’’بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ‘‘

نسیم انجم  اتوار 2 اکتوبر 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

2022 میں شایع ہونے والی کتاب ’’بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ‘‘ نے مصنف کی حب الوطنی اور وسعت علم کے چراغ روشن کیے ہیں، مذکورہ کتاب سے قبل بھی کئی قابل ذکر کتابیں منصہ شہود پر اپنا جلوہ دکھا چکی ہیں۔

مصنف کے دو شعری مجموعے ’’پس گرداب‘‘ اور ’’غبار گریہ‘‘ کی شاعری دلوں کو چھوتی ہے اور داخلی و خارجی جذبات و احساسات کی عکاس ہے شاید اسی وجہ سے ’’پس گرداب‘‘ کی اشاعت دو بار ہوئی اول 1987 اور دوم 2008۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب کی حیثیت مسلم ہے۔ آپ شعبہ اردو جامعہ کراچی کے صدر رہ چکے ہیں۔ بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ کی باقاعدہ طور پر تشہیر اور پذیرائی 2018 میں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے ذریعے ہوئی۔ اس کے بعد تو ’’بیانیہ‘‘ کے پر لگ گئے اور اب یہ بلند پرواز پرندہ کتابی شکل میں اہل علم و ادب کے ہاتھوں تک پہنچ گیا ہے، لیکن سفر اب بھی جاری ہے۔

کتاب پر مفکرین پاکستان کی آرا درج ہیں، پہلی رائے یا مضمون محمود شام کا ہے جو ماہنامہ اطراف کے بانی و مدیر ہیں، ان کے مضمون کا عنوان ہے ’’شاداب احسانی کا پاکستانی بیانیہ‘‘ ابتدا ایک خوبصورت اور بامعنی شعر سے کی ہے۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے میں انداز خسروانہ

اس شعر سے ڈاکٹر شاداب احسانی کی اعلیٰ فکر اور مثبت سوچ کا اندازہ بخوبی ہو رہا ہے۔ آج جو پاکستان کے حالات ہیں اس دکھ کا احساس اہل بصیرت اور اہل نظر کو بخوبی ہے۔ محمود شام کی تحریر میں تدبر اور تفکر کی دھیمی دھیمی روشنی مصنف کے نظریے کو واضح کر رہی ہے۔

’’پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اکیلے وہ فریضہ انجام دے رہے ہیں جو دوسرے ملکوں میں یونیورسٹیاں تھنک ٹینک یا فلسفیوں کے گروپ اجتماعی طور پر ادا کرتے رہے ہیں یہ تشویش تو اس ملک میں 1950 کی دہائی سے ہی عام رہی ہے کہ پاکستانی ہجوم کیوں ہیں؟ ایک قوم کیوں نہیں بن رہے ہیں، سب کچھ ہے مگر پاکستانیت نہیں ہے۔ قائد اعظم نے بھی صوبائیت اور علاقائیت کو ملکی استحکام کے منافی قرار دیا تھا۔‘‘ رضوان صدیقی نے ڈاکٹر شاداب احسانی کے انداز تکلم کی نشاندہی اپنے مضمون میں کی ہے کہ ’’کس طرح بات نکلی اور دور تلک پہنچی‘‘ ڈاکٹر شاداب احسانی نے ایک نشست کے دوران کہا ’’بھائی ہمارا اپنا کوئی بیانیہ نہیں ہے۔

گوروں کی اترن پہنے پھرتے ہیں، ہم قوم کیسے بنتے، انھی کے رائج کردہ 1953 کے قوانین لاگو ہیں انھی کی زبان میں ہم اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، انھی کا نظام تعلیم رائج ہے، یہاں تک کہ جمہوریت کے نام پر طرز حکومت بھی انھی کی اختیار کی ہوئی ہے، بھارت نے ابتدا ہی میں ریاستیں ختم کردی تھیں، نوابوں کا راج لپیٹ دیا تھا مگر یہاں وڈیرہ شاہی اور قبائلی نظام موجود ہے، جمہوری دور ہو یا غیر جمہوری حکومت یہ اشرافیہ مزید مضبوط اور طاقت ور ہوگئی ایسے میں ہماری شناخت کیسے ہوگی؟‘‘

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے ڈاکٹر شاداب احسانی کو حقیقی قومی مصلح کا درجہ دیا ہے۔ پروفیسر عقیل دانش نے اپنے مضمون کی ابتدا میں مصنف کے لیے ایک بے حد موثر شعر بھی شامل کیا ہے:

آگہی کی کتاب احسانی
فکر و فن کا نصاب احسانی

بہت ہی محترم پروفیسر عقیل دانش نے ڈاکٹر شاداب احسانی کے اخلاق و عادات کا ذکر بڑے خلوص سے کیاہے اور انھیں ایک عبقری شخصیت قرار دیا۔ انھوں نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن ایک ادارہ اور ایک دبستان ہیں۔‘‘

ڈاکٹر شاداب احسانی قادر الکلام شاعر، مفکر اور ماہر تعلیم ہیں۔ محقق، نقاد اور ماہر عروض کے حوالے سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں بیس سے زائد طلبا نے ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ ’’بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ‘‘ یہ کتاب 42 کالموں پر مشتمل ہے ۔سعید خاور نے بعنوان ’’پاکستانی تشخص کی تلاش اور شاداب احسانی‘‘ مضمون بھی قلم بند کیا ہے۔ مضمون نگار کی رائے کے مطابق ڈاکٹر ذوالقرنین شاداب احسانی نے اس قوی منصوبے کی بنیاد شاندار انداز میں فکری بنیادوں پر رکھ دی ہے۔ میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب ذوالقرنین شاداب احسانی کو ایک عظیم قومی درس گاہ کی خشت اول رکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

کالم کے موضوعات بھی قاری کو پڑھنے کی طرف رغبت دلاتے ہیں ہر موضوع تاریخ کے اوراق کی نشاندہی کرتا ہے۔ انھوں نے منطق اور دلیل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کی سوچ، انداز فکر کا بھی احاطہ کیا ہے کہ کس طرح اپنے ملک کی ترقی و استحکام کے لیے راہیں ہموار کی جاتی ہیں مفاد پرست قومیں ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت اپنے حریف کو زوال تک پہنچاتی ہیں، اگر مسلمان اپنی راہ سے نہیں ہٹتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے، مغرب کی تقلید نے نہ صرف یہ کہ گمراہ کیا بلکہ سنہرے لفظوں سے لکھا گیا۔

ماضی، حال اور مستقبل کا تاریخ و جغرافیہ بھی بہت آسانی سے چھین لیا۔ ہم کب اپنا لوٹا ہوا علمی و ثقافتی خزانہ واپس لیں گے کچھ نہیں معلوم؟ صفحہ نمبر 162 پر ایک کالم ’’مغرب زدہ بیانیہ اور پاکستانی بیانیہ‘‘ کے عنوان سے درج ہے اپنی اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی بربادی کا ثبوت لارڈ میکالے کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے دیا ہے جو لارڈ میکالے برٹش پارلیمنٹ سے مخاطب ہوکر کیا تھا۔ یہ 2 فروری 1835 کا تاریخی دن ہے، اس موقع پر لارڈ میکالے نے کہا کہ ’’میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا اور میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو فقیر (بھیک مانگنے والا) یا چور ہو، اس نے ہندوستان کے لوگوں کے اخلاق و کردار کی تعریف کی اور پھر اس نے کہا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح نہیں کرسکتے ہیں، یہاں تک کہ اس قوم کی کمر نہ توڑ دیں جو اس کی روحانی ثقافتی میراث ہے اور اسی لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ ہم اس ملک کے قدیم اور پرانے نظام تعلیم اس کی ثقافت کا متبادل دیں، کیوں کہ اگر ہندوستانی یہ سوچیں کہ تمام بدیسی اور انگریزی چیزیں ان کی چیزوں کے مقابلے میں برتر اور اچھی ہیں تو وہ اپنی قدر و قیمت اور آبائی ثقافت کھو دیں گے اور صحیح طور پر ایک مغلوب قوم بن جائیں گے جیساکہ ہم چاہتے ہیں۔ (ترجمہ)

اور پھر ایسا ہی ہوا، آج بھی مغربی نظام میں حکمران، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریٹ اور مغرب کے طور طریقوں کو اپنانے اور فخر کرنے والے عوام جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو کی ترویج ہو، سرکاری اور دفتری امور اردو زبان میں انجام دیے جائیں یہ رویہ افسوس ناک بھی ہے اور شرم ناک بھی۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھولنے کا انجام بڑا ہولناک ہے ملک ترقی اور خوشحالی سے دور ہوتا چلا گیا، جب منافقت اور جھوٹ کی فصل اگائی جاتی ہے تب زہریلے پھل ہی نمودار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنی تحریروں میں اپنے تخلیق کردہ اشعار دوسرے شعرا کرام کے شعر بھی شامل کیے ہیں وہ ایک دانشور کے طور پر سامنے آتے ہیں، اسی مضمون سے بقول شاداب احسانی کے:

کیسے بدلیں گے ہمارے حالات
کوئی بھی کرتا نہیں اس پر بات

جس کا اپنا بیانیہ ہو وہاں
احتساب احتساب ہوتا ہے
٭٭

ایک ہو جاؤ تو کھوئی ہوئی عظمت مل جائے
یہ زمیں کیا ہے زمانے کی حکومت مل جائے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔