زباں فہمی نمبر168 اردوزبان و ادب کا گہوارہ بُرہان پور

مغل تاجدار شاہجہاں کو بُرہان پورسے بہت ہی خاص تعلق رہا


سہیل احمد صدیقی December 25, 2022
زباں فہمی نمبر؛ 168 از سہیل احمد صدیقی فوٹو: ایکسپریس نیوز

محترم تنویر رضا برکاتی صاحب، برہان پور(مدھیہ پردیش، ہندوستان) سے بہت عمدہ ادبی وعلمی مواد فراہم کرتے ہیں۔ موصوف ادبی وعلمی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مشغول اور مجھ سمیت نجانے کتنے ہی تشنہ لب اہل ذوق کو اپنی تحقیقی مساعی کی ترسیل سے فیض یاب کرتے ہیں۔

ایک عرصہ پہلے انھیں ایک بزرگ شاعر محترم مطیع اللہ راشدؔ برہان پوری مرحوم(1897ء تا 1960ء) کے ورثاء کی تلاش تھی جو ترک ِ وطن کرکے، پاکستان آگئے تھے۔ میری کوشش تو ناکام رہی،مگر موصوف وہاں بیٹھ کر بھی اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔جامعہ سندھ، جام شورو کے تحقیقی جریدے 'تحقیق' میں انھی مرحوم برہان پوری شاعر سے متعلق مضمون "فہرست مخطوطات ذخیرہ مطیع اللہ راشد برہان پوری مرحوم۔ نظرثانی: محمدشفیع بروہی" شایع ہوا، جبکہ اُن کی اپنی علمی وادبی کاوشوں میں 'برہان پور کے سندھی اولیاء المعروف بہ تذکرہ اولیائے سندھ'جیسی وقیع کتاب شامل تھی جس میں نادر فارسی رسائل ودیگر مواد جمع تھا۔

محترم تنویر صاحب نے مجھ سے سندھی زبان سیکھنے کی بابت بھی استفسار کیا اور پھر اَز خود، اس سلسلے میں کوشش شروع کی۔انھیں سیوان، ہندوستان اور سہون (سیوہن)، سندھ میں صوتی مماثلت اور برہان پور میں سندھی نژا د صوفیہ کرام کی موجودگی کے سبب، اس انوکھے باب ِ تحقیق سے بھی دل چسپی ہے۔بات کی بات ہے کہ برہان پور میں سندھی علماء وصوفیہ کے قیام کا محلہ آج بھی سندھی پورہ کہلاتا ہے۔آئیے آج تنویر رضا برکاتی کے تاریخی شہر سے جُڑی اپنی لسانی وتہذیبی تاریخ کے ایک باب سے کچھ خوشہ چینی کریں۔

ہندوستان کے دوشہروں کو "دارالسرور" (دارُ س سُرُور) کہاجاتا ہے، ایک برہان پور(جنوبی ہند) اور دوسرا رام پور(شمالی ہند)۔ دونوں ہی اردو زبان وادب کی خدمت اور ترویج واشاعت کے مرکز رہے اور آج بھی ان کے نام کے ساتھ صدیوں پرانی تاریخ جُڑی ہوئی ہے۔ مغل تاجدار شاہجہاں کو بُرہان پورسے بہت ہی خاص تعلق رہا، وہ یہاں بطور لائق صوبہ دار، جَری سپہ سالار اور آخرش، بطور بادشاہ مقیم رہا، اُسی نے قلعہ ارک کے جشن زرّیں کے موقع پر اس شہر کو "دارالسّرور" کا لقب عطا کیا اور پھر یہیں اُسے اپنی چہیتی ملِکہ ممتاز محل سے دائمی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔

ایک روایت کے مطابق، مغل بادشاہ شاہجہاں کی محبوب ملِکہ ممتاز محل کے انتقال کے بعد، اُسے برہان پورمیں 'تاج محل' بناکر دفن کرنے کا منصوبہ اس لیے ترک کردیا گیا کہ وہاں سنگ ِ مرمر کی قلّت تھی، لہٰذا ملِکہ کو عارضی طور پر برہان پور میں چھے ماہ کے لیے دفن کیا گیا اور بعدمیں آگرہ کے تاج محل کی تکمیل کے بعد، وہیں سپردخاک کیا گیا جہاں وہ آج تک آسودہ خاک ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، شاہجہاں نے یہیں اپنے باپ، بادشاہ جہانگیرکے خلاف بغاوت کا عَلَم بلند کیا تھا۔کہاجاتا ہے کہ شاہجہاں کے فرزند،اورنگزیب عالمگیر کے مزاج میں (عہدشباب کے تقاضوں کے مطابق)شامل، عنصر ِ عشق بھی اسی شہر میں رہ کر فَرو ہوا اور وہ اس شہر کے صوفیہ کی صحبت میں رہ کر دیندار ہوا (یہ بات بہرحال برہان پوری حضرات کی روایات کا حصہ ہے)اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ "فتاویٰ عالمگیری" جیسے عظیم فقہی دائرہ معارف (Encyclopaedia)جیسے منصوبے کا نگراں بھی شیخ نظام الدین بُرہان پوری کو مقررکیا جن کے ماتحت پانچ یا ساڑھے پانچ سو علمائے کرام نے اس ضمن میں یادگار خدمات انجام دیں اور(ایک روایت کے مطابق) حتمی شکل خود بادشاہ ِ وقت، عالمگیر نے دی۔

اورنگزیب عالمگیر یہاں چھبیس سال مقیم رہ کر مسلسل شورشوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا اور اصل مرکز سلطنت دِلّی سے دور ہوگیا۔مغلیہ اقتدار اُس کے انتقال کے بعد، اُس کے نالائق بیٹے معظم شاہ بہادرشاہ اوّل اور اُس کے جانشین کے عہد میں زوال پذیر ہوگیا تو ایسے میں خاندیس کے صوبہ دار، قمرالدین آصف جاہ اوّل نے بغاوت کرتے ہوئے خودمختاری کا اعلان کیا۔اس کی چالیس سالہ حکومت میں اس شہر نے ترقی کی نئی مناز ل طے کیں۔

اردو کی ابتدائی نشو نَما میں حصہ لینے والے صوفیہ کرام میں بھی برہان پور کے بزرگ شامل تھے۔ان میں سرفہرست نام نامی،خواجہ نظام الدین اولیا ء علیہ الرحمہ کے اکابر خلفاء میں شامل،"برہانُ الاولیاء" حضرت شیخ،شاہ برہان الدین غریب ہانسوی(654ھ تا 11صفرالمظفر738ھ1337/1338-ء) کا ہے(خدا کی اُن پر رحمت ناز ل ہو)۔

یہ شہر اُنھی کے نام سے موسوم ہے۔ہانسی، ہریانہ (بھارت) میں پیداہونے والے یہ مشہور، صاحب تصنیف بزرگ امام اعظم ابوحنیفہ (اُن پہ خدا کی رحمت) کی آل سے تھے۔اُن کی وفات اور تدفین خُلد آباد، اورنگ آباد(مہاراشٹر، بھارت)میں ہوئی۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ماموں خواجہ جمال الدین، بابا فرید کے خلیفہ، جبکہ اُن کے ماموں زاد بھائی قطب الدین منور، خواجہ نظام کے خلیفہ تھے۔

انھوں نے چھوٹی سی عمر میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، خواجہ نظام سے روحانی فیض کے حصول کے لیے دہلی کا سفر اختیار کیا۔ابتداء میں خواجہ نظام نے انھیں اپنے مطبخ (باورچی خانے) کا نگراں مقررکیا، پھر روحانی منزل طے کرانے کے بعد، خلافت عطا کی۔بقول ڈاکٹر انورسدید، وہ ان چند ایسے بزرگوں میں شامل تھے جن کی ہندی (یعنی قدیم اردو)دانی کے آثار دریافت کیے جاچکے ہیں (اردو ادب کی مختصر تاریخ)۔

بہرحال مجھے تلاش بسیار کے باوجودحضرت کی ایسی کوئی تحریر نہیں ملی کہ یہاں بطورثبوت پیش کرسکتا۔یہ الگ بات کہ ان بزرگ کے ملفوظات کے تین مجموعے مرتب ہوئے، ممکن ہے کہ ان میں متعلق مواد مل جائے۔حضرت شاہ غریب یہاں تشریف لائے تو اِس جگہ ایک گاؤں 'بسانا' تھاجہاں حاجیوں کی گزرگاہ واقع تھی۔حضرت نے ایک ہموارپتھریلی چٹان پر نماز اداکرکے اس مقام کی آبادی کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور یہاں بُرہان پور آباد ہوگیا۔اس چٹان کو "ہتھیا کھڑک" کا نام دیا گیا اور وہ آج بھی دریائے تاپتی کے بیچ موجود ہے، ماضی میں دریا کنارے ہواکرتی تھی۔(بحوالہ تاریخ زرنگار برہان پور۔650 سالہ تاریخی و ادبی منظر نامہ)۔

برہان پو رکی معلومہ تاریخ کا آغاز 772ھ (مطابق 1370ء) سے ہوتاہے جب یہاں کے علاقے آسیر گڑھ اور تھا ل نیر بطور جاگیر، تغلق بادشاہ سلطان فیروزشاہ کی عنایت سے ایک منصب دار،مَلِک راجہ فاروقی کے حصے میں آئے۔(راقم کا خیال ہے کہ اس منصب دار کا اصل نام کچھ اور ہوگا، ورنہ فاروقی نسب کے ہوتے ہوئے،مَلِک اور راجہ کے سابقے ناموزوں لگتے ہیں)۔فاروقی سلطنت کے دورمیں تعمیر ہونے والا شاہی قلعہ یہاں کی قدیم عمارات میں بہت اہم ہے۔قدیم دور میں صوبہ خاندیس(خاندیش) کا دارالحکومت تھا جسے مغل بادشاہ اکبر کے فرزند شہزادہ دانیال کے نام پر 'داندیس' کا نام بھی دیا گیا، مگر وہ نام زیادہ عرصے نہ چلا تو وہی پرانا نام پکاراجانے لگا۔

خاندیس، دکن اور مالوہ کے بیچ واقع تھا جو آج کل مہاراشٹر کے دوضلعوں دھولیہ اور جلگاؤں پر مشتمل ہے۔زمانہ قدیم میں برہان پور سے دکن کا آغاز ہوتا تھا، اسی لیے اُسے 'بابِ دکن' بھی کہاجاتاتھا۔اور پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برہان پو ر کی تاریخ میں تغلق دور کی بڑی اہمیت ہے۔جب سلطان محمد تغلق نے دولت آباد نامی نیا شہر بساکر اُسے ہندوستان کا دارالسلطنت قراردیا، ساری دلّی اجاڑ کر یہاں آبادکاری کی تو ایسے میں شاہ غریب بھی، اپنے مرشد کے حکم کے مطابق، وہاں تشریف لے گئے۔انھیں اور اُن کے بڑے بھائی منتخب الدین کو،دکن کی روحانی خلافت عطا ہوئی۔شیخ غریب کے احوال میں منقول ایک واقعے سے خواجہ فرید الدین گنج شکر کی صاحبزادی بی بی عائشہ کا اُن سے بزبان ملتانی (سرائیکی) گفتگو کرنا ثابت ہے (اُن پر خدا کی رحمت)۔(اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیہ کرام کا کا م از ڈاکٹر مولوی عبدالحق)۔یوں بھی خواجہ فرید خود، اردو، سرائیکی اور پنجابی کے اولین شعراء میں نمایاں ہیں۔

ایک عظیم صوفی شیخ علاء الدین علی بن حسام متقی برہان پوری بھی اسی شہر کے باشندے تھے جن کی عربی زبان میں تقریباً سو کتب شایع ہوچکی ہیں۔ایک اور قدیم بزرگ خواجہ سید ہاشم کشمی بدخشانی ثم برہان پوری کا لکھا ہوا فارسی تذکرہ بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس پر منیر جہاں ملک نے ڈاکٹر محسن ابوالقاسمی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان، "تصحیح نَسَمات القُدس مِن حَدائق الاُنس" 1996ء میں لکھا اور ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔خواجہ صاحب، حضرت مجد داَلف ثانی کے مرید تھے۔فارسی کے عمدہ شاعر اور 'ملفوظات ِ امام ربّانی۔زبدۃ المقامات' کے مرتب تھے۔

محترم شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے اپنی کتاب "اردو کا ابتدائی زمانہ،ادبی تہذیب و تاریخی پہلو" میں، برہان پور میں ایک مدت قیام کرنے والے صوفی بزرگ، شیخ بہاء الدین باجن(پ: 790ھ1388/ء بمقام احمد آباد، گجرات۔وفات:21 یا بہ اختلاف روایت،14ذیقعدہ 912ھ /1506ء بمقام برہان پور) کو اردو کا پہلا باقاعدہ "ادیب" قرار دیا ہے(خدا کی رحمت اُن پر)۔(یہاں 'باقاعدہ' پر زورہے، اس لیے کہ اُن سے بہت پہلے، بِہار میں حضرت شرف الدین ٰ منیری (1263-1381)ہوگزرے ہیں اور اُن سے بھی پہلے امیر خسرو اور ان سب سے مدتوں پہلے سعدسلمان لاہوری۔یہ تمام تفصیل میرے کالموں میں آتی رہتی ہے)۔بابائے اردو مولوی عبدالحق سمیت متعدد اہل تحقیق، مخدوم باجن کی اردو نثرونظم میں قدامت پر قلم اٹھا چکے ہیں۔

میرے پیش نظر، محترم دوست تنویر رضا برکاتی کی عنایت کردہ، محترم جاوید انصاری(شیخ عبدالقادربن عبدالرحمن) مرحوم کی انتہائی وقیع تالیف،"تاریخ زرنگار برہان پور۔650 سالہ تاریخی و ادبی منظر نامہ"(مطبوعہ دسمبر 2021ء)ہے جو اپنے موضوع پر اولین جامع کتاب معلوم ہوتی ہے۔فارسی سے خاص شغف کے حامل،جناب جاوید انصاری کی تازہ ترین کتاب، تاریخ زرنگار برہان پور میں فارسی کے بہت سے خزانوں کی دریافت یا بازیافت(بشمول، حضرت باجن کی مشہور کتاب'خزانہ رحمت") کے متعلق مودا بھی ہے۔

یہاں یہ بات دُہراتا چلوں کہ شاہ باجن کی کتاب 'خزانہ رحمت' کے پانچ قلمی نسخوں میں ایک، جامعہ کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔خاکسار نے اپنے کالم زباں فہمی نمبر 88، "اردو کی بہن بنگلہ"(دوسرا اور آخری حصہ)، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 14 مارچ 2021ء میں اس بزرگ کی بابت خامہ فرسائی کا شرف حاصل کیا۔دیگر کتب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ کتاب کا اصل نام 'خزائن رحمت اللہ' ہے اور یہ کتاب درحقیقت آٹھ خزانوں پر مشتمل ہے، اس کا انتساب اُن کے پیر شیخ رحمت اللہ متوکل کے نام ہے۔

اس کتاب میں حضرت باجن کا فارسی، ہندی یا ہندوی اور گوجری کلام محفوظ ہے۔سلطان حسین شاہ، بادشاہ بنگال کی شان میں کہا ہواحضرت باجن کا یہ شعر، ان کے عہد کی ریختہ گوئی (ہندی، فارسی، گوجری اور دیگر زبانوں کے ملاپ سے بننے والی مخلو ط زبان میں شاعری) کا عکاس اور اُردو کی ترقی کا منھ بولتا ثبوت ہے:
باجنؔ جو کسی کے عیب ڈھانکے
اُس سے ارجن تھر تھر کانپے
اُن کی کہی ہوئی مناجات کا یہ نمونہ بھی قاری کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے:
تیرے پنتھ کوئی چل نہ سکے
جو چلے سو چل چل تھکے
پڑھ پنڈِت دھوتیاں
سب جان سُدھ بُدھ کھویاں (کھوئیاں)
سب جوگی جوگ بسارے

خاکسار کا محولہ بالا کالم، ایکسپریس ڈاٹ پی کے پر، جبکہ حضرت باجن کی زندگی پر ایک کتاب "حضرت شاہ باجن۔ ایک مطالعہ" (ازاخترپرویز، بُرہان پور:2005ء)،نیز 'شاہ بہاؤالدین باجن۔سوانح حیات اور گُجری (گوجری) کلام']از ڈاکٹرشیخ فریدبرہان پوری: 1992ء [انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
حضرت باجن کے بعض مزید اشعار بھی ریختہ کے دل چسپ نمونے ہیں:
یوں باجن ؔ باجے رے اسرار چھاجے رے
مندل من میں دھمکے رباب رنگ میں جھمکے
صوفی اُن پر ٹھُمکے یوں باجنؔ باجے رے
اسرا ر چھاجے رے

حضرت باجن کے شاگرد ومُرید، محدث اعظم شیخ علی متّقی (885ھ تا 975ھ) نے 'کنزالعُمّال' نامی مشہور کتاب، نیز کم وبیش سو سے زائد کتب تصنیف وتالیف کیں۔وہ بھی ریختہ گو تھے۔انھوں نے اپنے آخری وقت میں یہ دوہا کہا تھا:
سُن سہیلی، پریم کی باتا یوں مل رہے ہیں، جیوں دودھ نباتا

اختر پرویز صاحب نے انپی کتاب میں اردو کے قدیم ترین ریختہ گو شاعر کا نام شیخ سعدی ؔدکنی برہان پوری دیا ہے جن کا مشہور ترین شعر ہے:
سعدی ؔ غزل انگیختہ، شِیروشکر آمیختہ
دَرریختہ، دُر ریختہ، ہم شعر ہے، ہم گیت ہے

حالانکہ اُن سے قبل امیر خسرو ہو گزرے ہیں۔(یہ وہی ہیں جنھیں ایک عرصے تک سہواً سعدی ؔ شیراز ی سمجھ کر یہ بحث کی جاتی رہی کہ آیا وہ نامورسخنور، کبھی دکن، ہندوستان بھی آیا تھا)

کچھ عرصہ قبل،محترم تنویررضا برکاتی اور اُن کے احباب نے اپنی علمی وادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں،دارالسرور ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی برہان پور کے زیر اہتمام آن لائن کانفرنس 'اردو شاعری کے ارتقائی سفر میں باجن کی حصہ داری'، حضرت کے 530 سالہ عرس کے موقع پرمنعقد کرکے ایک منفرد مثال قایم کی۔

(یہاں ذرا توقف فرمائیں تو یاد دلاؤں کہ "اردوزبان کی ماں، گوجری؟" کے عنوان سے زباں فہمی کے تین کالم روزنامہ ایکسپریس میں (تیس اگست، چھے ستمبر اور تیرہ ستمبر دوہزار بیس کو)شایع ہوکر، اُس کی ویب سائٹ ایکسپریس ڈاٹ پی کے کی زینت بن چکے ہیں۔خواہش مند احباب ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔اولین قسط کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

امیر خسرو نے کہا تھا:"گُجری کہ دَرحُسن ولطافت چومہی/آں دیگِ دہی بَرسرِتوچترشہی/ازہر دولت قندوشکر ریزد/ہرگاہ بگوئی 'دیہی لیو، دیہی"۔ (گوجری ادب کی سنہری تاریخ)۔ کس قدر صاف زبان ہے 'دیہی لیویعنی دہی لو، یا، لے لو'۔ اب آپ اسے گوجری کہیں، قدیم اردو کہیں یا ہندوی، بہرحال اپنے وقت کے عظیم سخنور نے ایک عام گوجری عورت کی شان بیان کرکے لسانیات کا ایک فن پارہ ہمارے لیے چھوڑا۔ امیر خسرو کی ہمہ جہت شخصیت اور ادبی مقام سے متعلق اردو میں تحقیق تشنہ ہے۔ان سے ماقبل ہندوی (یعنی قدیم اردو) کے اولین صاحب دیوان شاعر مسعود سعد سلمان کے دو میں سے ایک بھی دیوان باقی نہیں، ورنہ ہم اپنی زبان کی قدامت، کوئی ایک ہزار سال قبل، غزنوی عہد میں بہ آسانی ثابت کرسکتے تھے۔ امیرخسرو کے بعد، شاہ میراں جی، شاہ باجن، جانم چشتی، سنت کبیر اور اَمین گجراتی کے گوجری کلام پر تحقیق ہنو ز تشنہ ہے)۔

تاریخ زرنگار برہان پور۔650 سالہ تاریخی و ادبی منظر نامہ، بذاتہ، اتنا بڑا علمی کارنامہ ہے کہ محض مندرجات کے جائزے نیز تنقید کے لیے ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں شامل، شہر برہان پور کے اہل علم وادب کے چُنِیدہ مشاہیر کی فہرست اہل ِ نظر کی توجہ چاہتی ہے۔اردو کے اولین نمایاں سخنو ر وَلی ؔ گجراتی دکنی کے مُرشد(اور بیدلؔ کے شاگرد)سعداللہ گلشنؔ بھی اسی شہر کے متوطن تھے۔تاریخ وسِےَر (سیرت کی جمع) کے نامور عالم، ادیب شاہ معین الدین احمد ندوی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔دیگر متنوع مصنفین ومؤلفین میں ہمارے سابق وزیرخارجہ، معروف قانون داں، محترم شریف الدین پیرزادہ شامل ہیں۔خاکسار کی دلی خواہش اور کوشش ہے کہ یہ تحقیقی کتاب پاکستان میں بھی منصہ شہود پر لائی جاسکے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔