’’استاد ‘‘خوشحال تو ،،، ملک خوشحال !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 7 اکتوبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

دنیا بھر میں ہر سال 5اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں بھی جب سے سوشل میڈیا بام عروج کو پہنچا ہے، ہم لوگ بھی اساتذہ کو یاد کرنا شروع ہوگئے ہیں ورنہ تو خار خار ہی ہم اپنے تمام اساتذہ کو یاد کیا کرتے تھے۔

بلکہ کئی دفعہ تو دوست احباب یا پرانے کلاس فیلو ہی ایک دوسرے کو بتایا کرتے تھے کہ یار! وہ فلاں ٹیچر جو ہمیں فلاں کلاس میں فلاں مضمون پڑھایا کرتے تھے، اُن کابہت زیادہ کسمپرسی کی حالت میں انتقال ہو گیا ہے۔

ہم تھوڑی دیر کے لیے افسردہ ہوتے، پرانی یادیں تازہ کرتے اور ایک بار پھر اپنے روزانہ کے معمولات میں اپنے آپ کو کھپا لیتے۔ اب بھی ٹیچرز ڈے پر ویسے ہی ایک پرانے کلاس فیلو سے میں جب بات کر رہا تھا کہ گورنمنٹ کالج کے فلاں ٹیچر کا نمبر تو دو۔ لیکن دوست نے بتایا کہ اُن کا حال ہی میں انتقال ہوگیااور آخری وقت میں اُن کے پاس اپنا علاج کرانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ یقین مانیں دل بجھ سا گیا۔ کہ ہماری حکومتیں یا ہمارے کرتادھرتا، اُستاد کو اس قدر عزت کیوں نہیں دیتے؟ جس کے وہ مستحق ہیں۔

اس کے برعکس جو معاشرے استاد کی اہمیت کو جان چکے ہیں، وہ اُسے عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ فکر معاشیات سے بھی آزاد کر چکے ہیں،جب کہ اس ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ ججز یا بیوروکریٹس کی ہے، اورجو طبقہ ججز اور افسر کو اس مقام تک پہنچانے کے قابل بناتا ہے وہ یا تو کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے یا بھوک سے مر رہا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ ویسے تو ہمارے ملک میں اُساتذہ کی کل تعداد 60لاکھ کے قریب ہے، جن میں سے 32لاکھ سرکاری اور 28لاکھ پرائیویٹ اساتذہ ہیں۔لیکن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 96فیصد اساتذہ بنیادی ضروریات سے محروم سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کا دنیا بھر کے اساتذہ کو دی جانے والی مراعات سے مقابلہ کریں تو حیرت کی بات ہے کہ ہم کسی رینکنگ میں ہی نہیں آتے۔

کیوں کہ ہم ایک اُستاد کو 2900ڈالر سالانہ یعنی 55ہزار روپے ماہانہ اوسطاََ تنخواہ دے رہے ہیں جب کہ سوئٹزرلینڈ میں 1لاکھ دس ہزارڈالر سالانہ، کینیڈا میں 80ہزار ڈالر، جرمنی70ہزار ڈالر، ہالینڈ 65ہزار ڈالر، آسٹریلیا 67ہزار ڈالر، امریکا 63ہزار ڈالر اور ڈنمارک، آسٹریا ، آئرلینڈ وغیرہ 60ہزار ڈالر سالانہ تنخواہیں دے رہے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں ایک اُستاد کی اوسطاََ ماہانہ تنخواہ اگر 55ہزار روپے بنتی ہے تو مذکورہ بالا ممالک میں اوسطاََ ماہانہ تنخواہ 7سے 9لاکھ روپے بنتی ہے۔

اُن کی عزت و تکریم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے  ہاں گریڈ 20کے کالچ یا یونیورسٹی کے پروفیسر کو ایک کانسٹیبل گرفتار کر سکتا ہے، ہمارے سترھویں گریڈ سے نیچے کے اساتذہ ہر سال خصوصاََبجٹ سے پہلے سڑکوں پر احتجاج کرتے اور پولیس سے ماریں کھاتے نظر آتے ہیں، ہر الیکشن ڈیوٹی میں، ہر امتحان کی ڈیوٹی میں یا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں آپ کو اساتذہ ہی ڈیوٹی دیتے نظر آئیں گے۔

مطلب! جس سوسائٹی میں استاد کی عزت نہیں ہوگی اور استاد کی تنخواہ تمام دیگر شعبوں سے زیادہ نہیں ہوگی، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ بلکہ اگر استاد کی تنخواہ زیادہ ہوگی، مراعات زیادہ ہوں گی، تو لوگ سی ایس ایس کرنے کے بجائے استاد بننا پسند کریں گے، قابل اور ذہن لوگ اساتذہ بنیں گے۔ جب آپ ججز کو ہر شعبہ سے ہٹ کر تنخواہیں دے رہے ہیں، گھر دے رہے ہیں یا ملک کا دفاع کرنے والی فورسز کو پلاٹ دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ظلم نہیں کہ انھی کے اساتذہ کسمپرسی کی حالت میں مر رہے ہیں، انھی کے اساتذہ اپنا گھر تک نہیں بنا سکتے، حتیٰ کہ یونیورسٹی کا پروفیسر بھی اپنا گھر نہیں بنا سکتا ۔

سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اساتذہ پر اتنا کیوں خرچ کرتی ہیں؟ ظاہر ہے وہ جانتی ہیں کہ ٹیچر ہی وہ شخصیت ہے جو قوم کو ڈلیور کرتا ہے، باقی شعبہ جات تو قوم کے لیے سروسز فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہ ٹیچر کو دوسرے طبقات سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ وہ سائنسدان پیدا کر سکیںاور تحقیق میں اپنے طلبہ کی مدد کر سکیں۔ جب کہ ہم اساتذہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے بھی دنیا بھر کی کسی رینکنگ میں نہیں آتے۔

حالانکہ ہمارا اسلام اس بات کا بار بار درس دیتا ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ لیکن ہماری تعلیمات پر مغرب عمل پیرا ہو کر کہاں سے کہاں نکل گیا ہے۔بہرکیف اس میں دو رائے نہیں کہ استاد کسی بھی قوم کا معمار ہوتا ہے۔اس معماری میں بھی کوئی تخصیص نہیں کہ وہ کہاں کہاں قوم کی تعمیر کرتا ہے اور کن کن علوم و فنون میں تعمیر کرتا ہے۔

مغرب علمی اور سائنسی دنیا میں اگر پوری اسلامی دنیا پر حکمرانی کررہا ہے تو استاد ہی کی مرہون منت ہے۔ ہمیں دل پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کون سی فیلڈ ہے جس میں مغرب ہم پر حکومت نہیں کر رہا۔ مصنوعات سے لے کر نظام حکومت تک اور تہذیب و تمدن او ر کلچر سے لے کر تعلیم و تحقیق تک، غرض ہرفیلڈ میں وہ مسلم امہ پر مسلط ہے۔مغربی دنیا میں آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ خالی نہ بھی ہو تو استاد کے لیے گنجائش نکالی جاتی ہے۔مغربی عدالتوں میں کسی بھی شخص سے یہاں تک کہ ان کا مذہبی پیشوا پادری سے بھی زیادہ استاد کی گواہی معتبر سمجھی جاتی ہے۔

امریکا جس کو گالیاں دیتے ہم تھکتے نہیں، وہاں آج بھی کسی طالب علم کو نمایاں کامیابی ملے تووہ اولین فرصت میں اپنے استاد کو سیلوٹ کرتا ہے جیسے ہمارے ہاں ایک سپاہی اپنے اعلیٰ آفیسر کو سیلوٹ کرتا ہے۔وہاں تو جنگ عظیم دوم سے لے کر آج تک یہ معاہدہ لاگو ہے کہ جنگ کے دوران دونوں متحارب گروپ علمی دانش گاہوں اور اساتذہ کی رہائش گاہوں پر کسی صورت حملہ نہیں کریں گے۔

بہرحال ایک انگریزی مقولہ ہے: A Teacher is a Beacon that lights the path of a Child (استاد وہ مینارہ نور ہے جوبچے کی راہ کو ‘‘علم و ہدایت سے ’’ منور کر دیتا ہے)، مغربی ممالک اور ہمارے ملک میں شعبہ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے، تب ہی ہم تہذیب یافتہ اقوام میں 128میں سے 119ویں نمبر پر آتے ہیں۔

اور ہمارے اساتذہ ہر وقت ذہنی طور پر مفلوج رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش انھوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرکے کسی اور شعبہ میں اپنے آپ کو کھپا لیا ہوتا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔