اے مہاساگر اب ہم پر رحم کر

زاہدہ حنا  اتوار 25 ستمبر 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

میں جب بھی دریائے سندھ پر سے گزری، اسے تھکا ہارا ہی پایا، لیٹا ہوا۔ حسرت رہی کہ اسے کبھی موجیں مارتے بھی دیکھوں لیکن ان دنوں جب سیلاب کے مناظر دیکھے تو یقین نہیں آیا کہ یہی وہ سوتا ہوا اور تھکا ہارا دریا ہے جسے چند مہینوں پہلے پل پر سے گزرتے دیکھا تھا۔

جین فیرلی کے مطابق مذہبی تصویروں میں چار دریاؤں کو چاروں سمتوں سے جانوروں کے دہانوں سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ برہم پترا مشرق کی جانب گھوڑے کے منہ سے نکل کر بہہ رہا ہے۔ گنگا کا ایک بڑا معاون دریا جنوب میں مور کے منہ سے نکل کر بہہ رہا ہے اور کرنالی کہلاتا ہے۔ مغرب کی جانب ستلج ہاتھی کے منہ سے جب کہ شمال کی جانب دریائے سندھ ببرشیر ’’سنگی کباب‘‘ کے منہ سے نکلتا ہے۔

چند دنوں پہلے یہ منظر دیکھا کہ سندھ دریا سمندر بن گیا ہے اور ہر رکاوٹ کو بہاتا ہوا چلا جارہا ہے لیکن آج خبر آئی ہے کہ اس کی بلندی میں تین یا چار فٹ کمی آئی ہے۔ لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مجھے دریا سے منسوب وہ روایتیں یاد آئیں جن کے مطابق اگر دریا کے کنارے سے نگینوں کو کسی شخص نے چرا کر اپنے سامان اور لباس میں چھپالیا ہو تو دریا کے کنارے رہنے والے سانپ اس کا پیچھا کرتے ہیںاور اس وقت تک اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک وہ نگینے کو پھینک نہ دے۔ یہ ایک حیران کن کہانی ہے لیکن اس پر آپ کو یقین کرنا پڑے گا۔

دریائے سندھ جسے سندھ، اباسین، اور مہران کہا گیا، ہزاروں برس سے یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصہ سے زندہ ہے۔ سکندر، مقدونی، مغل، ایسٹ انڈیا کمپنی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ سب نے ہی اس کے گلے میں بانہیں ڈالیں، اسے فتح کیا اس سے محبت کی۔

بیس سال قبل مسیح ملاحوں نے ایک اہم پیش رفت کی۔ ایک یونانی تاجر ہیپالیس جو بحیرہ عرب کے علاقہ میں تجارت کرتا تھا، اس نے اردگرد کے حالات اور اس علاقہ میں چلنے والی موسمی ہوائوں کا جائزہ لیا۔ ایک گرمیوں میں وہ جنوب مشرقی ہوائوں کے دوش پر کھلے سمندر میں سفر کرتا ہوا دریائے سندھ کے دہانے پر جاپہنچا۔ اب جہاز رانوں کو یہ علم ہوگیا تھا کہ گرمیوں کی مون سون ہوائوں کے ساتھ بادبانی جہازوں کے ذریعہ نہ صرف براہ راست ہندوستان پہنچا جاسکتا تھا بلکہ سردمیوں کی شمال مشرقی مون سون کے ساتھ واپس عرب کی ساحلوں پر بھی پہنچ سکتے ہیں اور دوسو سال تک رومن جہاز جن پر غالباً یونانی عملہ ہوتا تھا دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں تجارت کی غرض سے آتے جاتے رہے۔

ہندوستان کی جانب جاتے وقت وہ سرخ مرجان کے علاوہ شیشے، چینی کے کپ اور پلیٹیں، شیشے کے منکے جیسی رومی مصنوعات اور سب سے بڑھ کر سونے کے سکوں کی بڑی مقدار لاد کر لے جاتے کیونکہ ہندوستانی سونے کو خاص قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس وقت تک ان کی اپنی سونے کی کانیں ختم ہونے کو تھیں۔ شمالی ہندوستان میں کئی جگہوں پر رومی سونے کے سکے بڑی مقدار میں مل چکے ہیں اور اس کی مشرقی تجارت نے رومی سونے کی کانوں سے سونے کی ایک بڑی مقدار کھینچ لی تھی۔

اپنی واپسی کے سفر پر یہ تاجر عیاشی کے سامان مثلاً ہاتھی دانت، خوشبویات، مصالحے، رنگ، باریک ململ او رنیم قیمتی پتھر اور چینی ریشم لے کر جاتے جو ہمالیہ کے پار سے پہلے ٹیکسلا لایا جاتا اور پھر غالباً یہاں سے دریائے سندھ کے راستے کشتیوں کے ذریعے سمندر تک پہنچایا جاتا تھا۔ تبرئیس نے بڑی حقارت کے ساتھ ذکر کیا ہے ’’ایسا ساز و سامان جو محض خواتین کے ناز و نخرے اور چاپلوسی کے کام آتا تھا، عیاشی کی یہ معمولی اشیاء سلطنت کی اصل دولت کھینچ کر لی جاتی تھیں۔‘‘

جب رومی سلطنت کمزور پڑگئی تو عرب جہاز زیادہ مقدار میں دریا کے دہانے پر نظر آنے لگے اور خلیجوں اور عرب کے جزیروں پر مقیم قزاقوں نے پوری کوشش کی کہ مغرب سے آنے والے دوسری قوموں کے جہاز ہندوستان تک نہ پہنچ سکیں۔ یونانی اور روسی جہاز لکڑی کے تختوں کو کیلوں سے جوڑ کر بڑے مضبوطی سے تیار کیے جاتے تھے جب کہ اس کے برعکس عرب کشتیاں ساگوان اور ناریل کی لکڑی کو، جو غالباً ہندوستان سے برآمد کی جاتی تھیں کیونکہ عرب میں کوئی مناسب لکڑی میسر نہیں تھی، عام طور پر ناریل کے ریشوں سے باہم سی کر تیار کیے جاتے تھے۔

اس طرح ان کے ڈھانچے لچکدار ہوتے ہیں جنھیں آسانی سے کھینچ کر خشکی پر لایا جاسکتا تھا لیکن گہرے سمندر میں بہت کم طاقت کے حامل ہوتے تھے۔ جب دیبل پر پہلے مسلم حملے میں بہت سے جہاز غرق ہوگئے توخلیفہ نے بڑے افسوس کے ساتھ لکھا تھا ’’سمندر ایک لامتناہی وسعت کا حامل ہے جس پر بڑے بڑے جہاز ایک نقطہ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ سر پر آسمان اور نیچے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، جب سکون میں ہوتا ہے تو ملاح کا دل ٹوٹ جاتا ہے، جب پر آشوب ہوتا ہے تو اس کے حواس چکرا جاتے ہیں۔ اس پر اعتماد بہت کم اور خوف کا پہلو بھاری ہوتا ہے۔ سمندر میں آدمی کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے کسی تنکے پر بیٹھا ہوا کیڑا ہو جسے ہر دم نگلے جانے اور موت کا خوف گھیرے رکھتا ہے۔‘‘

لیکن جب محمد بن قاسم نے سندھ میں عرب سلطنت کے قدم مضبوط کردیے تو سمندری تجارت چین سے لے کر خلیج فارس تک پھیل گئی تھی اور منہ زور اور بے قابو قزاقوں کے علاوہ اسے کسی رکاوٹ کا سامنا نہ تھا۔ جہاز جوان لمبے سمندری سفروں میں مصروف تھے (چین کی سمت آنے جانے کے سفر میں اٹھارہ ماہ صَرف ہوتے تھے) ان کے لیے دیبل ایک اہم بندرگاہ تھی جہاں وہ خوراک اور ضرورت کی دیگر اشیاء خرید سکتے تھے اور اپنے جہازوں کی مرمت اور تجارتی اشیاء کا تبادلہ وغیرہ کرسکتے تھے۔

اپنی باری آنے پر عرب سلطنت کو بھی زوال آگیا اور سولہویں صدی کے وسط میں پرتگیزی جہاز دریائے سندھ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے اور یوروپین باشندوں کی یلغار شروع ہوگئی۔ اوفر (اگر یہ حقیقت میں یہیں تھا) اور دیبل اور ڈیلٹا کی دوسری بندرگاہیں جو کبھی یہاں آنے والے تاجروں کو تفریح اور سہولتیں مہیا کرتی تھیں تباہ ہوچکی تھیں۔ حتیٰ کہ ان کے کھنڈرات بھی ریت میں دب چکے تھے۔ دریائے سندھ جو کہ ان کی خوشحالی کا سرچشمہ تھا، اپنے سیلابوں اور زلزلوں کی وجہ سے ان کی تباہی کا موجب بھی بن گیا تھا۔ اس کے کناروں پر بسنے والے قدیم شہروں اور آبادیوں کی طرح سکندر اعظم کے نشانات اور آثار بھی ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ ہوچکے تھے۔

سمندر میں دور تک، بعض اوقات دس میل کے فاصلہ پر بھی، دریائے سندھ کے سرخی مائل بھورے پانی کی وجہ سے بحیرۂ عرب کے سبزی مائل نیلگوں پانی کا رنگ بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ پانی کے نیچے ساحلی ریت کی دیواروں کے فوراً بعد ایک گہری کھائی جسے ’’سواچ‘‘ کہا جاتا ہے، وہ دریا کی گزرگاہ کو تقریباً پچاس میل براعظمی تہہ کے اختتام تک جاتی ہے، اس کے دونوں جانب سمندر اتھلا ہے جو کہ اس کی ابتداء میں صرف سو فٹ گہرا ہے اور بتدریج گہرا ہوتاا چلا جاتا ہے۔

’’سواچ‘‘ کا پیندا تقریباً دوہزار فٹ نیچے ہے۔ ہوسکتا ہے یہ کسی زلزلہ سے پیدا ہوا ہو لیکن اس سے ملحقہ ہمالیہ علاقوں میں بھی زلزلے آتے رہے ہیں وہاں کوئی ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس ساحل پر یہ ’’سواچ‘‘ ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ دریا جو کہ دنیا کے عظیم ترین پہاڑوں کو کاٹ کر آرہا ہے اس نے سمندر کے پیندے میں بھی ایک بڑی گھاٹی کھود ڈالی ہے۔

اے سندھ! اے مہاساگر! ہم نے تجھے بہت دکھ دیے ہیں، بہت زخم دیے ہیں، تیرے راستے روکے ہیں لیکن تو اب ہم پر رحم کر اور اپنے جانوروں پر بھی جو تیری لہروں سے اپنی زندگی کشید کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔