کیا دنیا کا نظام بدلنے جا رہا ہے

ڈاکٹر مسرت امین  اتوار 25 ستمبر 2022

ازبکستان میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کئی حوالوں سے اہم تھا۔ تائیوان کے معاملے پر چین امریکا کشیدگی اور یو کرین جنگ کے بعد روسی اور چینی صدورکی یہ پہلی ملاقات تھی۔

چینی صدر شی جن پنگ نے اس وقت دنیا کو چونکا دیا جب اجلاس میں شریک رہنماؤں سے کہا کہ ’’ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی نظام کو نئی شکل دی جائے اور دھڑے بندی کی سیاست کو ترک کر دیا جائے۔ ‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ایشیائی ممالک امریکا اور مغرب کا جمہوریت اور آزاد تجارت پر مبنی سیاسی ، معاشی اور عسکری عالمی نظام کو تبدیل کرسکتے ہیں؟

روس اور چین مغربی جمہوریت اور آزاد تجارت کا کوئی متبادل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا اور مغرب کا جمہوری نظام کیا عالمی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوا ؟ بدقسمتی سے مغربی جمہوریت اشرافیہ کے اقتدار ، گروہی مفادات کے تحفظ اور طبقاتی نظام کی تقسیم سے زیادہ دنیا کو کچھ نہیں دے سکی۔

مغرب کی رائج کردہ جمہوریت اور آزاد معیشت میں دنیا کی 98 فیصد دولت کے مالک صرف چند سو افراد ہیں جب کہ دنیا کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی آج بھی غربت کا شکار ہے۔ جمہوریت ، شخصی آزادی ، انسانی حقوق اور آزاد تجارت کے نام پر سب سے زیادہ استحصال کا شکار تیسری دنیا کے ممالک ہیں۔

جنوبی ایشیا کے خطے میں جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ایک چوتھائی حصہ ہے پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں کا کنٹرول چند خاندانوں کے ہاتھ میں ہے جو باری باری اقتدار میں اپنا حصہ لیتی ہیں۔

تیسری دنیا کے ممالک میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم ، غربت ، وسائل کی تقسیم پر اشرافیہ کا کنٹرول اور جمہوریت کے نام پر شخصی آمریتوں کا نظام نہ صرف عالمی جمہوری نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے بلکہ غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ابلتے ہوئے لاوے کی طرح کسی بھی وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ مغربی جمہوریت کو اگر عالمی تنازعات کے حل کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو بہت مایوس کن تصویر نظر آتی ہے۔

فلسطین پر اسرائیل کا جابرانہ قبضہ ہو یا مسئلہ کشمیر ، یمن کی جنگ ہو یا میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ، لبنان کا سیاسی عدم استحکام ہو یا شام میں جاری خانہ جنگی عالمی جمہوری نظام اور اس کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے ہر جگہ بے بس نظر آتے ہیں ، اگر مغرب کے رائج کردہ آزاد معیشت کے نظام کا جائزہ لیا جائے تو لبرل اکانومی کے نام پر عالمی اشرافیہ نے افریقی ممالک میں جس طرح وسائل کو بے دردی سے لوٹا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

سونے ، تیل ، کاپر ، ڈائمنڈ جیسے بے پناہ قیمتی معدنی وسائل رکھنے والے یوگنڈا ، نائجیریا ، کانگو ، صومالیہ جیسے افریقی ممالک میں جس طرح مغرب نے معدنی ٹھیکوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی آج دنیا میں سب سے زیادہ معدنی وسائل رکھنے والے افریقی ممالک بدترین غربت کا شکار ہیں۔ تمام تر ترقی اور جدیدیت کے باوجود آج مغربی جمہوری نظام کی سب سے بڑی ناکامی غربت کا خاتمہ نہ ہونا ہے۔

غربت تمام تر معاشرتی برائیوں کی وہ جڑ ہے جس کے تنوں پر انتہا پسندی ، بھوک اور تشدد جیسے کانٹے ہی اگتے ہیں، لیکن ان تمام تر خرابیوں کے باوجود آج مغربی جمہوریت ہی وہ واحد نظام ہے جس نے دنیا کو ایک عالمی نظام کی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔

جمہوریت ، انسانی حقوق ، انصاف وہ مشترکہ اقدار ہیں جو جمہوری ممالک کو یکجا کرتے ہیں، لیکن ایسا قطعی نہیں ہے کہ جمہوریت کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسرا ماڈل موجود ہی نہ ہو۔ آج چین کا جمہوری مرکزیت سیاسی نظام غربت کے مکمل خاتمے ، معاشی ترقی اور خوشحالی کی صورت دنیا کے سامنے ایک مضبوط مثال بن چکا ہے۔

20 ویں صدی دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کی صدی ہے وہیں اکیسویں صدی چین کے عروج کی صدی کہلاتی ہے۔ صرف چند سالوں میں چین نے 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر دنیا کے سامنے عظیم مثال پیدا کردی کہ صرف جمہوریت نہیں بلکہ مساوات ، شراکت اور برابری کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ، کنٹرولڈ نظام ہی دنیا سے غربت کو ختم کر سکتا ہے۔ جولائی 2021 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 100 ویں سالگرہ نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ جمہوریت کے علاوہ متبادل سیاسی نظام نہ صرف دنیا میں پنپ سکتا ہے بلکہ دنیا کی 20 فیصد آبادی کو کامیابی سے غربت جیسے عفریت سے نجات بھی دلا سکتا ہے۔

غربت کے خاتمے اور خوشحالی کی منازل طے کرنے والے ممالک میں چین واحد مثال نہیں ہے بلکہ سنگا پور ، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے بھی مرکزیت کی مدد سے اپنے ممالک کو معاشی ترقی کی دوڑ میں دنیا کے صف اول کے ممالک کے ساتھ لاکھڑا کیا۔

مغرب میں سب سے بڑی مثال ترکی کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے جہاں طیب اردگان نے جمہوری مرکزیت کے بل بوتے پر ترکی جسے یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا اس کو چند سالوں میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ سی پیک اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی صورت وہ پلیٹ فارم بھی موجود ہے جس کی مدد سے ترقی پذیر ممالک غربت کے خاتمے اور معاشی مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت اگر امریکا اور مغرب کے اشاروں پر چین کا مقابلہ کرنے کا خواب پورا کرنے کے چکر میں وسائل ضایع کرنا بند کرکے چین کے ماڈل پر چلتے ہوئے غربت کے خاتمے ، معاشی خوشحالی اور برابری کی بنیاد پر ترقی کے مواقع فراہم کرنے پر فوکس کرلے تو چین ، روس ، بھارت ، ترکی اور پاکستان ترقی پذیر ممالک کو ساتھ ملا کر عالمی سیاسی نظام کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

چین افریقہ میں خوشحالی میں شراکت کے نام پر جس فراخ دلی سے سرمایہ کاری کر رہا ہے اور جتنا تیزی سے افریقی ممالک میں غربت ختم ہو رہی ہے یہ دنیا میں بالکل ایک نئی مثال ہے۔ ترقی اور سرمایہ کاری کے چینی ماڈل کے خلاف سری لنکا کو مثال بنا کر چینی ماڈل کے خلاف سے زیادہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں بتاتا کہ کس طرح خوشحالی میں شراکت کے نظریے کی بنیاد پر ہونے والی چینی سرمایہ کاری سے افریقی ممالک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔

آج ایشیا ، افریقہ اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کا مسئلہ جمہوریت سے زیادہ غربت ، بھوک اور ننگ ہے۔ لوگ جمہوریت کے نام پر ملنے والی سماجی ناانصافی اور طبقاتی تقسیم سے تنگ آ چکے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی وہ واحد کنجی ہے جو دنیا کے مسائل کا خاتمہ کرسکتی ہے اور خوشحالی کے حصول کی واحد کنجی اس وقت چین کے پاس ہے۔ وقت آگیا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک چینی صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک نئے عالمی سیاسی نظام کی بنیاد رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔