سمجھدار ماں اور مخلص استاد، ایک روشن مستقبل

حرا احمد  بدھ 28 ستمبر 2022
قوم کی مائیں اور اساتذہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کریں۔ (فوٹو: فائل)

قوم کی مائیں اور اساتذہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کریں۔ (فوٹو: فائل)

مشہور سپہ سالار نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا ’’اگر تم مجھے ایک اچھی ماں دو گے تو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا‘‘۔ ماں بچے کی سب سے پہلی درس گاہ ہے۔ اگر ماں سمجھدار، باشعور اور پڑھی لکھی ہوگی تو وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی بہترین انداز میں کرسکے گی۔ اسی طرح ایک استاد کو روحانی باپ کہا جاتا ہے۔ اگر ایک استاد اپنے شعبہ میں ایماندار ہوگا تو اس ملک کے بچے باتمیزاور باشعور ہوں گے اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گے۔ لیکن افسوس کہ آج نہ تو ہم ایک اچھی ماں کے درجے پر پورا اتر رہے ہیں اور نہ ہی ایک اچھے استاد کے درجے پر۔

آج کے والدین بچوں کو استاد کی عزت کروانے کے بجائے استاد کو بچوں کے سامنے چھوٹا بنا رہے ہیں۔ استاد کی عزت کرنا تو دور، اس کی بات سننا یا سمجھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مارنا تو الگ، اگر استاد ڈانٹ دے تب بھی آج کل کے والدین اس حد تک استاد پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ استاد کا اس باعزت شعبے میں پڑھانا ہی مشکل نظر آتا ہے۔ جہاں والدین بچوں کو ادب و احترام سے محروم کرتے جارہے ہیں، وہیں تعلیم کا شعبہ بھی خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔

جان واٹسن کے الفاظ تھے ’’مجھے ایک درجن تندرست بچے دو اور مجھے یہ اختیار دو کہ میں ان کی اپنی خاص دنیا میں تربیت اور پرورش کرسکوں تو میں ان بچوں کو کسی بھی شعبے میں ماہر بنا سکتا ہوں، پھر چاہے وہ ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، فنکار ہو، سوداگر ہو یا بھکاری ہو‘‘۔

جان واٹسن کے ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کسی بھی بچے کی زندگی میں ماں باپ، استاد اور اس کا ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی اگر کسی بھی بچے کو بہترین ماحول اور شاندار تعلیم و تربیت دی جائے تو اسے ایک نایاب اور قیمتی ہیرا بنایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی بچے کی زندگی میں اس کی ماں اور اس کے استاد کا کردار بہت ہی کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

آج کل کی ماں ٹیکنالوجی کے ساتھ خود بھی ماڈرن ہوگئی ہے۔ بچوں کو اچھی تربیت دینا تو دور کی بات، آج کی ماں کے پاس بچوں کو دینے کےلیے وقت ہی نہیں۔ بچے اچھے اور بڑے اداروں میں پڑھنے کے باوجود بھی تمیز و تہذیب سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ آج کل کی ماں بچوں کی جسمانی ضرورتوں کا تو خیال رکھتی ہے لیکن روحانی ضروریات کو پورا کرنا، ان کی اخلاقی قدروں کا خیال رکھنا اس کے بس کی بات نہیں رہی۔ ماں وہ نہیں ہوتی جو بچوں کی مادی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرے بلکہ ماں تو وہ ہوتی ہے جس کی گود میں دکھ سکھ، تکلیف اور مصیبت میں سر رکھا جائے۔ جو بچے کی حقیقی درس گاہ ہو۔ جو اسے پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک باتمیز اور مہذب انسان بنائے۔ اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی بھی حفاظت کرے۔

بالکل اسی طرح اگر بچے کی جسمانی صحت کی ذمے داری ماں کی ہے تو اس کی ذہنی اور روحانی صحت کی ذمے داری استاد کی ہے۔ بچے کا ذہن مثبت یا منفی، کب کیا سیکھ رہا ہے، اس کی بھاری ذمے داری استاد کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ استاد کا رویہ ہمدرد اور مددگار ہوگا تو بچے کے سیکھنے کا عمل بھی تیز ہوگا۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب ہوتا جائے گا۔ اس لیے استاد کو چاہیے کہ ایک ایسا نظام تعلیم تشکیل دیں جو ہماری نئی نسل کے اندر تخلیقی فکر کو اچھی طرح پروان چڑھانے کی تمام خوبیاں رکھتا ہو۔

ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو بچوں کو معلومات تو فراہم کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچے کو اس قابل بنائے کہ وہ اس علم سے خود فائدہ اٹھا سکے۔ کیونکہ علم و آگاہی سے میسر آنے والی وسعت نظری ہمیں اعلیٰ اور ارفع مقاصد کی جانب گامزن رہنے کا عزم اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اور پھر ایک کامیاب زندگی کا حصول ممکن دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس لیے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ثمر آور بنانے میں استاد کی رہنمائی اور اس کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔

بچے کی حوصلہ افزائی اسے زندگی کے ہر میدان میں کامیاب کرسکتی ہے۔ اس مقصد کےلیے ماں اور استاد دونوں کا ایک اہم کردار ہے۔ بچے کی تربیت ایسے کریں کہ تنقید بھی اسے تعمیر لگے۔ بچوں کی غلطیوں پر ماں اور استاد دونوں اسے ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مار اور ڈانٹ ڈپٹ کے خوف سے جھوٹ بولنا سیکھ جائے اور بے ایمان ہوجائے۔ اس لیے اسے اپنی غلطیوں سے سیکھنے والا بنائیں۔ بچوں کو وقت دیں تاکہ وہ اپنی باتیں آپ سے شیئر کرسکے اور اس کے اندر کی محرومیاں ختم ہوسکیں۔ آپ کا بچہ آپ کا عکس ہے، اس لیے عمل کے ذریعے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ بچوں کو مشینوں کی دنیا نہ بنائیں بلکہ اس کے ساتھ خود وقت گزاریں۔ ماں اور استاد دونوں کو چاہیے کہ بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں تاکہ وہ دوسروں کی عزت کرنا سیکھیں۔

استاد کی تعلیم اور ماں کی تربیت دونوں مل کر ہی بچے کو ایک روشن اور کامیاب مستقبل کی شاہراہ پر ڈال سکتے ہیں۔ یاد رکھیے بچے قوم کے معمار ہوتے ہیں، اس لیے ہمیشہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت ہی ہماری قوم کو وہ شاندار معاشرہ دے سکتے ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا خدارا اس قوم کی مائیں اور اس قوم کے استاد اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور انہیں پورا کرنے میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑیں۔ کیونکہ وقت اور ہماری نئی نسل کے بچے تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حرا احمد

حرا احمد

مصنفہ نوجوان بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ عوامی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹرسائنس میں فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔