’ آسمان سے گرا ، ’’ جنگل ‘‘ میں اٹکا ‘

فریحہ حسین  اتوار 2 اکتوبر 2022
ایمیزون کے جنگل میں 36 شب و روز گزارنے والا برازیلین پائلٹ انٹونیو سینا کیسے واپس انسانوں کی دنیا تک پہنچا؟ فوٹو : فائل

ایمیزون کے جنگل میں 36 شب و روز گزارنے والا برازیلین پائلٹ انٹونیو سینا کیسے واپس انسانوں کی دنیا تک پہنچا؟ فوٹو : فائل

کسی ایسے ویرانے میں کھو جانا جہاں انسانوں کا نام ونشان نہ ہو ، کسی گھنے جنگل میں بھٹک جانا جہاں کسی مدد یا ریسکیو کی بھی امید نہ ہو،کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔

ایسی جگہوں پر انسان صرف اپنی غیر معمولی قوت ارادی سے زندہ رہتا ہے اور بچ نکلتا ہے یا پھر مرنے کا انتظار ہی کرسکتا ہے تاہم انسان مرنے کے بجائے جدوجہد پر یقین کرتا ہے، بچ نکلنے کے لئے تمام تر کوششیں کرتا ہے۔ بعض اوقات حالات اس قدر مشکل ہوتے ہیں کہ انسان چاہنے کے باوجود وہاں سے نکل نہیں پاتا۔ ان حالات میں سے کوئی بچ نکلے تو وہ بلند حوصلہ اور بلند ہوتا ہے۔

حقیقت تو یہی ہے کہ زندگی ایسے بلند حوصلہ لوگوں ہی کی ہوتی ہے، وہ اپنی ہمت اور حوصلہ سے ایسی کہانیاں لکھتے ہیں کہ دنیا انھیں تادیر یاد رکھتی ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی انٹونیو سینا نے اپنی بے مثال جدوجہد سے لکھی۔ وہ ایمیزون جیسے جنگل میں پھنس گیا تھا۔ اس جنگل میں کوئی بھٹک جائے ، پھنس جائے تو وہ زندہ باہر نہیں نکل پاتا ۔ یہاں درندے ہی نہیں درخت بھی انسانوں کو اپنے شکنجے میں لے کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

36 سالہ برازیلین پائلٹ انٹونیو سینا کی کہانی حقیقی ہونے کے باوجود ناقابل یقین سی لگتی ہے۔ یہ 28 جنوری2021 ء کا دن تھا جب اس نے پرتگال کے شہر’ الینکر ‘ سے برازیل کے شہر’ المیریم ‘ کے لیے اڑان بھری۔ وہ ایک تربیت یافتہ پائلٹ تھا ۔ اس کی خدمات برازیل میں ایک سونے کی کان تک کچھ سامان پہنچانے کے لیے کارگو فلائٹ کے لیے لی گئی تھیں۔

وہ 3000 میٹر کی بلندی پر، کسی بھی انسانی رہائش سے242کلو میٹر دور، دنیا کے سب سے بڑے جنگل ’ ایمیزون ‘ کے اوپر سے گزر رہا تھا جب اسے جہاز کے انجن میں تکنیکی خرابی کا احساس ہوا۔ اس نے ریڈیو پر ’ مے ڈے ‘ کا پیغام چھوڑا، جس کا مطلب ہے کہ میری مدد کی جائے، اور پھر دوبارہ جہاز کا توازن درست برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر جہاز ہوا میں ہچکولے کھانے لگا۔ اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس کا جہاز زیادہ دیر تک ہوا میں اڑان نہیں رکھ پائے گا۔ چنانچہ اس نے ایمیزون کے جنگل کے اندر ہی کسی مناسب جگہ پر کریش لینڈنگ کا سوچا ۔

انٹونیو درختوں سے ٹکراتے ہوئے ’ دریائے ایمیزون‘ کے شمال میں جہاز اتارنے میںکامیاب ہو گیا۔ اس کے پھیپھڑے ڈیزل اور ایندھن کی بو سے بھر چکے تھے۔اس کے اندازے کے مطابق 600 لیٹر ایندھن سے بھرے اس جہاز کے آگ پکڑ لینے کا خدشہ بھی اپنی جگہ پر موجود تھا۔

اب اس کے پاس اس جہاز سے بحفاظت باہر نکلنے کے لیے چند ہی منٹ تھے۔ ان چند منٹوں میں اس نے اپنے بیگ پیک میں پانی کی تین بوتلیں، سوفٹ ڈرنکس کے چار کینز ، دو جیبی چاقو ، دو لائٹرز ، ایک موبائل فون جس میں بیٹری تھی لیکن سگنلز نہیں تھے ، ڈبل روٹی کا ایک پیکٹ جس میں 12سلائسز تھے ، پلاسٹک کے کچھ بیگز ، کپڑوں کا ایک جوڑا، ایک فلیش لائٹ ، ایک رسی اور کچھ دیگر سامان رکھا اور جہاز سے باہر کود گیا ۔ اس کے باہر نکلنے کی دیر تھی کہ جہاز نے آگ پکڑلی۔

انٹونیو سینا کی بہن ماریانہ کے مطابق: ’’ سینا بچپن ہی سے مہم جو طبیعت کا مالک تھا ۔ وہ اکثر اسی مہم جوئی کی وجہ سے خود کو مصیبت میں بھی ڈال لیتا تھا اور بڑی بہن ہونے کی وجہ سے میں اکثر اس کی مہم جوئی سے زچ رہتی تھی۔‘‘ جیسے جیسے انٹونیو بڑا ہوتا گیا ، اس کی مہم جوئی پر مشتمل سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

ماریانہ اکثر انٹونیوکو جنگل سے زندہ بچ نکلنے کی کہانیاں پڑھتے دیکھتی تھی۔ پھر جب انٹونیو نے کمرشل پائلٹ بننے کا ارادہ ظاہر کیا تو خاندان میں سے کوئی بھی حیران نہ ہوا۔ ایک انٹرویومیں ماریانہ نے بتایا :

’’ ہم سب انٹونیو کی مہم جوئی سے واقف تھے۔ اسے کمرشل پائلٹ کا لائسنس دلانے کے لیے ہمیں اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بیچنا پڑا‘‘۔ نو سال پہلے اس نے کمرشل پا ئلٹ بننے کی تربیت دوران میں جہاز کریش کی بہت سی خوفناک کہانیاں سن اور پڑھ لی تھیں مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔

ایمیزون میں کریش لینڈنگ سے کوئی چھ برس پہلے، 2015ء میں بھی انٹونیو نے24 مسافروں کے ساتھ ایمرجنسی لینڈنگ کی تھی۔ ماریانہ کے مطابق،انٹونیو خود کو مصیبت میں خود ڈالتا تھا اور پھر نکال بھی لیتا تھا۔

بہرحال اب کی بار ’ ایمیزون ‘ میں کریش لینڈنگ کے بعد ، تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے انٹونیو اتنا جان چکا تھا کہ وہ آسمان سے گر کر ایمیزون کے جنگل میں کھو چکا ہے۔ ایک ایسے جنگل میں جو دنیا کا سب سے بڑا اور گھنا جنگل ہے، اس قدر گھنا کہ اس کے بعض حصوں میں سورج کی کرنیں بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ دریائے ایمیزون اور اس کے معاون دریاؤںکے گرد پھیلا ہوا ہے۔

اس کا رقبہ 67 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، یعنی پاکستان کے مجموعی رقبے سے ساڑھے سات گنا زیادہ ۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کی تمام زندہ انواع حیات کا نصف اس جنگل میں پایا جاتا ہے۔ یہ جنگل9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے جن میں برازیل ( برساتی جنگل کا 60 فیصد اس ملک میں واقع ہے) ، کولمبیا ، پیرو، وینیزویلا، ایکویڈر، بولیویا، گیانا، سرینام اور فرانسیسی گیانا شامل ہیں۔ چار ممالک میں ایمیزوناس نامی ریاستیں یا علاقے بھی واقع ہیں۔ اس علاقے کو ایمیزونیا بھی کہا جاتا ہے۔

ایمیزون کا جنگل حشرات الارض کی25 لاکھ اقسام ، لاکھوں نباتات اور پرندوں اور ممالیہ کی دو ہزار انواع کا گھر ہے۔ تحقیق کے مطابق اب تک یہاں 40 ہزار پودوں، تین ہزار مچھلیوں، 1294 پرندوں،427 ممالیہ ،427 جل تھلی (amphibians) اور 378 رینگنے والے جانوروں (reptiles) کی اقسام دیکھنے کو مل چکی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف برازیل میں96660 سے128843 غیر فقاری (invertebrate) جانوروں( جن کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی) کی اقسام پائی جاتی ہیں۔

اس دنیا میں ایمیزون جنگل کی حیثیت ایک کاربن اسٹور کی ہے جوگلوبل وارمنگ کی شرح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یعنی یہ زمین کے درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے، اس کے جنگلات ہر سال کئی ملین ٹن کاربن جذب کرتے ہیں۔

مگر جب درختوں کو کاٹا یا جلایا جاتا ہے تو ان کی جمع کردہ کاربن فضا میں خارج ہوجاتی ہے اور برساتی جنگل کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔ اگر ساری دنیا کو ایک جاندار کے جسم کی مانند سمجھا جائے تو ایمیزون کا جنگل اس جسم کے پھیپھڑے ہوں گے۔

جنگل کے بیشتر حصوں میں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے مگر بعض حصوں میں ایسے قبائل آباد ہیں جن کے چند ہی افراد باقی بچے ہیں۔ سورج کی روشنی نہ پہنچنے کی وجہ سے ایمیزون کا جنگل بھول بھولیوں کی ایسی شطرنج ہے جہاں گم ہو جانے کی صورت میں باہر نکلنا قریباً ناممکن ہی ہے۔

مگر انٹونیو سینا نے36 روز اس جنگل میں رہ کر اور پھر اس سے باہر نکل کر ، اپنے خاندان تک پہنچ کر اس ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ تربیت تھی جس کے دوران میں اسے اس جنگل کی بنیادی معلومات بھی دی گئی تھیں۔ اگرچہ اسے ایمیزون میں موجود خطرات کا کسی حد تک علم تھا مگر اس کے باوجود اسے چند خطرات اور خوف لاحق رہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ایمیزون میں اس کا سب سے بڑا خوف وہاں کے بڑے شکاری جانور تھے مثلاً چیتے، اژدھے اور مگر مچھ ۔اسی طرحکسی محفوظ پناہ گاہ کا انتظام اور خوراک کی عدم دستیابی کا خوف بھی اسے پل پل مار رہا تھا کیونکہ وہ اس قدر جان چکا تھا کہ کسی بھی ریسکیو ٹیم کو اس تک پہنچنے میں کئی دن یا ہفتے بھی لگ سکتے ہیں ۔

انٹونیو نے جہاز کریش ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک جہازکے ملبے کے پاس اس امید پرگزارا کہ شاید کسی نے اس کا آخری ریڈیو پیغام سن لیا ہو ، جہاز کے ملنے کے آس پاس رہنے کے وجہ سے ریسکیو کے لئے آنے والوں کو انہیں ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی۔ پھر اس نے ریسکیو فلائٹس کی آوازیں سنیں مگر جنگل اس قدر گھنا تھا کہ ریسکیو کے لیے آنے والے انٹونیو کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔

اس نے انھیں آوازیں بھی دیں مگر وہ کوئی آواز نہیں سن سکے۔ برازیلین ائیر فورس نے بھی پانچ دن انٹونیو کے ریسکیو کے لیے سر توڑ کوشش کی۔ اس نے کریش والی جگہ کے قریب ترین قصبے میں آپریشن روم بنایا جہاں سے انٹونیو کے ریسکیو آپریشن کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ پھر انٹونیو کے بھائی تھیاگو اور بہن ماریانہ بھی وہاں پہنچے۔

ماریانہ بتا رہی تھی کہ اس قدر زیادہ کوشش کے باوجود ہم اب سوائے انتظار کے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔اگر ائیر فورس کے جہاز کوئی بھی سراغ لاتے تو ہیلی کاپٹر بھیجا جاسکتا تھا تاکہ جنگل کے اندر تک انٹونیو کو ڈھونڈا جا سکے۔ پانچویں دن انٹونیو نے ریسکیو جہاز کی آواز بہت قریب سے سنی، وہ زور زور سے چلایا ، ہاتھ ہلا کے متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ آٹھویں دن ماریانہ اور تھیاگو سے ائیرفورس نے معذرت کر لی کہ وہ جنگل کے اوپر مزید پرواز نہیںکرسکتے۔

آٹھ دن جہاز کے ملبے کے پاس گزارنے کے بعد دھیرے دھیرے ریسکیو کیے جانے کی امید دم توڑنے لگی تو انٹونیو نے اپنی مدد آپ کے تحت جنگل سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اندازے سے ایک سمت میں چلا لیکن کچھ دور پہنچ کر، شام سے پہلے ہی جہاز کے ملبے کے پاس واپس آ گیا۔ وہ تھکا ہوا تھا،کسی قدر نا امید بھی، پہلی بار قدرت کی بے رحمی سے ڈرا ہوا تھا۔ اس نے آٹھ دنوں میں پہلی بار خدا سے بات کی، اپنے خاندان سے دوبارہ ملانے کی التجا کی۔

اگلی صبح ، وہ ایک بار پھر جنگل میں مشرق کی جانب چل پڑا۔ اسے بہرحال چلنا ہی تھا کیونکہ یہاں ملبے کے پاس بیٹھے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ روزانہ قریباً 6 گھنٹے کا سفر کرتا۔ بعض مقامات پر وہ چاقو کی مدد سے درختوں کی شاخیں کاٹتے ہوئے اپنے لئے راستہ بناتا رہا اور آگے بڑھتا رہا ۔ شام سے پہلے رات گزارنے کی تیاری کرتا۔ سہ پہر3 بجے سے شام 5 بجے تک اپنے لیے حفاظتی پناہ گاہ تیار کرتا ۔ رات گزارنے کے لیے کسی محفوظ مگر اونچی جگہ کا انتخاب کرتا تا کہ کسی جانور کے ممکنہ حملے سے بچا جاسکے۔

وہ سونے کی جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے ایک باتکا ضروردھیان رکھتا کہ وہ پانی کے کسی ذخیرے سے دور رہے، صرف اسی صورت میں مچھوں اور اژدہوں کے حملے سے بچ سکتا تھا۔ وہ رات کو آگ جلا کر رکھتا تھا، اس کے لئے لکڑیاں اکٹھی کرنے میں بھی کافی وقت لگتا تھاکیونکہ وہ ایسے جنگل میں تھا جہاں ایک گھنٹے میں پانچ سینٹی میٹر بارش ریکارڈ کی جاتی ہے۔ بعض اوقات میں بارش دس ،دس گھنٹے تک مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ ایسے میں اس جنگل میں زندگی بسر کرنا کس قدر مشکل تھا ، بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال وہ اگلے کئی دن اسی انداز میں گزراتا رہا۔

سفر کے دوران میں چلتے ہوئے، انٹونیو منہ سے مختلف آوازیں نکالتا تاکہ اگر آس پاس کوئی جانور ہو تو وہ شور سن کے بھاگ جائے۔ اس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جنگلی جانوروں سے سامنے کے خوف کے علاوہ خوراک کی عدم دستیابی نے بھی اسے خوف زدہ کر رکھا تھا۔

جنگل میں موجود پھل یا پتے آنکھیں بند کرکے نہیں کھائے جاسکتے کیونکہ وہ زہریلے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ وہ جنگل کے بندروں کا مشاہدہ کرتا ۔ جو پھل بندر کھاتے ، وہی انٹونیو کھاتاکیونکہ اسے معلوم تھا کہ بندر زہریلے پھل نہیںکھا سکتے اور جو خوراک بندر ہضم کر سکتے ہیں وہ انسان بھی ہضم کر سکتے ہیں۔

جنگل میں قیام کے دوران میںانٹونیو سینا ’ نانڈو‘ کے انڈے خاص طور پر تلاش کرتا ۔ نانڈو اس جنگل میں پایا جانے والا ایک عام پرندہ ہے۔ یہ ٹرکی کی طرح ہوتا ہے ، یہ اڑتا نہیں ہے اور نیلے رنگ کے بڑے سائز کے انڈے دیتاہے جو کہیں نہ کہیں سے انٹونیو سینا کو مل جاتے تھے۔

آپ جانتے ہی ہیںکہ انڈوں میں پروٹین ہوتی ہے۔ انٹونیوکو اس وقت پروٹین کی سخت ضرورت تھی چنانچہ وہ انھیں کچا ہی کھا، پی لیتا تھا۔ یہ واحد چیز تھی جس نے اس کی پروٹین کی ضرورت کو کسی حد تک پورا کیا مگر ایسی کوئی بھی چیز اس کی بھوک کا علاج نہیں کرسکتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایمیزون میں36 شب و روز گزارنے کے دوران میں، اس نے27 کلومیٹر کا سفر کیا اور اس سفر کے دوران میں25 کلو وزن گنوایا۔ اسے ہاتھ اور ٹانگوں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی ۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا تھا لیکن زندہ رہنے کی خواہش اس کی ہمت بڑھاتی۔

دوسری طرف ماریانہ اور تھیاگو بے قرار تھے کہ انھیں انٹونیو کے بارے میں کچھ پتہ چلے کہ وہ زندہ ہے یا نہیںکیونکہ وہ شک و شبہ میں زندگی نہیںگزار سکتے تھے۔ ماریانہ نے خاندان کے باقی افراد کو مطلع رکھنے کے لئے ویڈیوز لگانا شروع کر دیں۔

جلد ہی پورا برازیل سینا کی واپسی کی راہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ انٹونیو کے دوستوں نے آن لائن فنڈز اکھٹے کرنا شروع کر دئیے تا کہ رضاکاروں کو انعام کا لالچ دے کر تلاش کا سلسلہ وسیع کیا جائے۔ اس سلسلے میں2400 امریکی ڈالر انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ ماریانہ اور تھیاگو دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش مگر پر امید تھے کیونکہ انٹونیو کی موت کے حوالے سے ان کے ہاتھ ابھی کوئی سراغ نہیں لگا تھا۔

ایمیزون میں خطرناک جنگلی حیات اور گھنے درختوں کی وجہ سے انسانی زندگی نا پید ہے۔صرف چند ایک قبائل کئی نسلوں سے وہاں آباد ہیں۔ انٹونیو سینا بھی اپنے پیدل سفر کے دوران کسی ایسے ہی قبیلے کی تلاش میں تھے جو اس کی جان بچا سکتا ۔36 ویں صبح جب انٹونیو کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ فاصلے پر سفید رنگ کا ایک جال نظر آیا ۔کچھ ہی دیر بعد انٹونیو کو چند لوگوں کا گروہ نظر آیا جو برازیل کے اس جنگل میں جال لگا کر خشک گری دار میوہ جات اکھٹے کر رہے تھے۔

چھتیس دن بعد انٹونیو نے کسی انسانی شکل کو دیکھا اور کسی انسانی آواز کو سنا تھا۔ اس گروہ کی سربراہی ماریہ جارج کر رہی تھی جس کی عمر67 برس تھی۔ عمومی طور پر جنگل کے اتنا اندر تک آ کر لوگ گری دار میوہ جات اکٹھے نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ کوئی محفوظ عمل نہیں ہوتا لیکن خاوند کی وفات کے بعد غیر معمولی قرضوں کے بوجھ نے ماریہ اور اس کے گھروالوںکو جنگل کے بہت اندر تک جانے اور کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسی سے انٹونیو کی خوش قسمتی پھوٹی۔ ماریہ نے فوری طور پر ریڈیو کے ذریعے اپنی بیٹی سے رابطہ کیا اور اسے انٹینیو کے خاندان سے رابطہ کرنے کو کہا ۔

ماریہ کی بیٹی کہتی ہے کہ انٹونیو سینا کے گھر والوں کو اس کے زندہ ہونے کا یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب انٹونیو ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے افراد سے بغل گیر ہورہا تھا۔ وہ اپنے خاندان والوںکو دیکھ کر شدت جذبات سے روپڑا۔ اس نے بتایا کہ اس سارے عرصہ میں جو چیز مجھے حوصلہ دیتی تھی اور بھوک میں بھی چلتے رہنے کی ہمت دیتی تھی، وہ مجھے اپنے گھر والوں سے دوبارہ ملنے کی خواہش تھی۔

وہ کہتا ہے:’ جب میں جنگل سے نکلا اوراپنے گھروالوں سے ایئر پورٹ پر ملا، یہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔ میں آخرکار انھیں گلے لگا سکتا تھا۔ انھیں بتا سکتا تھا کہ مجھے ان سے کتنا پیار ہے۔ میں نے یہ سب کچھ صرف ان کے لیے کیا ۔ میں ہر وقت ان ہی کا سوچتا رہتا تھا۔‘ دوسری طرف ماریانہ سوچ رہی تھی کہ انٹونیو سینا ایک بار پھر خود کو خطرے میں ڈال کر بچ نکلا۔

چند ماہ بعد انٹونیو ایک نئی مہم پر ایمیزون جنگل کے اندر تک جا پہنچا۔ وہ جنگل کے اس حصے میں پہنچا جہاں اس کا جہاز گرا تھا ، اس نے وہ تمام جگہیں دیکھیں ، جہاں وہ راتیں گزارتا رہا ، وہ اس خاندان سے بھی ملا جس سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس خاندان کا نہایت شکرگزار تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ماریانہ اور تھیاگو ( انٹونیو کے بھائی اور بہن ) سے نقد انعام لینے سے انکار کردیا تھا۔ انٹونیو نے ان کے ساتھ گروپ فوٹو بھی بنوائے۔ اب کی بار وہ اکیلا نہیں تھا ، چند دوست بھی تھے۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔