ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018

نسیم انجم  اتوار 9 اکتوبر 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

کسی بھی معاشرے کا زوال مقتدر حضرات کی دین ہوتی ہے، جب حکمران صرف اور صرف اپنے اور اپنے خاندان کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں تب قوم و ملک کے نفع و نقصان سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے اخلاقی و روحانی برائیاں پروان چڑھتی ہیں۔

ہمارے ملک میں تقریباً ہر شخص عادات رذیلہ کا شکار ہے، اقربا پروری، جھوٹ اور منافقت کا تو بازار اس وقت سے ہی گرم ہے جب پاکستان وجود میں آیا تھا ، لیکن معاشرہ گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے مزید پستی میں دھنستا جا رہا ہے۔ اخلاق و کردار سے بو آنی شروع ہوگئی ہے، گھناؤنی اور غیر انسانی حرکتوں کی بازگشت دور تک پہنچی ہے۔

’’ میرا جسم، میری مرضی‘‘ کا نعرہ ببانگ دہل لگایا جاتا ہے۔ حکومتیں بھی ان چند اوباش نوجوانوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں، خوب کوریج ہوتی ہے، میڈیا اور اخبارات پر تشہیر ہوتی ہے کسی وقت ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ قومی سطح پر منایا جانے لگا تھا لیکن صاحبان علم و بصیرت نے آواز اٹھائی اس کا فائدہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب کچھ کمی آئی ہے، لیکن اس رواج کا خاتمہ نہیں ہو سکا، یہ بھی مغرب کی اندھا دھند تقلید تھی، جس کے نتیجے میں شرفا کی اولادیں بھی سرعام رسوا ہوئیں۔

کم ازکم کسی بھی مغرب سے آنیوالے طریقہ واردات کے بارے میں معلومات تو حاصل کرلی جائیں کہ جس تباہی اور اسلام دشمنی پر رنگین اور روپہلا غلاف چڑھا کر پیش کیا گیا ہے تو اسے کم ازکم جانچ اور پرکھ تو لیں کہ ظاہر و باطن ایک سا ہے کہیں دھوکا اور ملاوٹ تو نہیں ہے، سابقہ تجربات کی روشنی میں عقل و خرد کو بروئے کار لاتے ہوئے اصل حقائق سے آشنا ہونا ضروری ہے کس طرح انگریزوں نے مسلمانوں پر حکومت کی ان کی ثقافت، تہذیب اور زبان پر ڈاکا ڈالا اور ملک پر قبضہ کیا اس کی دولت لوٹ کر لے گئے، ان کے اذہان بدل دیے گئے۔

سوچ و افکار کو تبدیل کرنے کے لیے ایسے اصول وضع کیے جو بظاہر تو فائدے مند نظر آتے تھے لیکن اندرونی طور پر مسلمانوں کے درخشندہ ماضی اور حال پر شب خون مارا گیا۔ کسی بھی کام پر عمل کرتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی اہم ترین ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اور آغاز سے انجام تک کماحقہ معلومات حاصل ہوں۔طارق بن زیاد، حضرت خالد بن ولید، ابن خلدون، مولانا رومی و جامی کی خدمات اور زندگیوں کے بارے میں جاننا ناگزیر ہوتا ہے، بنا سوچے سمجھے کیے گئے امور دین و دنیا کی ذلت اور جہنم کی آگ خریدنے کے مترادف ہوتے ہیں۔

آج ہمارے اس پاکستان میں علما سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں قومِ لوط جیسی آزادی اور صاحبان اختیارات کی سرپرستی نے دل دہلا دیے ہیں۔ ہم تو مسلمان ہیں اور یہ ملک لاالہ الااللہ کے نام پر وجود میں آیا اس کی بنیادوں میں مجاہدین کا خون شامل ہے اور مجاہد و شہید کے بڑے مراتب ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے۔

قوم لوط کا بھی ذکر بارہا یعنی 17 بار قرآن کریم میں آیا ہے اور بحر مردار جس میں یہ غرق ہوئے شام کے راستے میں پڑتا ہے جہاں قومِ لوط کے اجسام ان کی ہڈیاں، گوشت سڑتا گلتا رہا، فرعون کی موت بھی اسی بحرِ میت میں ہوئی تھی، اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنیوالے نشان عبرت بن چکے ہیں۔ حضرت لوطؑ اللہ کے پیغمبر تھے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے سدوم کے رہائشیوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا تھا، سدوم پانچ شہروں کا دارالحکومت تھا۔

قوم لوط شہر سدوم اور عمورہ میں آباد تھے، ان شہروں کو قرآن کریم نے موتفکہ یا موتفکات کہا ہے، یعنی الٹی ہوئی بستیاں۔ چونکہ ان بستیوں کو اللہ کے حکم سے دو فرشتوں نے اپنی جگہ سے اٹھا کر الٹ دیا تھا اور پھر سنگ باری نے ان کا کام تمام کردیا یہ لوگ حضرت لوطؑ کے ڈرانے پر بار بار کہا کرتے تھے کہ ’’ تم جھوٹ بولتے ہو، عذاب کہاں ہے؟‘‘

اس قوم میں تمام برائیاں موجود تھیں جیسے آج کل ہمارے معاشرے میں اسلامی و غیر اسلامی برائیاں موجود ہیں۔ یہی قوم لوط اس خبیث عمل کے بھی موجد تھے، شیطان نے ایک بوڑھے کا روپ بدل کر یہ راہ دکھائی کہ تم اس بدترین گناہ کا ارتکاب کرو، تو تمہارے علاقوں میں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ پھر کبھی نہیں آئیں گے، یہ شہر اپنی شادابی اور سرسبز ہونے کی وجہ سے دلکشی کا باعث تھے، اسی وجہ سے آئے دن ان کے مہمان آ جاتے گویا مہمان نوازی ان کے لیے بار گراں تھی، شیطان کا سمجھایا ہوا عمل کامیاب ہو گیا اور لوگوں نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی سے بچنے کے لیے ان خطوں میں جانا ترک کردیا۔

اہل مغرب کفر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنا سکون گنوا بیٹھے ہیں، لہٰذا طرح طرح کے طریقے ایجاد کرتے ہیں، سکون دل کے لیے کبھی ’’ ہیپی‘‘ بن کر جنگلوں کی خاک چھانتے ہیں، اپنے کپڑوں میں پیوند لگانا جینز وغیرہ کو پھاڑ کر پہننا اور اب تو حالات یہ ہیں بہت سے اچھے خاصے انسانوں نے جانوروں کا گیٹ اپ کرکے اپنے آپ کو پنجروں میں بند کرلیا ہے اب وہ بلی، کتا بن کر بھونکتے اور میاؤں میاؤں کرتے ہیں۔ ان کی تعداد لگ بھگ پچاس، ساٹھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ مغربی معاشرہ فطرت اور قدرت کی ہر پابندی سے آزاد ہو کر انسانی معاشرے کو تباہ کرنے میں پیش پیش ہے۔ مادر پدر آزادی سے بڑھ کر کئی قدم آگے نکل چکے ہیں۔

پاکستان میں بھی مغربی تہذیب نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اسلامی تعلیم و ثقافت سے نابلد لوگوں نے سوشل میڈیا کی خرابیوں کو دل سے قبول کرلیا ہے۔ ان دنوں علما و مشائخ میں ٹرانس جینڈر کا قانون زیر بحث ہے۔ نظریاتی کونسل نے ٹرانس جینڈر کی متعدد دفعات کو شریعت کے منافی قرار دے دیا ہے، وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر قانون 2018 کے خلاف جے یو آئی کی شریعت پٹیشن باقاعدہ عدالت میں سماعت کے لیے منظور کرلی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’جب حمایت میں ووٹ دیا تو پانچ سال بعد عدالت میں کیا لینے آئے ہیں؟‘‘ اسلامی ملک کا یہ حال ہے جہاں اسلامی تعلیمات کے منافی کام کیا جا رہا ہے۔

اب آتے ہیں غیر اسلامی ملک زمبابوے کی طرف، جس کا صدر عیسائی ہے۔ سب سے پہلے ٹرانس جینڈر کا قانون زمبابوے میں اپلائی کیا گیا ہے، امریکا نے 2015 میں یہ قدم اٹھایا، وہاں بھی ہم جنس پرستوں کا ٹولہ سڑکوں پر آگیا تھا کہ انھیں ان کے حقوق دیے جائیں ، لیکن پاکستان کے برعکس وہ ہوا جسے ہمیشہ تاریخ یاد رکھے گی۔

زمبابوے کے صدر رابرٹ مونگاسے نے اس بدکار جماعت کو جیل میں ڈال دیا، جیل میں مرد اور عورتوں کو الگ الگ قید کیا گیا اور پھر صدر موگاسے نے کہا، اب تم لوگ آبادی بڑھا سکتے ہو؟ چونکہ میرے ملک کو آبادی کی ضرورت ہے، صدر کی جانب سے لیے گئے ایکشن کے خلاف سابق امریکی صدر اوباما بھی ٹرانس جینڈر کی حمایت میں آگئے، زمبابوے کے صدر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انھوں نے اوباما کا ہاتھ مانگ لیا۔ پھر اس مصرعے کے مصداق ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘ دکھتا بھی ہے کم۔‘‘

یہ دور ابتلا اور فتنوں کا ہے اس وقت تمام اہل فکر اہل نظر کی ذمے داری ہے کہ وہ ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنے ملک اور قوم کو برباد ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ تحریر و تقریر اور اسکول و کالج، مدارس و مکاتب کی سطح پر آواز بلند کریں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔