈیا کا، ادھر نوٹیفکیشن جاری ہوا ادھر کسی بد خواہ نے اسے میڈیا پر شئیر کر دیا کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہے اور یہاں اراکین اسمبلی کو آسودگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق اراکین پارلیمنٹ لاہور اسلام آباد موٹر وے اور ہائی ویز پر ٹول ٹیکس دینے سے مستثنیٰ ہوں گے۔ مگر صد حیف میڈیا اور دنیا نے اس نیک نیت اقدام کی قدر نہ کی۔ میڈیا پر ہاہا کار مچی تو سینیٹ چیئرمین نے البتہ ہائی وے اتھارٹی کو لکھا کہ اراکین سینیٹ یہ استثنیٰ لینے سے معذرت خواہ ہیں۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر اراکین اسمبلی تمام سیاسی اختلافات کے باوجود ماضی میں ہر بار اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے پر ہمیشہ ہم آواز رہے ہیں۔ بات بات پر مخالفین کے لتے لینے والوں کے دل معجزاتی طور پر اپنی تنخواہوں اور مراعات کے موقع پر یوں پسیج جاتے ہیں کہ دیکھنے سننے والا دنگ رہ جاتا ہے، بلکہ اس سے قبل کہے سنے کو اپنا واہمہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ نے کس بوجھل دل سے یہ انکاریہ لکھا ہوگا۔

لاہور اسلام آباد ہائی ویز پر سفر کا ٹول ٹیکس اب ایک ہزار روپے سے کچھ زائد ہے۔ اللہ بھلا کرے افراطِ زر اور موٹر ویز اتھارٹیز کا، ان کے اخراجات اس سے بھی کہیں زیادہ پھیل رہے ہیں ، ظاہر ہے اس کے لیے ہر چار چھ ماہ بعد ٹول ٹیکس بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ٹال ٹیکس سے عدالتی و سرکاری محکموں کی گاڑیاں پہلے ہی سے مستثنیٰ ہیںتاہم اس ملک میں پروٹوکول نام کا وائرس یوں تو عام آدمی میں بھی کم نہیں ہے لیکن اگر آپ کسی مقتدر شخص کے تعلق دار ہیں یا ملازم بھی ہیں تو سمجھئیے نظام کے لیے آپ کی اطاعت و خدمت فرض ہو گئی۔

ہم نے کئی بار یہ تماشہ دیکھا کہ ٹول پلازہ پر لمبی لائن لگی ہوئی ہے مگر پچاس سو روپے کے ٹال ٹیکس کے لیے صاحب کا ڈرائیور پورے عملے سے جھگڑے میں مصروف ہے ؛جانتے نہیں ہو کس کی گاڑی ہے! صاحب موصوف گاڑی میں بھی نہیں ہوتے لیکن ان کا رعب اور پروٹوکولی جلال بدستور وہاں رنگ جما رہا ہوتا ہے۔ خود ہی سوچ لیں کہ اگر صاحب بہ نفسِ نفیس موجود ہوں تو کیا تماشا ہو۔ روز روز کی اس بک بک جھک جھک کا حل ٹال ٹیکس انتظامیہ نے یہ نکال رکھا ہے کہ ٹال ٹیکس کی سکہ بند لائنوں سے پرے سائیڈ پر ایک پتلی گلی بنا رکھی ہوتی ہے، چنانچہ جب کوئی پروٹوکولیا دین و دل کی بربادی پر تل ہی جائے تو وہ اس پتلی گلی سے اسے گزار کر جان بخشی کا سامان کر لیتے ہیں۔

ہم مجموعی طور پر تضادات اور منافقت سے لتھڑا ہوا سماج ہیں۔ ایک طرف یہ دہائی ہے کہ ملک دیوالیہ ہوا کہ ہوا ، دوسری طرف یہ عالم کہ بیوروکریسی نے کمال مہارت سے نئی حکومت کے مبارک قلم سے اپنے لیے 150% ایگزیکٹو الاؤنس لیا، بعد از بجٹ میں بھی تنخواہوں میں اضافے کی صورت نکال لی۔ سیاسی دھما چوکڑی ہے کہ اس کا مزہ اور جوش سیلاب نے کرکرا کر دیا ہے لیکن وفاقی حکومت ہے کہ کابینہ کا سائز بڑا کرنے کے بارے میں دبلی ہو رہی ہے۔

گزشتہ دس دنوں میں خیر سے آٹھ معاونین خصوصی شامل کرنے کے بعد اب کابینہ کا سائز 72 ہو چکا ہے۔ تنقید کرنے والوں کے لیے ٹکا سا جواب ہے کہ یہ معاونین کار سرکار کے لیے کوئی تنخواہ نہیں لیں گے۔ کیاکریں اتحادی حکومت ہے ، اتحادی بھی ملک کی خدمت پر ضد کرتے ہیں تو یہ سہرا ان کے سر باندھنے پڑتا ہے۔

سیلاب کا پانی اترا نہیں لیکن دوسری طرف فوری الیکشن کے لیے جذبے میں سیلابی جوش آیا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ؛آپ کو اندازہ ہے کہ ضمنی الیکشن کے اخراجات کتنے ہوں گے؟ بہتر ہوگا کہ اسمبلی میں اپنے حلقوں کی بات کریں۔ چوہدری فواد کا جواب آیا کہ الیکشن نہ کروانے کی مالی قیمت بھی دیکھ لیں، روپے ڈالر کی شرح جوڑ لیں تو اب تک پانچ ارب ڈالرز کا خسارہ ہو چکا ہے۔

کم و بیش بیس سال قبل غالباً پرنسٹن یونی ورسٹٰی نے پاکستان پر ایک کیس اسٹڈی شایع کیا؛ عنوان تھا گروتھ مگر ترقی کے بغیر Growth without development ۔ کیس سٹدی کے زمانے سے لے کر ملکی معیشت میں اب کہیں زیادہ اس بیماری میں شدت آ چکی ہے۔ نئے قرضے اٹھائے جا رہے ہیں کہ پرانے قرضے چکا سکیں، ان کا سود ادا کر سکیں۔اس کوشش میں قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ سیلاب کے نقصانات اپنی جگہ مگر کیا سیلاب کی تباہ کاریوں میں سارا عمل دخل عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہے جسے بنیاد بنا کر ہم دنیا سے امداد کے طالب ہیں۔

بجلی سیکٹر میں اڑھائی ہزار ارب روپے کے موجودہ سرکلر ڈیٹ میں کس عالمی طاقت کا عمل دخل تھا؟ گیس اور بجلی سیکٹر سمیت ریلوے ، پی آئی اے اور پبلک سیکٹر اداروں میں سالانہ ایک ہزار ارب روپے کے نقصانات میں کس عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا عمل دخل ہے؟ ٹیکس جی ڈی پی تناسب پر کس عالمی طاقت نے پاؤں رکھا ہوا ہے؟ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

نیشنل ہائی وے کونسل نے کسی تحریک کے بغیر عین سیلابی موقع پر کھاتے پیتے دولت مند با اثر اراکین کو ٹال ٹیکس کا استثنیٰ نہیں دیا ہوگا۔ اس کی دلیرانہ ٹائمنگ خود چیخ رہی ہے کہ بے حسی اور خود غرضی کا کوئی وقت معین نہیں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔