- سعودی ولی عہد کا رواں ماہ دورۂ پاکستان کا امکان
- سیاسی بیانات پر پابندی کیخلاف عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر
- ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کیلئے قومی ٹیم کی نئی کِٹ کی رونمائی
- نازک حصے پر کرکٹ کی گیند لگنے سے 11 سالہ لڑکا ہلاک
- کے پی وزرا کو کرایے کی مد میں 2 لاکھ روپے ماہانہ کرایہ دینے کی منظوری
- چینی صدر کا 5 سال بعد یورپی ممالک کا دورہ؛ شراکت داری کی نئی صف بندی
- ججز کا ڈیٹا لیک کرنے والے سرکاری اہلکاروں کیخلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دائر
- کراچی میں ہر قسم کی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا فیصلہ
- سندھ ؛ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں ترقیاتی بجٹ کا 34 فیصد خرچ ہوسکا
- پنجاب کے اسکولوں میں 16 مئی کو اسٹوڈنٹس کونسل انتخابات کا اعلان
- حکومت کا سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے عبوری فیصلے پر تحفظات کا اظہار
- طعنوں سے تنگ آکر ماں نے گونگے بیٹے کو مگرمچھوں کی نہر میں پھینک دیا
- سندھ میں آم کے باغات میں بیماری پھیل گئی
- امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات، قانون کی حکمرانی پر گفتگو
- کراچی میں اسٹریٹ کرائم کیلیے آن لائن اسلحہ فراہم کرنے والا گینگ گرفتار
- کراچی میں شہریوں کے تشدد سے 2 ڈکیت ہلاک، ایک شدید زخمی
- صدر ممکت سرکاری دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشنز سے ہوشیار رہیں
- روزمرہ معمولات میں تنہائی کے چند لمحات ذہنی صحت کیلئے ضروری
- برازیلین سپرمین کی سوشل میڈیا پر دھوم
شرح سود میں تیزی سے اضافہ،معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ
کراچی: شرح سود میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں معاشی مشکلات بڑھنے کا خطرہ منڈلانے لگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ شرح سود بڑھائی ہے، اس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔26 نومبر کو مرکزی بینک نے بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کردی۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کے مختصر مدتی نتائج، طویل مدتی نتائج سے بہرحال کم ہوں گے۔
ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگاروں کو اس پر شبہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں بڑھنے والے افراط زر کو جارحانہ مانیٹری پالیسی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ نئی ہے، تاہم آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے کہ معاملات کو فوری سدھارا جائے۔
16فیصد شرح سود بہت زیادہ ہے، اس صورت حال میں پالیسی بنانے والوں کی نظریں جن مثبت باتوں پر مرکوز ہوسکتی ہیں، وہ حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے، خام تیل کی قیمت 120ڈالر سے کم ہوکر 80 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی ہے۔
قدرتی طور پر پاکستان ، ترکی کے ماڈل کو نہیں اپنا سکتا ہے، جسے ’’ترکونومکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے برعکس ترکی میں مرکزی بینک شرح سود میں مسلسل کمی کرتے ہوئے اسے صرف 9 فیصد کی شرح پر لے آیا ہے جبکہ وہاں افراط زر کی شرح 85 فیصد کی ہوش ربا سطح تک جا پہنچی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے آزادی میسر ہے نہ ہی اس کے پاس ترکی کی طرح سیاحت سے اربوں ڈالر کمانے جیسا کوئی ذریعہ ہے، جس پر تکیہ کیا جاسکے۔
حالیہ سیلاب کے باعث افراط زر کی شرح بڑھنے کے نتیجے میں ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مزید بگڑ گیا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ شرح سود میں جس تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے، اس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ صرف 14مہینوں میں شرح سود میں 9 فیصد اضافہ کیا ہے اور افراط زر سے نمٹنے کے لیے ترکی کے مرکزی بینک کے بجائے امریکا کے فیڈرل ریزرو کی پیروی کی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔