حالات بدلنا ہوں گے

شہریار شوکت  پير 3 اکتوبر 2022
یہ کھیل عوام کے ساتھ اب تک چل رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ کھیل عوام کے ساتھ اب تک چل رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایسا لگتا ہے ملک کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ یہاں سیاسی استحکام نہ آنے دیا جائے۔ محمد علی جناح، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، پھر کبھی نواز شریف، کبھی محترمہ بینظیر بھٹو تو کبھی عمران خان، کسی کو بھی چلنے نہیں دیا گیا۔

آصف علی زرداری کے دور میں جب جمہوری حکومت نے وقت پورا کیا تو ایسا لگا کہ اب شاید حقیقی جمہوریت آجائے۔ پانچ سال پورے کرنا آصف علی زرداری کا ہی گر تھا، اس کے بعد پھر اس ملک میں وہی ہوا جو ہوتا رہا ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام کا فائدہ صرف اور صرف سیاستدانوں یا امیر طبقے کو ہی ہوتا ہے۔ جانے والا بہت آسانی سے یہ کہہ جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہونے ہی والا تھا لیکن مجھے وقت نہیں دیا گیا، آنے والا یہ کہتا ہے کہ جانے والا بے انتہا بگاڑ پیدا کرگیا ہے، لہٰذا مجھے سب ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد سے ہی اس کھیل کا آغاز ہوا اور یہ کھیل عوام کے ساتھ اب تک چل رہا ہے۔

عمران خان کے پاس اس وقت سیاسی میدان خالی ہے۔ ملک کی دیگر تمام ہی جماعتیں سوائے جماعت اسلامی کے ایک طرح سے حکومت کا حصہ ہیں، لہٰذا انہیں اس وقت جلسے کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ وقت۔ عمران خان ملک کے میدانوں میں جو چاہیں کریں، جو چاہیں کہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور ملک کی دیگر جماعتیں سیاسی اور جمہوری میدان میں جو چاہیں کریں، جتنے چاہے فائدے حاصل کریں، ان سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر ایک سیاسی رہنما پر بنائے گئے مقدمات بھی تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہورہی ہے۔ میاں شہباز شریف نے بھائی کے زور پر وزارت اعلیٰ تو چلا لی لیکن کئی منتوں کے بعد جب انہیں بھائی کی جگہ ملی تو اب وہ بھی مشکل میں ہیں اور عوام بھی۔ امید ہے کہ جب اسحاق ڈار ملک میں واپس آگئے ہیں تو میاں نواز شریف بھی واپس آہی جائیں گے لیکن ان کے آنے تک میاں شہباز شریف کیا کریں گے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ حکومت کی دوسری تمام ناکامیوں کے ساتھ سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ مہنگائی ختم کرنے کے ارادے سے آنے والی حکومت نے سابقہ حکومت کے مہنگائی کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہوا ملک کے بڑے شہروں میں وارداتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈکیتوں نے کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور جیسے شہروں کا رخ کرلیا ہے اور پولیس کا ادارہ ان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔

یہ ڈکیت ہیں کون؟ یاد رکھیے کہ چوری کبھی بھی مڈل کلاس نہیں کرتی۔ مڈل کلاس کو تو ہمیشہ سے ہی پسنے کی عادت ہے۔ مہنگائی ہوگی تو یہ دو کی جگہ ایک روٹی کھانا شروع کردیں گے۔ دو ملازمتیں کریں گے۔ زیادہ مہنگائی ہوئی تو میاں بیوی دونوں ملازمت شروع کردیں گے اور کسی طرح کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دو وقت کی روٹی کھالیں گے اور عزت سے اپنا بھرم قائم رکھیں گے۔ چوری ہمیشہ یا تو امیر لوگ کرتے ہیں یا پھر غریب لوگ۔ امیر بڑی چوریاں کرتے ہیں۔ کروڑوں کی، اربوں کی، جس میں سب کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ اول تو سب کو حصہ ملنے کی وجہ سے بڑے چور پکڑے ہی نہیں جاتے اور اگر کوئی انہونی ہو بھی جائے تو ان کےلیے پلی بارگین، این آر او، اور بیرون ملک سیاسی پناہ جیسے راستے موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں کسی قسم کو کوئی خطرہ نہیں۔ اب بات کرلیں غریب چوروں کی۔

ان غریب چوروں نے جہاں ہمارے اداروں کو بے بس کر رکھا ہے، وہیں انہیں بے نقاب بھی کردیا ہے۔ اس حکومت کے عہد میں مزدور، کسان، تاجر، سرکاری و غیر سرکاری ملازم، مولوی اور درویش، سب پریشان ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں کے عام محلوں میں مختلف گروہ مختلف وارداتیں کر رہے ہیں۔ عوام جہاں مہنگائی سے پریشان ہیں، وہیں ان چوروں سے بھی تنگ ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی چور ان کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کا وہی حال کرتے ہیں جو درحقیقت ملک کو تباہ کرنے والوں کا کرنا تھا۔

عوام کو لوٹنے والے ان گلی محلے کے گروہوں میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ گروہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں رہے بلکہ اب ان گروہوں نے چھوٹے قصبوں اور دیہات کا راستہ بھی دیکھ لیا ہے۔ پولیس کی بےبسی کے باعث یہ گروہ دن بدن اپنی جڑیں مستحکم کرتے جارہے ہیں اور پورا معاشرہ ہی جرائم کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ہر طرف چوروں کا راج ہے۔ یہ چھوٹے گروہ یا چور، جو کہ عام طور پر مہنگائی اور حالات سے تنگ آکر اس فیلڈ میں آتے ہیں، انہوں نے اپنے ہی جیسے مہنگائی کے ستائے شریف لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ معاشرہ بے بس ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں لوگ روٹی روزی پوری کریں یا چوروں اور ڈاکوؤں کا پیچھا کریں۔

اب ملک چند مافیا والی کہانیوں سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اب ہر گلی، ہر محلے کے اندر مافیاز موجود ہیں، جن سے نہ تو عوام کی جان محفوظ ہے، نہ مال اور نہ ہی عزت۔ ملک میں دندناتے ان گروہوں سے نہ تو وہ پولیس والے محفوظ ہیں جنہوں نے عوام کو تحفظ دینا تھا اور نہ ہی ان کی وارداتوں کی خبر دینے والے صحافی۔ کچھ روز قبل ہی ڈی ایس پی صاحب کے لٹ جانے کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی اور محنت سے کمانے والا صحافی تنویر بہلیم کیمرہ، مائیک اور دیگر سامان چھن جانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بےبس اور روتا ہوا نظر آیا۔

اس تمام تر صورتحال کے ذمے دار وہ ادارے ہیں جو سیاسی اثر و رسوخ پر چل رہے ہیں، جو خود محفوظ نہیں عوام کو کیسے محفوظ رکھیں گے؟ ان سے بھی زیادہ ان حالات کے ذمے دار حکمران ہیں، جنہیں اپنے مقدمات ختم کرانے کی جلدی تو ہے، جن کی ساری توجہ انگریزی لباس پہن کر تقریریں کرنے پر تو ہے لیکن عوام کو ریلیف دینے کےلیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہ اصول تو روز اول سے ہے کہ جہاں ظلم ہو وہاں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے جب کسی کے سامنے اس کے بچے بھوک سے چلائیں گے تو کیا وہ امن کا راستہ اختیار کرے گا؟ پھر یہ افراد اس قدر بے خوف کیوں ہیں؟ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں یہ بھی باقاعدگی سے حصہ پہنچا رہے ہیں، جبھی انہیں کسی کا خوف نہیں۔

ملک کے سیاستدانوں نے اگر اپنے مفادات اور لڑائی جھگڑوں کو ایک طرف رکھ کر ملکی بہتری اور عوامی فلاح کےلیے کام نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب حالات سے پریشان لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر عوامی عدالتیں لگا لیں گے اور خود ہی فیصلہ کرنا شروع کردیں گے، جس کی چند مثالیں ان دنوں چوروں کے ہتھے لگ جانے کے بعد دیکھی بھی گئی ہیں۔ اُس وقت حالات قابو میں رکھنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا، لہٰذا سیاستدانوں کو وقت پر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔