ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 7 اکتوبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وطنِ عزیز کی سیاست و معیشت میں جوار بھاٹے اُٹھ رہے ہیں ۔ کسی شئے کو قرار حاصل ہے نہ پُر امن و اطمینان بخش مستقل سیاسی ماحول بن رہا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیاست پر یاسیت اور تلخی کی بدلیاں چھا چکی ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

شاید اِسی لیے بزرگ و تجربہ کار سیاستدان اور قانون دان، جناب اعتزاز احسن، نے مشورہ دیا ہے کہ عمران خان اور مریم نواز شریف کو اپنے اپنے لہجوں میں نرمی لانی چاہیے ۔مگر لگتا نہیں ہے کہ یہ دونوں دھڑے اور شخصیات چوہدری اعتزاز صاحب کے مشورے پر جلد عمل کریں گے۔ ہر کوئی دیکھ اور سُن رہا ہے کہ جناب عمران خان آئے روز اپنے جلسوں میں اپنے مخالفین اور حریفوں کے بارے میں کس تلخ اور قابلِ گرفت لہجے میں بات کررہے ہیں۔

اب جواباً محترمہ مریم نواز بھی ترکی بہ ترکی ، تلخ اسلوب میں، خان صاحب اور اُن کی پارٹی کو سنا رہی ہیں ۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ صبر اور تحمل کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔اِس تلخ اور ترش تازہ جوابی کارروائی کا نظارہ ہم سب نے گزشتہ روز اُس وقت کیا جب مریم نواز صاحبہ نے لاہور میں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس کی جس میں مریم نواز کا لہجہ خاصا کڑوا اور کسیلا تھا، اس قدر کہ اِس کے جواب میں عمران خان کے سابق وزیر، چوہدری فواد حسین، کو بھی جواباً سخت الفاظ استعمال کرنا پڑے۔ عوام یہ تماشے آئے روز دیکھ رہے ہیں اور دَم بخود ہیں ۔

حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ہیں کہ تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔ رواداری اور دید لحاظ موقوف ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم ، جناب محمد شہباز شریف، نے بھی ایک معروف برطانوی اخبار (گارڈین) کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے :’’جو آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں، انھوں نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کرئہ ارض کا سب سے بڑا جھوٹا ہے۔‘‘

کیا یہ دہکتا ہُوا بیان اُس بیانئے کا تلخ جواب ہے جو عمران خان نے دانستہ پچھلے چاربرسوں سے شریف فیملی کے خلاف اپنا رکھا ہے ؟ خان صاحب کو رنج یہ بھی ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو عدالتوں کی طرف سے رہائیاں اور ریلیف کیوں مل رہی ہیں؟احسن اقبال کو عدالت نے تمام کیسوں سے باعزت بری کر دیا ہے۔ اسحق ڈار پانچ سال کی طویل سیاسی اور ازخود جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ کر وفاقی وزیر خزانہ کا حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔

ڈار صاحب اب آئے روز خان صاحب کو چیلنج کررہے ہیں اور اُن کے مبینہ ’’کچے چٹھے‘‘ کھولنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔یہ واقعات خان صاحب کوگراں گزررہے ہیں۔ نتیجے میں وہ ’’نیو ٹرلز‘‘ پر برس رہے ہیں ۔ایسے میں ہر کوئی منتظر ہے کہ چرخِ نیلوفری کیا رنگ بدلتا ہے ؟؟

ہماری سیاست و معیشت کا رنگ البتہ نہائت پریشان کن ہے۔ سابق صدرِ پاکستان اور مردِ حُر، جناب آصف علی زرداری، علیل ہیں اور شنید ہے بہتر علاج کے لیے دبئی جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ہمارے حکمران اور مراعات یافتہ طبقات جب بہتر علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جاتے ہیں تو یہ عمل دراصل اُن کے اندازِ حکمرانی اور ملکی خدمات پر کئی سوالیہ نشانات چھوڑ جاتا ہے ۔

کیا ایٹمی پاکستان کا ایک بھی اسپتال ایسا نہیں ہے جو اِن حکمران طبقات کی بیماریوں کا علاج کر سکے؟ سابق صدرِ پاکستان اور سابق آرمی چیف، پرویز مشرف، بھی مبینہ طور پر بہتر علاج کی غرض سے پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ اور اب محترمہ مریم نواز بھی عدالتی حکم پر پاسپورٹ ملتے ہی لندن پہنچ گئی ہیں ۔

بغیر کسی مقدمے کے اُن کا پاسپورٹ تین، چار سال عدالتی تحویل میں رہا۔ اِن برسوں کے دوران وہ جیل میں بھی قید کی گئیں اور اپنے والد صاحب سے ملاقات بھی نہ کر سکیں۔ یہ خان صاحب کے دَورِ حکومت کی صریح، بڑی زیادتی تھی۔ ناقابلِ فراموش زیادتی ۔ اب پاسپورٹ ملنے کے بعد، دوسرے روز ہی، لندن روانہ ہو گئیں اور اب برطانوی دارالحکومت کی ٹھنڈی ، پُر امن اور دلکشا فضاؤں میں ہیں ۔

لندن روانگی سے قبل مریم نواز نے کہا: ’’والد صاحب سے ملنے کے لیے بیقرار ہُوں۔ لندن سے مجھے اپنی ایک سرجری بھی کرانی ہے کیونکہ پاکستان میں میری یہ سرجری نہیں ہو سکتی۔‘‘ ایک بار پھر ایٹمی پاکستان کے ’’نااہل‘‘ اسپتال اور ’’نااہل‘‘ ڈاکٹرز یاد آ جاتے ہیں جو اِن پاکستانی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کے افراد کے امراض کا علاج نہیں کر سکتے ۔

محترمہ مریم نواز کہتی ہیں :’’ میں واپس وطن آؤں گی۔ شاید واپسی والد صاحب کے ساتھ ہو۔‘‘ ایسا اعلان اور بیان خان صاحب کے اعصاب پر بجلی بن کرگرتا ہے۔ ایسے لمحات میں وہ، عجب انداز میں، اپنے وابستگان سے حلف لے رہے ہیں کہ ’’آزادی مارچ‘‘ اور اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے اعلان کروں گا تو تم لوگوں نے میرا ساتھ دینا اور ساتھ پوری طرح نبھانا ہے۔

رانا ثناء اللہ خان اِس یلغار کے ’’ علاج‘‘ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ کیا تماشے ہیں؟ کیا پاکستان میں خدانخواستہ مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان پانی پَت کا فیصلہ کن معرکہ ہونے والا ہے ؟ محرومیوں اور مجبوریوں کے مارے غریب اور بے بس عوام ان دو ’’ہاتھیوں‘‘ کے عزائم اور سوچوں کے درمیان گھاس کی طرح پِس کررہ گئے ہیں۔

دونوں ’’ہاتھیوں‘‘ نے اسلام آباد کو شاید اٹھارویں صدی عیسوی کی ’’دِلّی‘‘ سمجھ رکھا ہے ۔ اِس مڈ بھیڑ میں مگر کسی کے ہاتھ لگے گا کچھ نہیں، بالکل اُسی طرح جیسے پانی پَت کی خونریز جنگ کے بعد نہ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ کچھ لگا تھا نہ مرہٹوں کو کچھ ملا۔ طرفین نے بس خون ہی چاٹا۔

اِن متحارب سیاسی دھڑوں سے الگ تھلگ ہمارے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، سنجیدگی اور فہمیدگی کے ساتھ واشنگٹن میں امریکی حکمرانوں سے دن رات مذاکرات کررہے ہیں تاکہ پاکستان کی معاشی و عسکری اعانت و دستگیری کی جا سکے ۔ انھوں نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان اور نائب امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے خوشگوار اور باعزت ماحول میں ملاقاتیں کی ہیں ۔اِن سطور کی اشاعت تک شاید امریکی وزیر خارجہ سے بھی ملاقات ہو جائے۔ پاکستان جن شدید معاشی بحرانوں کے گرداب میں ہے، اِس کا واحد حل یہی ہے کہ امریکیوں سے بہترین تعلقات استوار کیے جائیں۔ پاکستان کو مہلک سیلابوں نے جو اربوں ڈالر کا شدید نقصان پہنچایا ہے، اِس نقصان کا بھی کسی قدر ازالہ امریکا ہی کر سکتا ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے بھی (عمران خان کے دَور میں) کئی غیر ممالک سے پاکستان کو معاشی ریلیف دلوانے میں اساسی کردار ادا کیا تھا، اب شہباز شریف کے دَور میں بھی یہی کردار ادا کرنے کی کوشش میں ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز کے یہی معاشی حالات رہے تو اِن کے اثرات پاکستان کی عسکریات پر بھی مرتب ہوں گے۔ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے اپنی باہمی لڑائیوں میں اُلجھے ہُوئے ہیں اور جنرل قمر باجوہ وطن کی بگڑی معیشت کو سنوارنے میں لگے ہُوئے ہیں۔ واشنگٹن میں جنرل موصوف کا یہ اعلان بھی کہ ’’ افواجِ پاکستان سیاست سے دُور رہے گی اور مَیں وقتِ مقررہ پر آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہو جاؤں گا‘‘ ہر کسی کے لیے نہائت اعلیٰ اور اطمینان بخش محسوس ہُوا ہے ۔ خان صاحب شاید اس اعلان سے بوجوہ مطمئن نہ ہوں۔ اُن کا پرنالہ کسی اور جگہ ’’نصب‘‘ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔