چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تحریک انصاف کا ریفرنس

مزمل سہروردی  جمعرات 20 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے سینیٹر اعجاز چوہدری کے ذریعے بالآخر چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔

ویسے تو تحریک انصاف نے اگست میں بھی اسی طرح کا ایک ریفرنس دائر کیا تھا لیکن دو دن بعد وہ ریفرنس واپس لے لیا تھا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان اب یہ ریفرنس واپس نہیں لیں گے۔میری رائے میں یہ ریفرنس عمران خان اور تحریک انصاف نے ہی دائر کیا ہے۔

اسے عمران خان کا ریفرنس ہی سمجھنا چاہیے۔ اعجاز چوہدری ایک پراکسی سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمران خان جب سے وزارت عظمیٰ سے معزول ہوئے ہیں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں جب سے موجودہ چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس سننا شروع کیا تھا تب سے ہی عمران خان نے انھیں نشانے پر رکھا ہوا ہے۔

سپریم جیوڈشل کونسل کے پانچ ممبران ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان اس کے سربراہ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس کے سربراہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے دو سنیئر ترین جج صاحبان اس کے ممبر ہوتے ہیں۔ اس طرح جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود سپریم جیوڈیشل کونسل کے ممبران ہیں۔

ہائی کورٹس کے دو سنیئر ترین چیف جسٹس صاحبان بھی سپریم جیوڈیشل کونسل کے ممبران ہوتے ہیں۔ اس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ اس وقت سپریم جیوڈیشل کونسل کے ممبران ہیں۔

یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف کارروائی کا اسے مکمل اختیار ہے۔ اسی طرح پاکستان کے آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کو بھی صرف جیوڈیشل کونسل ہی نکال سکتی ہے۔ اگر اس کے خلاف موصول شکایت درست ثابت ہو جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کو اس ریفرنس پر غور کرنے کے لیے فوری طور پر اجلاس بلانا چاہیے۔ اگر سپریم جیوڈیشل کونسل سمجھتی ہے کہ ریفرنس میں کوئی دم ہے تو وہ چیف الیکشن کمشنر کو شو کاز جاری کر سکتی ہے تا کہ کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔

ورنہ اس ریفرنس کو ابتدائی غور کے بعد بھی مسترد کیا جا سکتا ہے۔لیکن اس کو التوا میں رکھنا عمران خان کو سیاسی فائدہ دینے کے مترداف ہوگا۔ جب بھی چیف الیکشن کمشنر کوئی فیصلہ کریں گے عمران خان کہیں گے ہم نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہوا ہے۔ اس لیے ہمارے خلاف فیصلہ کیا جا رہا ہے۔

وہ کوشش کریں گے اس ریفرنس کے آڑ میں چیف الیکشن کمشنر کو کام کرنے سے روکیں۔ اس لیے میری رائے میں معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سپریم جیوڈشل کونسل کو پہلی فرصت میں اس ریفرنس پر اجلاس بلانا چاہیے۔

اگر سپریم جیوڈشل کونسل عمران خان کے ریفرنس میں کوئی جان دیکھتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو شو کاز جاری کرتی ہے تو میری رائے میں انھیں یہ شو کاز سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے اور استدعا کرنی چاہیے کہ جیسے جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی عیسیٰ کے لیے فل کورٹ بنایا گیا تھا۔

ان کے لیے بھی فل کورٹ بنایا جائے۔ اور ایک کھلی عدالت میں اس ریفرنس کی سماعت کی جائے۔یہ ایک اہم معاملہ ہے یہ کسی عام جج کا معاملہ نہیں کہ کئی سال بھی چلتا رہے تو کوئی بات نہیں۔ یہ چیف الیکشن کمشنر کا معاملہ ہے جسے زیادہ لٹکانے سے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان ہوگا۔ اب عمران خان نے چاہے ایک پراکسی کے ذریعے ہی لیکن قانون کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔

اس لیے سپریم جیو ڈشل کونسل کو انھیں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بیان بازی سے روکنا چاہیے۔ انھیں کہنا چاہیے کہ جب تک سپریم جیوڈشل کونسل اس ریفرنس پر غور کر رہی وہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے احترام میں خاموش رہیں گے۔ ویسے بھی مجھے یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں لگتا جس پر دیر لگے اگر سپریم جیوڈشل کونسل چاہے تو اس کو فوری حل بھی کر سکتی ہے۔

تاخیر عمران خان کو فائدہ دینے کے مترادف ہوگی۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی ذات کو متنازعہ بنانے کا باعث بنے گی۔ اس سے الیکشن کمیشن کا کام بھی متاثر ہو گا۔ اگر عمران خان کے الزامات غلط ثابت ہوں اور ان میں کوئی جان نہ ثابت ہو ،تو کیا صرف ریفرنس مسترد کرنا کافی ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف الیکشن کمشنر کی ذات کو متنازعہ بنانے کی بہت کوشش کی گئی ہے۔

انھوں نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ اب تک انھیں عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر لوگوں کو توہین الیکشن کمیشن میں سزا دے دینی چاہیے تھی۔ اس لیے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف منفی پراپیگنڈا کا بھی کوئی حل ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔