ہم بہترین اقدار سے محروم ہورہے ہیں

عبد الحمید  جمعـء 30 ستمبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

ایک ہندو دانشور نے کامیابی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مادی اشیاء میں اضافہ گروتھ ہے۔اگر آپ کی کمپنی کا ٹرن اوور پچاس لاکھ سے سو لاکھ اور سو لاکھ سے بڑھتے بڑھتے اربوں میں چلا گیا ہے،اگر آپ کی دولت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے،جائیداد میں اضافہ ہو رہا ہے،فصلوں سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ سب گروتھ ہے۔

اگر اس گروتھ کے ساتھ آپ کے ادب آداب،برتاؤ اور طور طریقوں میں بہتری آ رہی ہے،ایک فرد سے لے کر پوری قوم پہلے کے مقابلے میں ادب آداب اور طور طریقوں میں اچھی ہو رہی ہے،اگر آپ کا ڈسپلن بہتر ہو رہا ہے،اگر آپ وقت کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں تو یہ پروگریس ہے، ترقی ہے اور اگر گروتھ اور پروگریس کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق بہتر ہو رہے ہیں تو یہ کامیابی ہے اور فرد سے لے کر قومی سطح پر یہی ٹارگٹ ہونا چاہیے۔

ایک مشہور امریکی فلسفی نے کہا تھا کہA tradition is a beauty to be preserved and not the fetters to bind us. یعنی کہ تہذیبی روایتTraditionایک حسن ہے جس کو ہر صورت برقرار رکھنا چاہیے،یہ پاؤں میں پڑی کوئی بیڑیاں نہیں جو آپ کو باندھ کر،جکڑ کر رکھتی ہیں۔بری روایت وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہو جاتی ہے لیکن اچھی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہمارے ہاں بھی بہت خوبصورت روایات تھیں جو معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ماڈرن ازم کے تیز و تند ریلے میں بہہ کر ختم ہونے کے قریب ہیں۔ دیکھا گیا تھاکہ کسی کی موت پر افسوس کا اظہار کرنا،اس کے لواحقین کے دکھ درد میں شامل ہونا فرضِ عین تھا۔افسوس کا اظہار کرنے والا جب وہاں پہنچتا تھا تو اونچی آواز میں کہتا تھا کہ ’’ حق ہوا ہے‘‘۔یعنی کسی کے بچھڑنے کے انتہائی دکھ کے موقع پر بھی ہمارے بظاہر ا ن پڑھ بزرگ اس بات سے بخوبی واقف تھے اور اسی کا اظہار کرتے تھے کہ موت ایک اٹل حقیقت  ہے،یہ اﷲ کا امر ہے جس سے مفر نہیں۔ان کلمات سے غمزدہ کو بھی ڈھارس ہوتی تھی کہ اﷲ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہی بہتر رویہ ہے۔

یہ بھی ہوتا تھا کہ جس گھر میں موت کا سانحہ رونما ہو جاتا تھا اُس گھر میں کئی دن کھانا نہیں پکنے دیا جاتا تھا اور گھر والوں بشمول مہمانوں کے کھانے کی ذمے واری رشتے دار اور پڑوسی لے لیتے تھے۔یہ وہ بہترین روایات تھیں، معاشرتی حسن تھا جس کو برقرار رہنا چاہیے تھا۔

امام احمد بن حنبلؒ پانی کے ایک بہاؤ پر بیٹھے وضو فرما رہے تھے کہ اُن کا ایک شاگرد بھی اُسی مقصد کے لیے ادھر آ نکلا۔وہ وضو کرنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ جلدی سے اُٹھ کر پانی کے بہاؤ پر ذرا نیچے کی طرف جا بیٹھا،جب وہ شاگرد وضو سے فارغ ہوا تو ایک آدمی جو اسے دیکھ رہا تھا۔

اس نے پوچھ لیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔شاگرد نے جواب دیا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر امام صاحب کی طرف جا رہا تھا،مجھے بڑی شرم آئی کہ میرے استادِ محترم اس پانی سے وضو کریں جو میرے استعمال میں آ چکا ہو اس لیے فوراً اُٹھ کر نیچے کی طرف جا بیٹھا تاکہ میں استادِ محترم کے مستعمل پانی سے وضو کا شرف حاصل کروں۔

یہ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ہمیں سکھاتا تھا کہ اپنے سے بڑے کا ادب اور چھوٹے سے پیار کرنا ہے اور اس قول کی اصل اﷲ کے رسولﷺسے لی جاتی تھی کہ جو بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ۔ہمیں تربیت دی جاتی تھی کہ سلام کرنے میں پہل کرنی ہے لیکن اپنے سے بڑے کو مجبور نہیں کرنا کہ وہ آپ سے ہاتھ ملائے یا معانقہ کرے یعنی گلے لگے۔اگر آپ ملنے والے سے چھوٹے ہیں تو سلام میں پہل کر کے بڑے کے ہاتھ کی طرف دیکھیں۔

اگر اُن کا ہاتھ آگے بڑھے تو آپ بھی جلدی سے ملانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائیں۔اگر وہ گلے لگنے کے لیے بڑھتے ہیں تو آپ بھی گلے ملیں۔اسی طرح ہمارا معاشرہ ہماری تربیت کرتا تھا کہ اگر آپ کسی محفل یا بیٹھک میں پہنچتے ہیں تو بیٹھنے سے پہلے بڑوں سے اجازت لے لیں یا پھر وہ خود بخوشی اجازت دیتے ہیں تو بیٹھ جائیں لیکن اس کا خیال رہے کہ اپنے بڑوں کے سرہانے کی جانب ہرگز نہ بیٹھیں۔کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا،چلنے میں ان سے سبقت لینا اور اُن سے اونچے لہجے میں بات کرنا معیوب سمجھتے تھے۔

والدین کے حکم پر عمل کرنا باعثِ فخر جانا جاتا تھا۔اس بہترین عمل کے نتیجے میں اﷲ چھوٹوں کو نوازتا بھی تھا۔ہمارے معاشرے میں مشہور تھا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اﷲ اُس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ساتھ احسان کرے یعنی بہت اچھا برتاؤ کرے اور جو یہ چاہتا ہے کہ اﷲ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ اپنے اساتذہ کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی محنت کر کے پیسے اکٹھے کیے اور ایک پلاٹ خریدا۔میں نے خوشی خوشی والد محترم کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ تمھارا بڑا بھائی مالی طور پر تم سے بہت کمزور ہے،یہ پلاٹ تم اسے دے دو،اﷲ تمھیں اس کا بڑا اجر دے گا۔حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میری عقل نے بڑا سمجھایا کہ والد صاحب کی بات مان کر ایسا کرنا بہت بڑی حماقت ہو گی مگر میں نے عقل سے کہا کہ علامہ اقبال تو یہ کہہ گئے ہیں کہ اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل،لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ والد صاحب کی خوشی کے لیے بھائی کے نام کر دیا۔

کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔آج انھی کی دعا کا فیض ہے کہ میری کئی جائیدادیںہیں جب کہ بھائی کا بس اسی ایک پلاٹ پر گزارہ ہے۔والدین کی طرح اساتذہ کا ادب بھی اسلامی اور ہمارے معاشرے کی ایک امتیازی خصوصیت تھی۔

اساتذہ کو دیکھتے ہی ہم مو دب ہو جاتے تھے یاچھپ جاتے تھے کہ وہ ہماری کوئی غلطی نہ نوٹ کر لیں۔ہماری تہذیب میں یہ معاملہ صرف والدین اور اساتذہ تک محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتے داروں کے معاملے میں بھی بڑی احتیاط برتی جاتی تھی۔ہماری تہذیب کمزور ہوئی تو اور بہت سی باتوں کی طرح حفظِ مراتب کی یہ خوبصورت قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔اب برابری کا چلن ہے۔

گروتھ تو کہیں کہیں نظر آتی ہے لیکن پروگریس اور کامیابی ہم سے کوسوں دور کھڑی ہمارے بے ڈھنگے چلن پر ہنستی ہے۔ ہم محبت،رواداری،احترام اور بہت سی اعلیٰ اقدار پر پلی ہوئی نسل سے ہیں۔ہم ایسے افراد کے درمیان رہتے تھے جن کی اکثریت بظاہر لکھنا پڑھنا تو نہیں جانتی تھی لیکن وہ تعلقات اور احترمِ باہمی میں طاق تھے۔

انھوں نے ادب نہیں پڑھا تھا لیکن ہمیں بہت ادب سکھایا۔ انھوں نے درس گاہوں میں فطرت کے قوانین اور حیاتیات کا مطالعہ نہیں کیا تھا لیکن انھوں نے ہمیں شائستگی کے فن میں رنگ دیا۔انھوں نے رشتے نبھانے کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن ہمیں رشتے نبھانے سکھائے،رشتوں کا احترم سکھایا۔ یہ ان کی ہی بہترین تربیت تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی بڑوں کی موجودگی میں اونچی آواز سے نہیں بولتا تھا۔وہ جنھوں نے ہمیں بہترین اقدار دیں،اﷲ ان پر رحمت فرمائے اور ہمیں واپس ان اقدار کو تھامنے کے اہل بنائے۔آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔