سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں بچے خطرناک بیماریوں کا شکار

آصف محمود  منگل 27 ستمبر 2022
جِلد اور پیٹ کے امراض سمیت مختلف بیماریاں بچوں پر حملہ آور ہیں۔

جِلد اور پیٹ کے امراض سمیت مختلف بیماریاں بچوں پر حملہ آور ہیں۔

 لاہور: پاکستان میں آنیوالے تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں بڑے پیمانے پرتباہی مچائی ہے اورسینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں وہیں اب متاثرہ علاقوں میں بچوں کے لئے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔

بچے خطرناک بیماریوں کاشکارہورہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ابتک سیلاب اوربارشوں سے 579 بچوں سمیت 1606 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال مون سون میں شدید بارشوں ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ، جن میں تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔

پنجاب کے ضلع راجن پورکی تحصیل روجھان سے تعلق رکھنے والے محمدابراہیم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہیں۔

ان کا گھرنواحی علاقے بستی لاشاری کے قریب ہے۔ ان کے چھ بچے تھے جن میں ایک پانچ سالہ کلیم اللہ بخار اورپیٹ کی بیماری کی وجہ سے چندروزقبل فوت ہوگیا ۔ انہوں نے اپنی بیوی اور تین چھوٹے بچوں کو واپس اپنی بستی میں بھیج دیا ہے جہاں پانی اترنے کے بعد لوگوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے تاہم وہ خود اپنے دوبڑے بچوں کے ساتھ یہاں خیمہ بستی میں ہی رہتے ہیں یہاں سے ملنے والی امداد لیکروہ بستی میں اپنے خاندان کو دیکر پھرواپس یہاں لوٹ آتے ہیں۔

محمدابراہیم نے بتایا ایک طرف توسیلاب نے ان کا گھر،فصلیں تباہ کردیں، ان کی زندگی بھرکی جمع پونجی ضائع ہوگئی اوردوسری طرف بیماری کی وجہ سے ان کا بیٹا بھی ان سے جداہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں مختلف خیمہ بستیوں میں کئی بچے فوت ہوچکے ہیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو یہاں ان علاقوں میں ہی دفن کرناپڑا ہے کیونکہ ہماری بستی کاقبرستان پانی میں ڈوب چکا ہے۔ انہوں نے بتایا یہ سرکاری ڈاکٹربھی آتے ہیں اور مختلف این جی اوز کے لوگ بھی وزٹ کرتے ہیں ، وہ دوائی دیتے ہیں۔ اب بھی ان کی دوبیٹیوں کو بخارہے، ڈاکٹرنے کہا ملیریا ہے چند دنوں میں اترجائیگا۔ میں نے بیٹیوں کو واپس بستی میں بھیج دیا ہے وہاں ان کی دیکھ بھال کریں گے۔

سیلاب زدہ علاقوں میں لگائےگئے امدادی کیمپوں میں مقیم بچے جلدی امراض، پیٹ کے امراض کے علاوہ ملیریا اور ڈائریا جیسی خطرناک بیماریوں شکار ہورہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں طبی خدمات سرانجام دینے والی فلاحی میڈیکل ٹیم کے ڈاکٹر محمد عثمان نے بتایا جِلد اور پیٹ کے امراض سمیت مختلف بیماریاں بچوں پر حملہ آور ہیں۔

بڑوں کے مقابلے میں بچوں میں قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے ان کی ہلاکتوں کا خدشہ بھی زیادہ ہے۔ تقریبا دس لاکھ کے قریب ایسے بچے ہیں جو پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے امراض گردہ میں مبتلا ہیں۔ خیمہ بستیوں میں مقیم ہردوسرا بچہ بخارمیں مبتلاہے۔ کسی کو ملیریا ہے توکوئی ڈینگی کاشکارہے۔ اس کے علاوہ بچے پیٹ کی بیماریوں کا شکارہیں۔ کئی بچوں کو سانپ سمیت زہریلے کیڑوں نے کاٹ لیاہے۔

طبی ماہرین کے مطابق آفات زدہ علاقوں میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔اس سیلاب نے پہلے ہی بچوں اور ان کے خاندانوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے اوراب صورت حال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ حکومت سمیت عالمی اداروں،غیرسرکاری تنظیموں کو مل کراس بات کو یقینی بناناہوگا کہ متاثرہ بچوں کو جلد از جلد ضروری امداد مل سکے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی بچوں کے حقوق کی کارکن راشدہ قریشی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں سیلاب نے جہاں بچوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلاکردیا ہے وہیں ان کے دل ودماغ پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، بچے ڈرے اورسہمے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہ تھی کہ ان بچوں کا ڈر اورخوف دورکیا جائے۔ اس کے لئے ہم نے مختلف خیمہ بستیوں میں بچوں کے ساتھ سرگرمیاں کی ہیں، ان میں خوراک کے ساتھ ساتھ کھلونے تقسیم کئے ہیں۔ بچوں کو خود کی حفاظت بارے آگاہ کیا ہے۔ کیونکہ ان خیمہ بستیوں میں روزانہ سینکڑوں لوگ وزٹ کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ خطرات ہیں کہ کوئی ان بچوں کو اغواکرسکتا ہے یا پھربچوں کی جنسی زیادتی کانشانہ بنایاجاسکتا ہے۔

راشدہ قریشی نے مزید کہا وہ اپنے ساتھ ایک جادوگربھی لیکر گئے تھے جس نے بچوں کو مختلف جادوئی ٹرکس کرکے دکھائے توان غمزدہ بچوں کے چہروں پرمسکراہٹیں پھیل گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔