300 یونٹ بجلی مفت

سید عاصم محمود  اتوار 2 اکتوبر 2022
بھارت کا ایک عوام دوست لیڈر کیونکر لاکھوں لوگوں کو مفت بجلی فراہم کر رہا ہے …سبق آموز اور دلچسپ داستان ۔  فوٹو : فائل

بھارت کا ایک عوام دوست لیڈر کیونکر لاکھوں لوگوں کو مفت بجلی فراہم کر رہا ہے …سبق آموز اور دلچسپ داستان ۔ فوٹو : فائل

مہنگائی کے اس دور میں شاید یہ ہوائی بات لگے مگر یہ حقیقت ہے۔

بھارتی ریاست پنجاب کی حکومت 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کر رہی ہے۔اس عوام دوست سرکاری اسکیم سے ریاست کے لاکھوں گھرانے مستفید ہو رہے ہیں جن کا تعلق نچلے اور متوسط طبقوں سے ہے۔غریبوں کو سہولت پہنچانے والے اس عمدہ منصوبے کے خالق عاپ (عام آدمی پارٹی)کے بانی، اروند کیجروال ہیں۔

رشوت ستانی کا بازار

اروند کیجروال بھارتی دارالحکومت، دہلی کے سرکاری افسر تھے۔اچھا کما اور کھا رہے تھے۔مگر جب انھوں نے سرکاری محکموں میں رشوت ستانی کا بازار گرم دیکھا تو اپنی ملازمت سے متنفر ہو بیٹھے۔سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا اور میدان سیاست میں داخل ہو گئے۔

وہ حکومت سنبھال کر سرکاری محکموں میں جاری وساری رشوت خوری ختم کرنا چاہتے تھے جسے ہر ملک میں ترقی و تعمیر اور غریبوں کی سب سے بڑی دشمن سمجھا جاتا ہے۔آج جو ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں، وہ اسی لیے اس بلند درجے تک پہنچے کہ وہاں کا حکمران طبقہ مملکت میں قانون و انصاف کو طاقتور بنا کے رشوت ستانی ختم کرنے میں کامیاب رہا۔

عوام کا خادم اور خدمت گذار‘

رشوت ستانی کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے کیجروال نے 2012ء میں عاپ کی بنیاد رکھی۔اس جماعت کو اہل دہلی نے پذیرائی بخشی جو تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔کیجروال 2015ء سے وزیراعلی دہلی چلے آ رہے ہیں۔

وہ اپنے آپ کو حکمران اور سیاست داں نہیں ’’عوام کا خادم اور خدمت گزار‘‘کہتے ہیں۔ان کا سات سالہ دور حکمرانی گواہ ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے کہے پہ پورا اترے۔وزیراعلی دہلی بنتے ہی پہلے تو انھوں نے سرکاری محکموں سے رشوت خوری کی لعنت ختم کرنے کے لیے زوردار مہم چلائی جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی۔پھرعوام کی فلاح وبہبود کے کئی منصوبے شروع کر دئیے۔انہی میں ایک اہم منصوبہ یہ تھا کہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے اہل دہلی کو بجلی مفت دی جائے۔

 عوام دوست گورنمنٹ

نئی دہلی میں کیجروال حکومت پچھلے پانچ سال سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت دے رہی ہے۔ان سے کسی قسم کا ٹیکس حتی کہ میٹر کا کرایہ بھی نہیں لیا جاتا۔یہ سہولت پا کر بھارتی دارالحکومت کے لاکھوں کم آمدن والے شہری بہت خوش ہیں۔وہ زیادہ بل آنے کا خوف کیے بغیر گرمیوں میں پنکھا چلاتے اور ہوا پا کر کیجروال کو دعائیں دیتے ہیں۔یہی نہیں ،جو شہری 201 سے 400 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں، انھیں بھی ’’پچاس فیصد‘‘رعایت دی جاتی ہے۔

درج بالا سچائی سے آشکارا ہے کہ کیجروال حکومت صحیح معنوں میں عوام دوست گورنمنٹ ہے۔فی الوقت دہلی کے 27 لاکھ 70 ہزار گھرانے مفت بجلی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جبکہ 201 تا 400 یونٹ بجلی برتنے والے 15 لاکھ 50 ہزار گھرانوں کو پچاس فیصد رعایت ملتی ہے۔دور جدید میں مہنگی بجلی مفت یا سستی مل جانا غریب و کم آمدن والے طبقوں کے لیے بہت بڑا ریلیف ہے۔

فلاحی اقدمات

یہ ہے ایک آئیڈیل فلاحی حکومت جس کے حکمران عوام کے مسائل اور تکالیف کا احساس کرتے ہوئے انھیں ہر ممکن مدد دینے کی سعی کرتے ہیں۔کیجروال حکومت نے نچلے اور متوسط طبقات کی بہتری کے لیے جو فلاحی اقدمات کیے ، ان کا مختصر ذکر خیر پیش ہے:

٭تعلیم …کیجروال نے وزیراعلی بن کر سرکاری اسکولوں کی حالت ِزار پہ توجہ دی اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔انھوں نے اسکولوں میں تعلیم کی سبھی جدید ترین سہولتیں مہیا کیں اور انھیں مہنگے نجی تعلیمی اداروں کے ہم پلّہ بنا دیا۔اس طرح ایک غریب کا بچہ بھی اعلی اور معیاری تعلیم حاصل کرنے لگا۔

قابل ذکر بات یہ کہ کیجروال نے اپنے بچے بھی انہی سرکاری اسکولوںمیںداخل کرائے اور ایک حقیقی عوامی رہنما ہونے کا ثبوت دیا۔ وزیراعلی دہلی کے بچے سرکاری اسکول میں مزدور ومحنت کشوں کے بچوں کی معیت میں تعلیم پاتے ہیں۔یہ اقدام وہی عوام دوست اور دلیر حکمران کر سکتے ہیں جن کا جینا مرنا اپنے وطن میں ہو۔ان کی دولت، اثاثے اور جائیدادیں بیرون ممالک میں نہ ہوں۔

عاپ حکومت نے 2015ء سے 2021ء کے دوران دہلی ریاست کے سرکاری اسکولوں کی حالت سدھارنے کے لیے ’’آٹھ سو ارب روپے‘‘خرچ کیے جو زر کثیر ہے۔ حکومت نے غریب طلباء و طالبات کے لیے بلا سود قرضوں کا اجرا کیا تاکہ مالی مسئلہ ان کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بن سکے۔اس اسکیم کے تحت کوئی بھی طالب علم دس لاکھ روپے تک کا قرض لے سکتا ہے۔سرکاری اسکولوں میں بیس ہزار نئی کلاسوں کا اضافہ کیا گیا۔

فی الوقت یہ اسکول اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں۔لہذا عاپ حکومت نے سرکاری استاد کی تنخواہ اچھی خاصی بڑھا دی تاکہ نجی اسکولوں سے اساتذہ آ سکیں۔آج سرکاری اسکولوں سے نکلے کئی طالب علم اعلی عہدوں پہ فائز ہیں۔غریب طبقے کے لیے یہ سرکاری اسکول کیجروال کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہے کیونکہ وہ ان کی زندگیوں میں انقلاب لا رہے ہیں۔

٭صحت…دہلی حکومت سنبھالتے ہی اروند کیجروال نے شہریوں کو صحت کی سہولتیں بھی بہم پہنچائیں۔ انھوں نے سب سے پہلے پانچ سو سے زائد ’’محلہ کلینک‘‘قائم کیے جہاں ہر شہری کو تشخیص، علاج، ادویّہ اور دو سو سے زیادہ ٹیسٹوں کی مفت خدمات فراہم کی گئیں۔پھر تین نئے سرکاری اسپتال قائم کیے۔نیز پہلے سے موجود سرکاری اسپتالوں کو توسیع دے کر وہاں بیس ہزار نئے بستروں کا اضافہ کیا۔ان اسپتالوں میں غریبوں کا ہر قسم کا علاج مفت ہوتا ہے۔

کیجروال حکومت نے سرکاری ایمبولینسوں کی تعداد دگنی کر دی۔پولی کلینک کا نظام بھی بہتر بنایا۔2015ء میں ریاستی حکومت شعبہ صحت پر دو ہزار کروڑ روپے سالانہ خرچ کر رہی تھی۔کیجروال نے یہ بجٹ اب دس ہزار کروڑ روپے تک پہنچا دیا ہے۔

ان کا عزم یہ ہے کہ ہر ایک کلومیٹر کے قطر میں ایک محلہ کلینک کھل جائے تاکہ ہر شہری کو آسانی سے علاج کی سہولت مہیا ہو سکے۔چند برس قبل عاپ حکومت نے ’’مفت سرجری اسکیم‘‘بھی متعارف کرائی۔اس اسکیم کے تحت ریاست کے باشندے 1061 مختلف اقسام کی سرجریاں مفت کرا سکتے ہیں۔

٭دیگر عوام دوست اقدامات…کیجراول نے حکومت بناتے ہی بوڑھوں اور معذروں کی پنشنوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔اسی طرح کم از کم تنخواہ بھی بڑھا دی گئی۔غریبوں کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کے لیے بلا سود قرضوں کا پروگرام شروع کیا گیا۔

عوام کو مفت پانی دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔اس کے تحت ہر شہری کو 20ہزار لیٹر پانی ہر ماہ مفت ملتا ہے۔خواتین کے لیے ایک انوکھی اسکیم شروع کی گئی۔اس کی رو سے خواتین دہلی بھر میں سرکاری بسوں میں مفت سفر کر سکتی ہیں۔

ایک منصوبہ ضیعف مردوخواتین کے لیے بنایا گیا۔اس کے تحت اگر وہ کسی مذہبی مقام پہ جانا چاہیں تو سفر کے تمام اخراجات دہلی گورنمنٹ برداشت کرتی ہے۔کیجروال حکومت غریبوں کے لیے ایک لاکھ مکان تعمیر کر چکی۔نیز کھیل کے نئے پچاس میدان بنائے گئے۔

صرف ایک قابل لیڈر!

اروند کیجروال کی مثال سے عیاں ہے کہ محض ایک انسان…ایک قابل، محنتی،مخلص اور عوام دوست حکمران بھی پورے کرپٹ نظام کو بدلنے کی طاقت وصلاحیت رکھتا ہے۔بس تبدیلی لانے کا عزم ہونا چاہیے اور نیک نیتی بھی۔اس موقع پہ قدرتاً یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیجروال حکومت نے عوام کی فلاح وبہبود کے جو منصوبے شروع کیے، ان کے لیے بھاری رقم کہاں سے آئی؟

سوال کا جواب آسان ہے۔ہوا یہ کہ جب کیجروال نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے رشوت ستانی کے سلسلے میں ’’زیرو ٹالرینس‘‘کی پالیسی اپنا لی۔یعنی ریاستی حکومت کا جو افسر یا کارندہ رشوت خوری میں ملوث نکلا، اسے فوراً ملازمت سے نکال دیا جاتا۔نیز انھوں نے رشوت لینے دینے کے سبھی چور دروازے بند کر دئیے۔

سرکاری محکموں میں رشوت ستانی کے خلاف زوردار مہم چلانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سرکاری خزانے میں آنے والی جو کثیر رقم افسر آپس میں مل بانٹ لیتے تھے،وہ اب اپنی منزل پر پہنچنے لگی۔اس طرح حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔

 اوپر والا اسے سلامت رکھے

کیجروال نے فیصلہ کیا کہ یہ رقم امرا کو گرانٹس دینے کے بجائے غریبوں کے منصوبوں پہ خرچ کی جائے۔اس طرح غریب کے لیے نئی اسکیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں 200 یونٹ بجلی مفت دینے اور علاج مفت کرانے کی عمدہ اسکیمیں بھی شامل تھیں۔دونوں خرچے اب غریب کے واسطے حکومت خود برداشت کرنے لگی۔عاپ حکومت کے منصوبوں کو نچلے و متوسط طبقات میں بہت مقبولیت ملی۔غریب اٹھتے بیٹھتے کیجروال کو دعائیں دینے لگے کہ اوپر والا اسے سلامت رکھے۔اور وہ یونہی رشوت ستانی کے خلاف جھاڑو چلاتا رہے۔(یاد رہے، عاپ کا انتخابی نشان جھاڑو ہے)

پنجاب میں مہم

جون 2021ء سے اروند کیجروال اور ان کے ساتھی ریاست پنجاب میں انتخابی مہم چلانے لگے جہاں فروری 22ء میں الیکشن ہونے تھے۔الیکشن 2017ء میں عاپ پنجاب کی 117 نشستوں میں سے بیس نشتیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔اب کیجروال کو یقین تھا کہ دہلی حکومت کے عوام دوست ماڈل سے متاثر ہو کر اہل پنجاب انھیں بڑی تعداد میں ووٹ دے سکتے ہیں۔

انھوں نے ٹکٹ بھی ایسے امیدواروں کو دئیے جو نچلے یا متوسط طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔اسی انتخابی مہم کے دوران کیجروال نے اہل پنجاب سے وعدہ کیا کہ اگر ریاست میں عاپ حکومت آ گئی تو 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو بجلی مفت دی جائے گی۔ایک جلسے میں کیجروال نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں بجلی کیوں مہنگی ہے۔انھوں نے کہا:

’’پنجاب میں دس ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہوتی ہے۔مگر شہریوں کو یہ بجلی بہت مہنگی ملتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔یہ کرپٹ لوگ بجلی سستی بنا کر عوام کو مہنگی بیچتے ہیں۔جو زیادہ رقم موصول ہو، وہ آپس میں مل بانٹ لی جاتی ہے۔ہم برسراقتدار آ کر بجلی کی یہ کرپشن اور بندربانٹ ختم کر دیں گے۔اور غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بجلی مفت دیں گے۔‘‘

یہ واضح رہے کہ بھارت کے آئین کی رو سے شہریوں کو بجلی فراہم کرنا ریاستی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔اسی باعث ریاستی حکومتیں ہی اپنے شہریوں کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔ہر ریاست نے ریاستی محکمہ بجلی و توانائی بنا رکھا ہے جو مطلوبہ بجلی کا بندوبست کرتا ہے۔وہ نئے بجلی گھر قائم کرتا اور بجلی کی تقسیم کے سبھی معاملات دیکھتا ہے۔اگر ایک ریاست کو اپنے وسائل سے مطلوبہ بجلی نہیں مل رہی تو وہ دیگر ریاستوں سے بجلی خرید سکتی ہے۔

جیت مل گئی

اروند کیجروال کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔پنجاب کے ووٹر بھی دہلی جیسا حکمرانی کا عوام دوست ماڈل چاہتے تھے۔چناں چہ انھوں نے الیکشن فروری 22ء میں عاپ کے 192 امیدوار کامیاب کرا دئیے۔یوں پنجاب اسمبلی میں فیصلہ کن برتری پا کر عاپ نے حکومت قائم کر لی۔کیجروال نے ایک سابق مزاحیہ اداکار، بھگوت مان کو وزیراعلی بنا دیا۔

نئی حکومت کے عوامی ا قدام

حکومت سنبھالتے ہی بھگوت مان نے کیجروال کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے رشوت ستانی کے خلاف سرگرمی سے جہاد شروع کر دیا۔حکومت نے شہریوں کو ایک فون نمبر فراہم کیا جس پہ کوئی بھی کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف شکایت درج کرا سکتا تھا۔اس نمبر کو پنجاب میں بہت شہرت ملی۔پہلے عوام کا خیال تھا کہ انسداد رشوت ستانی محض عاپ کا نمائشی نعرہ ہے۔مگر جب کرپٹ سرکاری افسروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونے لگی تو عام آدمی کو پتا چلا کہ حکومت پنجاب واقعی سنجیدہ ہے۔

کرپشن مٹاؤ مہم کو مزید تقویت تب ملی جب حکومت کے اینٹی کرپشن اسکواڈ نے اپنے ہی وزیر صحت ، وجے شکلا کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔وہ ایک پروجیکٹ میں ’’1 فیصد‘‘کمیشن مانگ رہا تھا۔وزیر صحت کی گرفتاری سے سبھی عیاں ہو گیا کہ عاپ حکومت اپنے ہی کرپٹ لیڈروں کو بھی نہیں چھوڑے گی۔چناں چہ اب پنجاب میں ہائی پروفائل اور بڑے طاقتور سرکاری افسروں ، سیاست دانوں اور سابق فوجی افسروں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں۔جبکہ دو سو سے زائد ایف آئی آر کاٹی جا چکیں۔

نئے وزیراعلی نے سابق وزرا و ارکان اسمبلی کی سیکورٹی پہ مامور سپاہی بھی واپس تھانوں میں تعنیات کر دئیے۔اس طرح انھوں نے وی وی آئی پی کلچر کو کاری ضرب لگائی۔ان کا کہنا ہے:’’پولیس کا کام وی آئی پی شخصیات نہیں عوام کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘

بھگوت مان نے ریاستی محکمہ تعلیم میں کرتے ہزارہا عارضی اساتذہ کو مستقل کر دیا۔نیز سرکاری محکموں میں 25 ہزار نئی ملازمتیں دینے کا اعلان کیا۔نجی تعلیمی اداروں کو انتباہ کیا گیا کہ وہ اپنی فیسوں میں قطعاً اضافہ نہ کریں۔اسی طرح ریاست بھر میں محلہ کلینک کھولے جا رہے ہیں۔ریاست میں سرکاری بسیں چلائی جا رہی ہیں جن کا کرایہ نجی بسوں کے مقابلے میں آدھا ہے۔جن کسانوں کی فصلیں خراب ہو گئی تھیں، انھیں ایک ہزار کروڑ روپے ہرجانہ دیا گیا۔غرض پنجاب میں عاپ حکومت عوام کی فلاح وبہبود پر بھاری رقم خرچ کر رہی ہے۔

اپوزیشن بھی نقش قدم پر

ہماچل پردیش میں مودی کی بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی)برسراقتدار ہے۔رواں سال کے آخر میں وہاں بھی الیکشن ہے۔کچھ عرصہ قبل ہماچل پردیش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیجروال نے اعلان کیا تھا کہ اگر عاپ نے ریاست میں حکومت سنبھالی تو ہر شہری کو ۳۰۰ یونٹ بجلی مفت ملے گی۔نیز ہر خاتون کو ایک ہزار روپے گذارہ الاؤنس دیا جائے گا۔عاپ کی دیکھی کانگریس اور بی جے پی عوام کو سہولیات دینے کے اعلان کرنے لگیں۔بلکہ حکمران جماعت، بی جے پی 150 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے لگی۔

ماہرین معاشیات کا دعوی ہے کہ عوام کو سرکاری خدمات میں سبسڈی دی جائے تو حکومتیں قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔یہ بات کسی حد تک درست ہے۔مگر کیجروال کی دہلی حکومت پہ قرضوں کا کوئی بوجھ نہیں۔اسی طرح پنجاب حکومت بھی اخراجات اور آمدن میں توازن رکھنے میں کامیاب رہی۔

سوال یہ ہے، کیجروال کے پاس کون سی گیدڑسنگھی ہے کہ وہ عوام کو مختلف طریقوں سے بھاری سبسڈی دے رہے ہیں اور ان کی حکومتیں قرضوں کے جال میں نہیں پھنستیں۔ جواب یہی کہ گڈگورنس کے ذریعے اور کرپشن پہ قابو سے کیجروال اس قابل ہو گئے کہ عوام دوست پروگرام شروع کرنے کی رقم پا سکیں۔

مودی حکومت کو خطرہ

عاپ اور اروند کیجروال پہ طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں۔عاپ کے بعض وزیر مالی بدعنوانی کے کیسوں میں ملوث بھی پائے گئے۔مگر مجموعی طور پہ کیجروال اور عاپ کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔اسی لیے پارٹی کو اب دیگر ریاستوں میں بھی مقبولیت مل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں عاپ قومی سطح کی سیاسی جماعت بن کر بی جے پی کو مشکلات میں گرفتار کرا سکتی ہے۔الیکشن 24ء میں خصوصاً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اتحاد کر لیا تو مودی حکومت کا خاتمہ ممکن ہے۔

ٹیکسوں کی بھرمار

بدقسمتی سے پاکستان میں عاپ جیسی کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں جسے خاص طور پر غریبوں کی فلاح وبہبود کا خیال ہو۔پی ٹی آئی سے امید بندھی تھی اور اس نے عوام دوست منصوبے شروع بھی کیے مگر بنیادی حکمت عملی ناکام ہونے کے سبب عمران خان کی غربت مٹاؤ کوششوں پر پانی پھر گیا۔

انھوں نے اقتدار سنبھال کر یہ حکمت عملی اپنائی کہ قرضے اور سود ادا کرنے کی غرض سے رقم پانے کے لیے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی لگائے۔اس عمل نے مگر پاکستان میں مہنگائی کی لہر پیدا کر دی جس پہ پی ٹی آئی حکومت قابو نہ پاسکی۔یہی نہیں ، اس کے دور میں قرضے بھی بے حساب لیے گئے۔یوں پاکستان مذید قرضوں تلے دب گیا۔

پی ڈی ایم حکومت آئی تو اس نے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کو برقرار رکھا۔بلکہ آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر پانے کی خاطر خوراک، ایندھن اور عام استعمال کی دیگر اشیا پہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی لگائے۔پی ٹی آئی حکومت عوام کو جو سبسڈیاں دے رہی تھیں، وہ ختم کر دی گئیں۔اس حکمت عملی نے پاکستان میں خصوصاً اشیائے خور ونوش اور ایندھن کی قیمتیں بڑھا دیں۔اور اسی عمل سے مذید مہنگائی نے جنم لیا۔

دھوکے بازی

بجلی کے بلوں میں جب نت نئے ٹیکس لگانے کی وجہ سے بہت اضافہ ہوا تو عوام چیخ اٹھے۔تب وزیراعظم شہباز شریف نے 300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج نامی ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا۔تاہم پھر یہ خبر آئی کہ حکومت اقساط میں ٹیکس موصول کرے گی۔کیا یہ ایک قسم کی دھوکے بازی نہیں؟ہمارے پڑوس میں تو ریاستیں غریبوں کو مفت بجلی فراہم کررہی ہیں اور پاکستان میں حکومت نے مختلف حربے آزما کر نہ صرف بجلی مہنگی سے مہنگی تر کر دی بلکہ غریبوں کو بھی بخشنے کے لیے تیّار نہیں۔

صرف اپنے مفادات کی تکمیل

پاکستانی حکمران طبقے کی روش سے آشکارا ہے کہ اسے بس یہ فکر وپریشانی ہے ، اس نے جو شاہانہ طرز ِزندگی اور تام جھام اختیار کر لیا ہے، وہ ہر قیمت پر برقرار رہے۔اس کو زندہ رکھنے کے لیے اسے مطلوبہ رقم مل جائے چاہے آئی ایم ایف اور غیر ملکی سربراہوں کے سامنے بھیک ہی مانگنا پڑے۔یا پھر یہ رقم پاکستانی عوام کا لہو نچوڑ کر حاصل کی جائے۔اس سے حکمران طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتا،وہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے۔

پاکستان کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ مسلمانانِ ہندوستان اکثریتی ہندوؤں کی گرفت سے نکل کر مذہبی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پہ آزاد ہو سکیں۔پاکستانی عوام کو مذہبی آزادی تو مل گئی مگر بقیہ آزادیاں نہ مل سکیں۔پہلے انگریز اور بنیے ہندو آقا تھے، اب دیسی لیڈر سامنے آ گئے جو امریکی آقاؤں کے اشاروں پہ چلتے ہیں تاکہ انھیں ڈالروں کی فراہمی جاری رہے۔

قرضوں کا بوجھ

ماہرین معاشیات کے مطابق فی الوقت ایف بی آر ٹیکسوں کے ذریعے جو رقم حاصل کرتا ہے، اس کا 90 فیصد صرف تین شعبوں…سود دینے و قرضے اتارنے، دفاع اور مختلف کارٹلز کو گرانٹس دینے پہ خرچ ہو جاتا ہے۔بقیہ 10 فیصد رقم حکمران طبقہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے۔یوں عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی خاطر حکومت کے پاس معمولی رقم بچتی ہے۔یہ بڑا خوفناک مذاق ہے جو حکمران طبقے نے عوام کے ساتھ کیا۔پچھلے ستر سال میں پاکستانی حکومت کو جو قرضے ملے، ان کا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہو گیا۔یہی وجہ ہے،عوام ِپاکستان کی حالت درست نہ ہو سکی اور وہ آج بھی غربت، جہالت اور بیماری کے اسیر ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کے ناتواں کاندھوں پہ بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا تاکہ حکمران طبقے کا شاہانہ چلن زندگی برقرار رہے۔

پاکستان میں بجلی مہنگی کیوں؟

آج پوری دنیا کی حکومتیں جان چکیں کہ تیل اگلے تیس چالیس سال میں ختم ہو جائے گا۔لہذا بجلی مستقبل کا ایندھن ہے۔اسی لیے وہ قابل تجدید ذرائع سے بجلی بنانے کے پروجیکٹ بنا رہی ہیں۔ہمارے پڑوسی، بھارت کو ہی لیجیے۔آج وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پانی، دھوپ اور ہوا وغیرہ کی مدد سے بنا رہا ہے۔

درست کہ پاکستان کا رقبہ کم ہے مگر ماہرین کی رو سے وہ بھی قابل تجدید ذرائع سے کم ازکم پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔مگر ہمارے ارباب اختیار نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کیونکہ حکمران طبقے کی اکثر اولاد بیرون ممالک جا بستی ہے۔لہذا پاکستان اپنی ساٹھ تا ستر فیصد بجلی مہنگے رکازی ایندھن سے بناتا ہے۔اور اسی لیے پاکستان میں بجلی مہنگی ہے جس نے پاکستانی معاشرے میں ہلچل مچا دی۔

پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو حکومت آئے، اپوزیشن اس کے خلاف محاذ بنا لیتی ہے اور اسے کام نہیں کرنے دیتی۔چناں چہ وزیراعظم سے لے کر وزرا تک، سبھی کی پیشتر توانائی اپنی کرسیاں بچانے پر صرف ہوتی ہے۔اگر کوئی نیک نیتی سے ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہے تو معاندانہ ومنفی ماحول میں نہیں کر پاتا۔سیاسی جماعتوں کی ان باہمی لڑائیوں نے بھی پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔کیونکہ مضبوط حکومت کی عدم موجودگی میں گڈ گورنس نہ ہو پائی اور ریاست ترقی نہیں کر سکی۔

تھر کے کوئلے کا معاملہ ہی لیجیے۔تیس چالیس سال پہلے ہمارا حکمران طبقہ جان گیا تھا کہ تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔مگر یہ کوئلہ نکالنے کے لیے نہ کوئی ٹکنالوجی حاصل کی گئی اور نہ کسی قسم کا انفراسٹرکچر کھڑا کیا گیا۔حالانکہ 1984ء سے قوم پہ لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہونے لگا تھا۔حکمران طبقہ دوراندیش اور قابل ہوتا تو اسی وقت کوئلہ نکالنے کی کوششیں شروع کر دیتا۔آج بھی صرف 650 میگاواٹ بجلی تھر کے کوئلے سے بن رہی ہے۔

حکومت نے چند ماہ میں یہ عدد 2 ہزار میگاواٹ پہنچنے کی نوید سنائی ہے۔مگر یہ اب بھی بہت کم ہے۔پاکستان چاہے تو اپنی ساری مطلوبہ بجلی تھر کے کوئلے سے بنا سکتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کوئلہ اگلے دو سو برس تک پچاس ہزار سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے۔پھر بھی حکمرانوں کی توجہ انتہائی مہنگے درآمدی تیل وگیس پہ مرکوز ہے۔آخر وجہ کیا ہے؟

ڈیموں میں بنی آبی بجلی کے بعد مقامی کوئلے سے بنی بجلی ہی سستی پڑتی ہے۔اس کا فی یونٹ گیارہ بارہ روپے میں پڑتا ہے۔جبکہ درآمدی ایندھن سے بنی بجلی تیس پنتیس روپے میں بن رہی ہے۔جب اس رقم میں حکومت کے عائد کردہ مختلف ٹیکس شامل ہو جائیں تو فی یونٹ قیمت ساٹھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

درآمدی ایندھن سے بنی مہنگی بجلی ہی نے نہ صرف غریبوں کو پریشان کر ڈالا بلکہ قومی معشیت کا بھی بیڑا غرق کر دیا۔عوام کے احتجاج پہ حکمران طبقے کو ہوش آیا۔مگر اب بھی شمسی و ہوائی تونائی سے بجلی بنانے کی ’’باتیں‘‘ہو رہی ہیں جو خاصی مہنگی ہو گی۔اب بھی تھر کے کوئلے پر توجہ مرکوز نہیں جس سے سستی بجلی بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔