مہسا امینی کی موت کیا کہتی ہے؟

فاروق عادل  پير 26 ستمبر 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

ایران میں مہسا امینی کی درد ناک موت اور ہمارے یہاں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے باب میں جو کچھ ہوا، اس نے استنبول ایئرپورٹ کے ایک واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ یہی موقع تھا جب مجھ سے ایک سوال کیا گیا:’ سر، کیا کوئی ایسا اجتماع ہم پاکستان میں کر سکتے ہیں؟’۔یہ وزارت خارجہ کے ایک نوجوان افسر تھے جو انقرہ کے پاکستانی سفارت خانے میں متعین تھے۔

ان کا اشارہ دو روز قبل استنبول میں ختم ہونے والی معرکہ چناق قلعے کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی طرف تھا۔ اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ترکیہ کی قومی جدوجہد میں چناق قلعے کا معرکہ وہی اہمیت رکھتا ہے جیسی 1857 کی جنگ آزادی کی اہمیت ہماری تاریخ میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جنگ ہم ہار گئے تھے، ترکیہ اس جنگ میں صرف سرخ رو ہی نہ رہا بلکہ یہ معرکہ اس کی آزادی و استقلال کی مستقل علامت بھی بن گیا۔

برطانیہ عظمیٰ کی قیادت میں ایک عالمی اتحاد اس جنگ میں ترکیہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ غازی مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترکوں نے جارح حملہ آوروں کے دانت کھٹے کردیے۔ اس جنگ میں جارح یورپی اقوام کے ہزاروں فوجی کھیت رہے تھے۔

صد سالہ تقریبات کے موقع پر ان فوجیوں کے ورثا بھی ہزاروں کی تعداد میں استنبول پہنچے۔ ان فوجیوں کی اولادوں کی اکثریت بھی اپنی زندگی کے دن پورے کر کے مالک حقیقی کے رو بہ رو جا پہنچی ہوگی لیکن جو بچ رہے تھے، ان کے دلوں میں اپنے ان پیاروں کی یاد تازہ تھی۔ وہ انھیں یاد کرتے تھے اور آنسو بہاتے تھے۔

وہ منظر ہلٹن باسفورس کا تھا۔ اس ہوٹل کے پورچ کا طرز تعمیربھی خوب ہے۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر کوئی ذرا گہری سانس بھی لیتا تو اس کی بازگشت پلٹ کر کانوں سے ٹکراتی اور وہ تو ایک سسکاری تھی۔ وہ معمر خاتون کوسٹر کے انتظار میں کھڑی تھی جیسے جیسے انتظار بڑھتا گیا، اس کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ کوسٹر اِن  مسافروں کو ایئرپورٹ پہنچانے والی تھی جہاں سے وہ گیلی پولی یعنی چناق قلعے کی طرف پرواز کرتے جہاں ان کے بزرگ جنگ آزادی میں ترک سورماؤں کے ہاتھوں ڈھیر ہوئے تھے۔اگلی شام وہ عورت مجھے لابی میں مل گئی۔ مختصر سے تعارفی جملوں کے بعد وہ کھل گئی۔

اس نے بتایا کہ مرنے والا اس کا باپ تھا جو اتحادی فورسز کے ساتھ آیا اور پھر کبھی واپس نہ لوٹا۔ اس گفتگو کے دوران میں اس کی آنکھیں مسلسل نم رہیں۔ اس عورت کی بے قراری نے میرے ایک اعتقاد پر بہت سے سوالیہ نشان لا کھڑے کیے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مغرب میں خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر مغرب میں واقعی خاندانی نظام کا کوئی وجود نہیں تو پھر یہ کیا ہے؟

گیلی پولی یعنی چناق قلعے کی اسی جنگ کے موضوع پر حکومت ترکیہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کاانعقاد کیا جس میں چالیس ملکوں کے سربراہان مملکت یا حکومت شریک ہوئے۔ ان میں ایک برطانیہ کے موجودہ شاہ چارلس بھی تھے جو اس وقت شہزادے تھے۔

شاہ چارلس کا ذکر آیا ہے تو ایک لطیفہ بھی سن لیں۔ کانفرنس میں شریک بے شمار لوگ شہزادے کے ساتھ تصویر بنوانے کے خواہش مند تھے، ان میں ایک ہمارے وفد کے بڑے طاقت ور رکن بھی تھے۔ وہ بہانے بہانے سے شہزادے کے آس پاس سے گزرا کرتے۔ سرکاری فوٹو گرافر کو انھوں نے ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ کوئی موقع ضایع نہ جانے دے لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ کوئی تصویر بھی ان کی نہ بن سکی۔ ان کے مقابلے میں پروٹوکول کا  ایک اسسٹنٹ اچھا رہا۔جس نے شہزادے کے ساتھ تصویر بنوا لی۔

کانفرنس ختم ہوئی تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ میں ائیرپورٹ پر تھا، یہیں میری ملاقات چہلیں کرتے ہوئے ایک نوجوان جوڑے سے ہوئی۔ کلین شیوڈ سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اور اسی مزاج کی ایک ماڈرن لڑکی، ترک لڑکیوں کی طرح پہننے کے لیے جسے اسکرٹ موزوں لگتی ہوگی۔ میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ وہ ایرانی ہیں۔ میری حیرت پر وہ افسر مسکرائے اور کہا کہ طیارے تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی کایا کلپ ہو جائے گی۔

آپ دیکھ کر حیرت کریں گے کہ یہ وہی ماڈرن بچے ہیں یا کسی مذہبی مدرسے کے طالب علم۔یوں میں نے سوچا کہ نظریہ اچھا بھی ہو تو اس کا جبر اچھا نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے شخصیت میں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ یوں کہئے کہ ایک شخصیت میں دوسری شخصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ استنبول ایئرپورٹ پر یہ منظر پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

تہران کی پرواز کا اعلان ابھی ہوا ہی ہو گا کہ ہم سفر کہنے لگے کہ سر، اس طرف دیکھیے۔ سر تا پا حجاب میں لپٹی ایک خاتون قطار کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے قبل کہ میں دریافت کرتا کہ یہ کون ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ وہی اسکرٹ والی لڑکی ہے۔معلوم ہوا کہ ریاست کی قوت لوگوں کو کوئی طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور تو کر سکتی ہے لیکن اسے اعتقاد اور ایمان کا حصہ نہیں بناسکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ایران کے کوچہ و بازار میں ہمیں ایسے دل خراش مناظر دیکھنے کو نہ ملتے جن میں موت ارزاں ہو چکی ہے۔

ایران سے قبل کچھ ایسا ہی تجربہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں بھی ہو چکا ہے جہاں ستر اسی برس سے چلتا ہوا نظام دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہو گیا۔ ایران میں کیا ہوتا ہے، آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا لیکن یہ واضح ہے کہ نظریاتی جبرکی بنیاد میں سے ایک اینٹ بہرحال نکل چکی ہے۔ذرا سے فرق کے ساتھ پاکستان کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

ہمارے یہاں جو کام ریاست کی قوت سے نہیں ہوتا، بعض طبقات اسے معاشرتی جبر اور گروہی دباؤ کے ذریعے انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کا معاملہ ان دنوں زیر بحث ہے۔

اس ایکٹ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اس کی جنس وہ نہیں جو شناختی کارڈ میں درج ہے بلکہ کچھ اور ہے تو اسے شناختی کارڈ میں اپنی جنس تبدیل کرانے کا حق ہو گا۔یہ درست ہے کہ اگر جنس تبدیل کرانا صرف خواہش کے زیر اثر ممکن بنا دیا جائے تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں ہیجان بپا ہو جائے گا لیکن کیاواقعی ایسا ہو گا۔ اس سلسلے میں ایک سویپنگ اسٹیٹمنٹ پورا سچ بیان نہیں کرتا۔ اس معاملے کا ایک پہلو بیرونی ایجنڈے کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے لیکن اس کا تدارک بھی دلیل اور حکمت کے ذریعے ہی ممکن ہے، کسی دلیل سے محروم ہیجان پیدا کرکے نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔