کہانی گھرگھر کے گھروالے کی

لبنیٰ مقبول  اتوار 13 نومبر 2022
خطرناک اور شدید سے شدید ناراض میاں بیوی کی صلح اکثر رات کے اوقات میں ہی ہوتی ہے۔ فوٹو : فائل

خطرناک اور شدید سے شدید ناراض میاں بیوی کی صلح اکثر رات کے اوقات میں ہی ہوتی ہے۔ فوٹو : فائل

بالوں میں دو چار سفید بال کیا نکل آئے، مشورے دینے میں ہم خود کو طاق سمجھنے لگے۔

واپڈا اور کے الیکٹرک کی مہربانی اور متواتر پانی و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سے حال حلیہ فلسفیانہ سے درویشانہ کیا بنا کہ جوق در جوق لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہونے لگے اور اپنے اپنے مسائل ہمارے گوش گزار کرنے لگے۔ اب یہ قسمت ہی تھی کہ دو چار الٹے مشورے سیدھے ہو گئے تو ہماری درویشی کو جاتی جوانی میں سند مل گئی۔

اب شہرت کا حال بالکل اسی سیاست داں جیسا تھا جو الیکشن میں کھڑا ہو اور اسے پورے دن میں بس دو ووٹ ملے۔ ایک تو خود اس کا اپنا اور دوسرے ووٹر کو وہ ڈھونڈتا ہی رہا کہ ملے تو پاؤں پڑ جائے اور اس کو اپنا مرشد بنا لے جسے اس کی اتنی خوبیاں نظر آئیں کہ ووٹ دے ڈالا۔

اگلا پورا دن ڈھونڈنے کے بعد اس ووٹر کا معلوم ہوا کہ اسی اناسی سال کے بزرگوار ہیں۔ رعشے کے پرانے مریض ہیں اور حالت بیماری میں لیفٹ کو رائٹ کرتے ہیں اور اپ کو ڈاؤن۔ بس ووٹ پر ٹھپا بھی اسی بیماری کے باعث لگا ڈالا کہ کرنا تھا اپ ہو گیا ڈاؤن۔

اپ ڈاؤن اپ، اپ ڈاؤن اپ!

بس کچھ یہی حال ہماری شہرت کا بھی تھا کہ کل ملا کر چار دوستوں سے ہوتی ہوئی شہرت جب ان کے پانچویں دوست تک پہنچی تو آ بیٹھے وہ موصوف ہمارے سامنے اور ہمارا آشیرباد حاصل کرنے کے بعد کچھ یوں شکوہ کناں ہوئے کہ مرشد! میں خود کو بڑا ہی کوئی معاملہ فہم اور زیرک انسان سمجھتا ہوں اور الحمدللہ کافی حد تک ہوں بھی مگر مرشد! یہ ساڑھے پانچ فٹ کی بیگم مجھے اپنی ازدواجی زندگی کے سولہ برس گزار کر بھی سولہ آنے سمجھ نہیں آ سکی۔ کروں تو کروں کیا آخر؟

اب سچ پوچھیں تو لفافے سے ہی خط کا عنوان سمجھ آگیا تھا، مزید کچھ پوچھنا عبث تھا کہ یہ کہانی تو گھر گھر کی ہے۔ یہاں تو لوگ پچاس برس ساتھ گزار کر بھی نہ سمجھ سکے تھے۔ سقراط اسی چکر میں اپنی بقراطی جھاڑتے ہوئے زہر کا پیالہ پی گیا تو پھر یہ کس کھیت کی مولی تھے۔

ہم نے ناک سکیڑی اور پکوڑے کی طرح منہ بنایا۔ اور موصوف پر فلسفے کی مار جھاڑی۔

’’عورت سمجھ میں نہیں آتی خاص کر جب وہ آپ کی اپنی بیوی ہو۔‘‘

یہ کہہ کر ہم نے پھر سے سنجیدہ منہ بنانے کی ناکام کوشش کی اور ناک سے پھسلتے چشمے کو واپس ناک پر دھرا مگر چشمہ بھی ایک نمبر کا ڈھیٹ تھا کھٹ سے پھسل کر اپنی سابق جگہ پر کسی ڈھیٹ سیاست داں کی طرح پورے استحقاق سے واپس آ براجمان ہوگیا۔

تو پھر کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا مرشد؟

کوئی تعویذ، کوئی وظیفہ، کوئی چلہ کشی وغیرہ

کوئی تو اُپائے ہو گا مرشد؟

جتنی آس اور امید سے ہمیں دیکھا گیا ہمارا بس چلتا تو موصوف کی بیگم کو ایک ہی جست میں سیدھا کر دیتے بشرطیکہ وہ ٹیڑھا ہو کر بیٹھی ہوتیں مگر وائے افسوس وہ سامنے موجود ہی نہیں تھیں۔ خیر اب اس مرحلے پر ہمارا حد سے زیادہ سنجیدہ ہونا بنتا تھا کیونکہ معاملہ بہت نازک اور حساس نوعیت کا تھا۔

اتنا حساس کہ امریکا بھی اگر پاکستان سے منہ پھلا لے تو چل جاتا ہے کہ دوسرے دوست ممالک سے کچھ نہ کچھ تعاون اور امداد حاصل ہو ہی جاتی ہے مگر بیگم منہ پھلا لے تو اپنے ہی گھر میں ناطقہ بند ہو کر چائے روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

ہم نے کچھ آڑی ترچھی لکیریں کاغذ پر کھینچیں اور ایسے مایوسی سے سر ہلایا جیسے دھوبی کا سارا حساب ہی غلط نکل آیا ہو۔ پھر کچھ سوچنے کی اوور ایکٹنگ کی اور کمال ہوشیاری سے مہینے کے راشن کی لسٹ اپنے دماغ میں مرتب کرلی۔پھر آنکھیں بند کرکے شہادت کی انگلی کو گول گول ہوا میں گھماتے ہوئے گویا ہوئے۔

ایک ہی مالا صبح شام جپتے رہیں۔۔۔”بیگم بیگم بیگم بیگم” ان شا اللہ صدق دل سے کہا جانے والا یہ وظیفہ کارگر ہوگا اور بیگم سے بندہ بے غم ہوگا۔

مگر مرشد آپ نے “چار بار بیگم بیگم بیگم بیگم” کہا ہے۔

اس جملے پر ہم نے آنکھیں پوری طرح کھول کر موصوف کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔ چہرے پر پھیلی ہوئی بے حساب خوشی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہ تھا۔

ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اب ہم موصوف کو اکلوتی ذاتی بیگم رکھتے ہوئے مزید بیگمات کی درآمد کا کوئی میرج لائسنس تو جاری کر نہیں رہے تھے۔ موصوف کو ہاتھ پکڑ کر باہر نکالنا لازمی تھا جو کہ خوش فہمی کے جنگل میں اس وقت خوشی خوشی تن تنہا بھٹک رہے تھے۔

تعداد طاق رکھیں ورنہ وظیفہ الٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ چار تو کیا آئیں گی موجودہ ایک سے بھی کہیں ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ وظیفے پر دھیان دیں اور ہاں وفورِجذبات سے بیگم زیادہ ادا ہوجائے تو فوری گنتی پوری کریں اور طاق پر پہنچا کر ہی دم لیں۔

موصوف کی خوشی کافور کرتے ہوئے اور لہجہ سخت بناتے ہوئے ہم نے فوری کہا۔

مگر مرشد بیگم کو طاق پر کیسے پہنچاؤں۔ اول تو گھروں کے طاق بہت چھوٹے ہوتے ہیں بیگم پوری طرح اس میں ایڈجسٹ نہیں ہوپائیں گی، اور دوم کہ آج کل کے گھروں میں اب طاق ہوتے بھی نہیں ہیں کہ نہ رہے چراغ تو کیسے اب سجیں طاق۔

اب موصوف کو گھورنے کی باری ہماری تھی مگر وہاں تو عالمِ ڈھٹائی بڑی بے فکری سے جاری تھا۔

ویسے ایک نے ہی اس قدر مایوس کیا ہے اب مزید کی ہمت نہیں ہو رہی مرشد

چیلے نے کچھ شرماتے لجاتے ہوئے کہا۔

مایوسی کفر ہے۔ کوشش کریں کہ اسی کنویں سے میٹھا پانی نکل آئے مزید کھدائی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

مرشد گزشتہ سولہ برس سے استقامت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہوں۔ کھدائی پر کھدائی کیے جا رہا ہوں اتنی کھدائی کے بعد تو چولستان کے کنوؤں سے بھی پانی نکل آتا ہے مگر یہاں تو پتھر نکلتے ہیں جو لگتا ہے خود اس کی عقل پر پڑے ہوتے ہیں وہی اٹھا کر مجھ پر کھینچ مارتی ہے۔

بس پھر کیا غم۔۔۔لگے رہو منا بھائی

ہائے غم تو پھر غم ہے

جتنا بھی کروں کم ہے

ارے مگر معلوم تو ہو معاملہ کیا ہے آخر؟

پوری بات بتائیں۔۔۔ بلکہ یہ بتائیں کہ آپ کے ساتھ آپ کی بیگم کا سلوک کیسا ہے؟

ہم نے سنجیدگی کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کی اوور ایکٹنگ کی۔

کیا بتاؤں مرشد! میری دکھ بھری داستان سننا آسان نہیں مگر پھر بھی آپ جتنی بھی مشکل سے سنیں، سنیں ضرور اور کوئی حل بھی بتائیں۔

ہم نے سنجیدگی کی اوور ایکٹنگ میں مزید دو اوور مکمل کیے اور سر سے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔

مرشد اب آپ ہی بتائیں کہ بندہ پورے دن کا تھکا ہارا دفتر میں مغزماری کر کے گھر واپس آئے اور بیگم منہ پھلا کر کونا پکڑ کر بیٹھ جائے۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟

معاملات واقعی گمبھیر تھے۔ ہم نے افسوس سے اس دکھ بھری داستان کو سن کر سر ہلایا، دماغ میں سانپ سیڑھی کا کھیل چل رہا تھا۔ کاغذ پر دو چار لکیریں اور کھینچ ڈالیں اور موصوف کو اشارہ کیا کہ داستانِ الم جاری رکھی جائے۔ جتنی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے نکال دینی ہے ابھی۔

موصوف نے اس حد تک سرد آہ بھری اور گہری سانس کھینچی کہ ہم کو گماں گزرا کہ کہیں کمرے کی آکسیجن میں کمی واقع نہ ہوجائے۔ کہنے لگے، میں خود کو ماہرنفسیات سمجھتا تھا اور کسی حد تک اپنے اس دعوے کو حقیقت بھی سمجھتا ہوں لیکن بیگم کی نفسیات سمجھتے سمجھتے خود نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہوں۔

کبھی یہ سخت قسم کا سونامی بن جاتی ہے تو کبھی خوش نما گل دستہ بن جاتی ہے۔ زیادہ تر معرکوں کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے اس کے بعد دن بھر کے کھانے کی چھٹی ہوجاتی ہے کہ اب ناراض بیوی کھانا پکاتے اچھی نہیں لگتی، وہ تو اپنے جہیز کا دوپٹہ سر پر لپیٹے صوفے پر منہ پھلائے لیٹی زیادہ اچھی لگتی ہے نا۔

ہم نے اظہارِافسوس کرنا چاہا مگر ہنسی چھوٹنے کا خدشہ تھا سو خاموش ہی رہے اور ایک بار پھر سر ہلا کر بات جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔

اب مرشد کل صبح کا ہی احوال سنیں۔ کل صبح ناشتے کی میز پر جنگِ عظیم چہارم چھڑگئی۔ چہارم اس لیے کہ جنگ کا مسلسل چوتھا روز تھا اور متواتر شکست مجھ غریب کی ہی ہو رہی تھی۔

دیسی گھی کے پراٹھے مع دو عدد انڈوں کا پھیکا سا آملیٹ، اچار اور بنا چینی کے چائے کا مگ۔ سارے لوازمات میرے سامنے تھے اور میں اپنے مزاج کے خلاف پھیکے سے آملیٹ اور بنا شکر کے چائے پر کوئی ردعمل دیے بغیر اندر ہی اندر دہک رہا تھا، مگر ایک چنگاری اُڑ ہی گئی اور میری شامت آئی تھی کہ بے ساختہ بول اٹھا کہ سنو کبھی آملیٹ میں نمک ڈال کر ٹرائی کرنا ذائقہ کافی بہتر ہو جائے گا۔ بس وہ نمک جسے آملیٹ میں ہونا چاہیے تھا یکایک میرے زخموں پر آن پڑا اور پھر میرے کانوں نے موسیقی کے بے ترتیب راگ تب تک برداشت کیے جب تک موسیقار خود تھک نہیں گیا۔

حالانکہ چائے میں چینی کی عدم موجودگی والی بات کو میں نے کہیں اندر ہی دبا لیا تھا کیونکہ میں نے سوچا کہ ایک حقیر سے مول بکنے والے نمک نے ایسی تباہی مچائی ہے تو اس مہنگائی کے زمانے میں سونے کے بھاؤ بکنے والی چینی بھلا کیا گل کھلائے گی۔ بس اس کے بعد پھر سارا دن ہی سرد جنگ میں گزرا۔

ہم نے اس مایوس کن صورت حال میں افسوس سے سر ہلایا کہ بجز سر ہلانے کے کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔

اچھا آج صبح کی کاروائی سنیں مرشد!

ہم پھر سے ہم تن گوش ہو گئے۔

آج صبح نکڑ کی دکان سے ناشتے کے لیے انڈے ڈبل روٹی شہد لے کر گھر پہنچا تو بچوں کو باآواز بلند کسی بات پر ڈانٹ پلائی جا رہی تھی تو بس میری شامت ہی آئی تھی جو شہد ڈبل روٹی بیگم کو پکڑاتے ہوئے بیچ میں امریکا کی طرح مداخلت کر بیٹھا اور سمجھایا کہ آہستہ بولا کرو۔ آواز باہر تک جاتی ہے۔

محلے کے لوگ سمجھیں گے کہ بچوں کے ابا کو ڈانٹ پڑ رہی ہے۔ تو بس اتنی سی بات پر ہی بیگم کا منہ ایسا سوجا جیسے میں شہد کی بجائے شہد کی مکھیوں سے بھرا ہوا چھتا گھر لے آیا ہوں۔

بس پھر کیا تھا دومنٹ کے اندر ہی گھر کی کئی دنوں سے ساکت پڑی چیزیں اچانک ہی ہوا میں اچھلنے لگیں۔ دو دن سے صوفے پر پڑا بدبو مارتا تولیہ صوفے سے نکلا تو میزائل کی طرح جا کر صحن کی رسی پر اٹکا۔ بچوں کی کاپیاں کتابیں میز سے اٹھا کر بستوں میں یوں پٹخ کر رکھی گئیں جیسے کسی دھوبی گھاٹ پر میلے کچیلے کپڑے پٹخے جاتے ہیں۔

باورچی خانے میں کبھی بند نہ ہونے والا آٹے کا کنستر یوں بند ہوا کہ پھر کھل کر آہ بھی نہ بھر سکا۔ اور تو اور ڈوئی، ہانڈی میں یوں گھمائی جا رہی تھی جیسے میدانِ جنگ میں تلوار۔ چمچوں کی اٹھا پٹخ کا یہ عالم تھا کہ اگر سیاسی چمچے دیکھ لیتے تو سیاست میں چمچہ گیری کرنے سے ہمیشہ کے لیے باز آ جاتے۔ پلیٹیں کھڑکھڑا رہی تھیں اور سالن میں طبیعت سے ڈالی گئی مرچیں لال گلال ہو کر شرما رہی تھیں۔ بس مرشد سارا دن یہی سلسلہ رہا۔ تیز بارش کے ساتھ اولے برستے رہے۔

اتنی داستان سننے کے بعد تاسف کا اظہار ضروری تھا، سو ہم نے موصوف کو ٹشو پیپر تھمایا کہ آنسو پونچھ لیں مگر انہوں نے اس سے فقط ناک ہی پونچھی۔ پونچھا لگا کر موصوف پھر گویا ہوئے۔

مرشد اس وقت گھر میں مزید رکنا خطرناک ہو سکتا تھا، لہٰذا میں سکون کی تلاش میں گھر سے باہر کسی کام کا بہانہ بنا کر نکل پڑا۔ جب نکلا تھا تب تک تو یہ سونامی بن کر قہر ڈھا رہی تھی لیکن جب واپس آیا تو زردے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے مسکرا کر میرا استقبال کر رہی تھی۔ ہائے مرشد کوئی گرگٹ بھی اتنی تیزی سے رنگ نہ بدلتا ہوگا جیسے یہ رنگ بدلنے میں مہارت رکھتی ہے۔

میں حیران پریشان تھا کہ خدا خیر کرے ایسا کونسا معجزہ ہو گیا جو یہ مئی کے مہینے سے ڈائریکٹ دسمبر پر پہنچ گئی ہیں۔ جلد ہی عقدہ کھلا کہ اس اتوار کو ساس سسر مع بیٹی اور نئے داماد کے ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں اور دو تین دن تک پڑاؤ یہیں رہے گا اور اگر ان دو تین دنوں میں ساس صاحبہ کا ادھر بچوں میں دل لگ گیا تو پھر ان کا پڑاؤ مستقل یہیں رہے گا۔ قسم سے مرشد زردہ کھاتے ہوئے بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اپنے ہی سوئم کی بغیر بوٹیوں والی اجڑی بریانی کھارہا ہوں جس کے ساتھ کولڈ ڈرنک بھی نصیب نہیں ہوتی۔

ہم نے جلدی سے ٹشو پیپر کا ڈبا موصوف کے سامنے دھرا تاکہ وہ نہ بہہ سکنے والے آنسوؤں کو خیالی پونچھ ڈالیں کہ یہ وہ آگ تھی جس کے شعلے دکھتے نہیں بس مسلسل دھواں اٹھتا رہتا ہے۔

ہمارے سامنے پڑے کاغذ پر لکیریں مزید گہری ہوگئیں۔ سانپ نیچے آ گیا سیڑھی اوپر چلی گئی مگر دکھڑے کی پٹاری جو کھلی تو بند نہ ہوئی۔

پھر وہ موصوف اپنا سیل فون ہمارے سامنے کر کے کہنے لگے کہ یہ دیکھیں مرشد! یہ ویڈیو ہماری محترمہ نے ہمیں بھیجی تھی ابھی کچھ دیر پہلے۔

ہم نے اشتیاق سے موبائل اسکرین پر چلنے والی بیس سیکنڈ کی وڈیو دیکھی جس میں ایک نازک اندام حسینہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہہ رہی تھی روک سکو تو روک لو۔۔۔۔(آگے کے فقرے زبان زدِعام ہیں لکھنے کی کیا ضرورت)

وڈیو دیکھ کر ہم نے موصوف کو تشویش ناک نظروں سے دیکھا اور کہا۔

ارے یہ تو کھلی دھمکی بھیجی ہے آپ کی بیگم نے ڈھکے چھپے انداز میں۔

ہیں دھمکی۔۔۔مگر وہ کیسے؟

آپ نے شاید وڈیو پر غور نہیں کیا اتنی تنگ سیڑھیوں پر ایک وقت میں ایک ہی بندہ چڑھ سکتا ہے اور آپ کی بیگم چڑھ رہی ہیں، البتہ برابر میں ایک اور سیڑھی ہے جس پر بورڈ لگا ہوا ہے۔

” براہ مہربانی نیچے اترنے کے لیے استعمال کریں”

موصوف کی آنکھیں عین اسی طرح پھیل گئیں جیسے بیگمات شاپنگ کرتے ہوئے پھیل جاتی ہیں۔

آپ کی بیگم لگتا ہے اب آپ کو آپ کی اس مسند پر جہاں آپ سر کے تاج کی طرح براجمان ہیں وہاں سے اتار کر ہی دم لیں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنائیں بیٹھ کر، سکون سے، تسلی سے مسئلہ پوچھ لیں۔

ہاں بات تو ٹھیک ہے مرشد! لیکن مجھے پتا ہے اس بات پر بیگم کا ردعمل کیا ہوگا۔ کہے گی میں کون سا بلا رہی تھی آپ کو، آپ بھی نہ بلاتے۔ نہ آتے مجھے منانے۔

مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ ناراضی کو طول دینا مناسب نہیں۔ دال دلیہ گھر سے ہی چلتا رہے تو اچھا ہے۔ ہم نے سنجیدگی سے غیرسنجیدہ الفاظ کہے۔

اچھا مرشد! کرتا ہوں کچھ۔ بس آپ کی آشیرباد رہنی چاہیے۔ ہم نے خلا میں ہاتھ موصوف کے سر پر پھیرا اور ایک تاسف بھری نظر ان کے سر کے گھنے بالوں پر ڈالی جو جلد یا بدیر بیگم کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اڑنے والے تھے۔ موصوف اِدھر چلا میں اُدھر چلا جیسی چال کے ساتھ گھر کو روانہ ہوئے۔

رات کو ہمارے موبائل اسکرین پر نئے میسیج کا الرٹ آیا تو ہم نے میسیج دیکھا۔ ان موصوف کا ہی میسیج تھا۔

مرشدً دنیا کا سب سے مشکل سفر یہی لگتا ہے جب ناراض بیوی مسہری کے دوسرے کونے پر منہ پھلائے سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہو تب مسہری کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی خلیج کا فاصلہ پاٹنا ایسے ہی لگتا ہے جیسے پرانے زمانے کے اسٹیم انجن والے شپ سے خلیج بنگال کا سفر طے کیا جا رہا ہو۔۔۔وقفے وقفے سے کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا پڑتا ہے۔

مگر سفر تو کرنا ہے نا۔ ہم نے مختصر ریپلائی کیا۔

جی مرشد!

بس تو پھر بیگم کو منانے کی کوشش کریں۔ اگر اپنی زندگی کے غم کچھ کم کرنا ہیں تو۔ ہم نے جوابی ریپلائی کیا اور سیل بند کرکے ٹی وی اسکرین آن کر دی جہاں ہمارا پسندیدہ ڈراما اپنے پورے کلائمکس پر تھا۔ پچیسویں قسط میں جا کر تینوں بیویوں کی صلح ہوگئی تھی مگر آپس میں۔ محاذ اب بھی گرم تھا اور ان تینوں کا اکلوتا شوہر اپنے ہی گھر میں گوشۂ عافیت ڈھونڈ رہا تھا۔ ماننا پڑے گا کہ یہ چینل والے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیا کیا کانٹینٹ لاتے ہیں۔

اگلے دن صبح صبح موصوف کا خوشی سے چہکتا ہوا میسیج آیا۔

صلح ہو گئی مرشد!

ہم نے جواباً وکٹری کا ایموجی بھیج کر موبائل بند کیا اور میز پر رکھے سانپ سیڑھی کے کاغذ کا گولا بنا کر اسے ڈسٹ بن کی نذر کیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ خطرناک سے خطرناک اور شدید سے شدید ناراض میاں بیوی کی صلح اکثر رات کے اوقات میں ہی ہوتی ہے جب کہ بھرپور زبانی حملوں اور گھر والوں کے سامنے ایک دوسرے پر میزائل داغنے اور فائر کرنے کے لیے دن سے بہترین وقت اور کوئی نہیں ہوتا جب کہ پورا خاندان آپ کی ہمت و شجاعت کو داد دیتا ہوا آپ سے مرعوب رہتا ہے کہ شوہر ہو تو ایسا جو بیوی کو قابو میں رکھنے کا گر اچھی طرح جانتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔