پی سی بی،،، عوام کو خوار کیوں کر رہا ہے؟

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 30 ستمبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

قطر میں اگلے ماہ نومبر میں دنیا کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ فیفا فٹ بال ورلڈ کپ 2022منعقد ہو رہا ہے، 2010 میں قطر کو جس کی آبادی 30لاکھ اور رقبہ صرف 11ہزار مربع کلومیٹر ہے، فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی ملی تو دنیا حیران رہ گئی کیونکہ امریکا، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان قطر کے مدمقابل تھے۔

ان ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو پیچھے چھوڑ کر قطر نے میزبانی حاصل کی تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ ماسوائے ایک نسبتا غیر معیاری اسٹیڈیم کے قطر میں کوئی فٹ بال اسٹیڈیم ہی نہیں تھا۔ لیکن قطر کے پاس 12سال کا عرصہ تھا جس میں وہ دنیا کو دکھا سکتا تھا کہ محنت، لگن اور جذبہ اگر ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔

اُس نے ان 12سالوں میں 200ارب ڈالر کے مہنگے ترین 8اسٹیڈیم، ہوٹلز اور سیاحتی مقامات تعمیر کیے تاکہ دنیا بھر سے متوقع طور پر آنے والے 15لاکھ افراد ورلڈ کپ سے محظوظ ہونے کے لیے اُن کے ملک کا وزٹ کریں۔

ورلڈ کپ شائقین کے لیے قطر نے سیاحتی مقامات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے، پہلی بار دنیا کے سامنے ائیر کنڈیشنز اسٹیڈیم متعارف کرائے۔  1لاکھ 76ہزار کمروں پر مشتمل دنیا کے 100سے زائد مہنگے ترین ہوٹلز بنائے۔ سیکیورٹی کے لیے اپنے ہمسایہ ملک ترکی سمیت پاکستان سے بھی رابطہ کیا ، جس کے بعد رواں ماہ ستمبر میں پاک قطر معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سیکیورٹی اداروں کی خدمات مہیا کرے گا۔ جس کے عوض پاکستان کو 2ارب ڈالر دیے جائیں گے۔

پھر ہر اسٹیڈیم کے ساتھ 3، 4سیون اسٹارز ہوٹلز تعمیر کرائے، نئی سڑکیں بنائیں۔ مطلب پورے کا پورا قطر ’’اسپورٹس سٹی‘‘ بنادیا گیا۔ اس ورلڈ کپ سے اُمید کی جا رہی ہے کہ قطر کو اتنی ہی آمدنی ہو جتنا اُس نے خرچ کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ قطر نے ورلڈ کپ کے لیے اتنی زیادہ ’’ایفی شنسی ‘‘کیوں دکھائی؟ قطر نے یہ سب کچھ صرف ورلڈ کپ 2022 کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ اُس کا اگلے 20سال کا منصوبہ ہے۔

اُس نے اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، قطر کہتا ہے کہ اگر ہم ورلڈ کپ میں بہترین مہمان نوازی میں کامیاب ہو گئے تو یہ اگلے 20سال تک ہمیں لاکھوں نہیں کروڑوں سیاح دے گا اور ملک کا ریونیو مزید بہتر ہوگا۔

یہ تھا فیفا ورلڈ کپ 2022 اور قطر کا ریویو جب کہ ہمارا ملک قطر سے 65گنا بڑا اور آبادی کے لحاظ سے 80گنا بڑا ملک ہے۔ ہم نے کرکٹ ، ہاکی ، اسکوائش، اسنوکروغیرہ میں دنیا کو بڑے بڑے نام دیے ہیں، مگر مجال ہے کہ ہم نے کھیلوں کے فروغ کے لیے کچھ کیا ہو۔ تبھی ہم ہاکی،ا سکوائش یا اسنوکر میں پیچھے رہ گئے ہیں اور رہی بات کرکٹ کی تو کرکٹ میں بھی دنیا وطن عزیز میں مجبوری کے تحت آتی ہے ورنہ یہاں حال کوئی نہیں ہے۔

آپ حالیہ پاک انگلینڈ ہوم سیریز کو دیکھ لیں، انگلینڈ کی تقریباََ بی ٹیم یہاں کھیل رہی ہے کیوں کہ انگلش ٹیم کے کپتان بین اسٹوک ، جوز بٹلر سمیت دیگر سینئر کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے معذرت کر لی تھی۔ یہاں نہ آنے کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر سوال یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ہم وہ سہولیات دے رہے ہیں جو کسی بین الاقوامی ٹیم کو دی جاتی ہیں۔

ماسوائے ہزاروں اہلکاروں کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ہم انھیں کئی ہفتے سیکیورٹی حصار میں قید کیے رکھتے ہیں تاکہ وہ اللہ اللہ کرکے وقت پورا کریں اور اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں۔ فیفا ورلڈ کپ کو چھوڑیں آپ دنیا کے 150ممالک میں دیکھ لیں، جہاں 50ہزار چھوٹے بڑے اسٹیڈیم ہیں جن میں بین الاقوامی مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے 48ہزار اسٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو اسٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔

یعنی دنیا کے بیشتر ممالک ایسی جگہ اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کرتے ہیں جہاں فائیو اسٹار ہوٹلز قریب ترین ہوں یا اسپورٹس کمپلیکس کے اندر ہی بڑے بڑے ہوٹلز بنا دیے جاتے ہیں تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ لیکن یہاں ہر سال PSLکے میچز کروائے جا رہے ہیں جن میں انٹرنیشنل کرکٹرز بھی شوق اور پیسے کمانے کی غرض سے شرکت کر رہے ہیں مگر مجال ہے ہم نے کہیں اسٹیڈیم کے ارد گرد فائیو اسٹار ہوٹل بنانے کے لیے کوئی پیش رفت کی ہو۔

اور پھر یقین مانیں شہر بند کرنے کے حوالے سے یعنی ٹریفک جام کے حوالے سے اکیلا عام شہری ہی متاثر نہیں ہے بلکہ شہر کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے، اس حوالے سے پی سی بی سے پوچھیں تو وہ وزارت داخلہ پر ملبہ ڈالتی ہے جب کہ وزارت داخلہ پی سی بی کی غلط منصوبہ بندی کو آڑے ہاتھوں لیتی نظر آتی ہے۔

ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے اسٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں،جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔

حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔

الغرض پاکستان میں اگر تفریح کا ماحول بن رہا ہے ، ٹیمیں پاکستان آنا شروع ہو گئی ہیں تو اُس میں اتنی زیادہ مس مینجمنٹ کیوں؟ کیا یہ تفریح ہے ؟ کیا کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے؟ بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ اسٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے۔

اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کے لیے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یا اگر فوری حل درکار ہے تو اسٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس بنا لیں یا اسٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹرا سٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریںاور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔