ڈیجیٹل جرنلزم

ایاز مورس  اتوار 8 جنوری 2023
وقت کی رفتار کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے ہم کنار ہوکر صحافت اور صحافی کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

وقت کی رفتار کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے ہم کنار ہوکر صحافت اور صحافی کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ہماری دُنیا مسلسل بدلنے والی دُنیا ہے، اس میں صرف تبدیلی ہی مستقل عمل ہے۔ بدلتے وقت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ صحافت بھی اس جدت اور تبدیلی سے متاثر ہوئی ہے۔

صحافت میں یہ جدت اور برق رفتاری سب سے زیادہ صحافیوں کے لیے خوش آئندہ اور چیلینج ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ کرواتے ہیں اور جدید میڈیم کو سیکھ کر اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ کرکے اپنے فرائض مزید بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں۔

آج کے اس مضمون میںہم صحافت کے جدید ورژن یعنی ڈیجیٹل جرنلزم کی افادیت اور مستقبل پر گفتگو کریں گے۔ اس ضمن میں میں نے پاکستان کے چند نام ور صحافیوں اور ڈیجیٹل جرنلزم سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے خیالات کو بھی شامل کیا ہے۔

میں نے ہر حال ہی میں میٹا اور Reuters کا ڈیجیٹل جرنلزم کا ایک آئن لائن کورس

Introduction to Digital Journalismمکمل کیا جو میرے خیال میں ایک شان دار کورس ہے، جس میں بے شمار ایسی معلومات اور ریسرچز شامل ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مستقبل میں ڈیجیٹل جرنلزم اور موبائل جرنلزم کا راج ہوگا۔

اسی کورس میں ایک ریسرچ کے مطابق 2025 تک تقریباً 73% صارفین صرف موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ کا استعمال کریں گے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2014 سے لے کر اب تک تقریباً دو سے تین تہائی لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے خبروں تک رسائی حاصل کی ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل جرنلزم بڑی تیزی رفتاری سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤس بھرپور انداز میں ڈیجیٹل میڈیم کا استعمال کررہے ہیں۔

سنیئر صحافی مظہرعباس کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم یعنی سٹیزن جرنلزم کو صحافت کہنا بھی مناسب ہے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے، تاہم پاکستان میں اس کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں قانون سازی کا عمل ہونا چاہیے، کیوںکہ سوشل میڈیا کی فالوونگ بہت زیادہ ہے، لیکن اس کا اعتبار بہت کم ہے۔

سنیئر صحافی قاضی خضر کا کہنا ہے کہ صحافی اور عام سوشل میڈیا صارف میں فرق ہوتا ہے کیوںکہ صحافی باقاعدہ تعلیم وتربیت حاصل کرتا ہے۔ خبر کو حقائق کے مطابق ثابت کرنا اصل مہارت ہے۔ پیشہ ورانہ صحافی عام شہری کے بجائے معلومات جمع کرے اور اُس کی باقاعدہ کسی مستند پلیٹ فارم سے تشہیر کرے۔ اسے صحافت سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل جرنلزم کی صورت حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد مین اسٹریم میڈیا کا حصہ بنتی ہے۔ اکثر انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کے متعلق خبریں سوشل میڈیا سے حاصل کرتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا بڑی عمدگی سے سافٹ نیوز اور عوامی مسائل کو اُجاگر کررہا ہے۔ ہاں اس سلسلے میں روایتی میڈیا میں کام کرنے والی صحافیوں کی تعلیم وتربیت انتہائی ضروری ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم کے رولز، چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ کار واضح کرنے پڑیں گے۔

سنیئر صحافی اور میڈیا ٹرینر عون ساہی نے کہا کہ بات دراصل بدلتے وقت اور ٹیکنالوجی کی نہیں بلکہ اس تبدیلی کو تسلیم کرنے اور اپنانے کی ہے۔

یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ جب بھی کوئی نیا میڈیم آتا ہے، صحافی اُس سے خوف زدہ ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے وقت کے ساتھ اُس تبدیلی کو قبول کیا، نئی مہارتوں اور چیزوں کو سیکھنے میں دل چسپی لی ہے وہ اس تبدیلی میں کام یاب رہے ہیں۔

عون ساہی نے مزید کہا کہ میڈیم چاہے کوئی بھی ہو صحافت کی بنیادی اقدار اور اُصول ہمیشہ وہ ہی رہے ہیں۔ اچھی اور مستند صحافت کے لیے جدید میڈیم کا استعمال ضروری ہے جس کے لیے اپنے مائنڈ سیٹ کو بدلنے کے لیے ہمیشہ تیار رکھنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان صحافی ڈیجیٹل اور سوشل میڈیم پر زیادہ متحرک ہیں اور عوام تک جلدی پہنچ رہے ہیں۔

ریحان حیدر ایک جرنلسٹ اور میڈیا ٹرینر ہونے کے ساتھ آئی ٹی اور ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں اور ایک انگریزی روزنامے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ریحان حیدر گذشتہ کئی سال سے صحافیوں اور طلبا کے لیے بلامعاوضہ ٹریننگ ورکشاپس منعقد کررہے ہیں، جن میں صحافیوں کو جدیدٹیکنالوجی سیکھنے اور صحافت میں اس کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔

راقم الحروف نے ریحان حیدر کے ساتھ مل کر کئی ٹریننگز منعقد کی ہیں۔ ریحان حیدر کا کہنا ہے کہ نئی چیزوں کو سیکھنے اور تبدیلی کو تسلیم کرنے اور اپنانے کے معاملے میں صحافیوں کا ردعمل مایوس کن ہے۔

اکثر صحافی مواقع کم ہونے اور میڈیا انڈسٹری کی تنزلی کی شکایات تو کرتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور جدید علوم حاصل کرنے میں دل چسپی ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دُنیا بھر میں نیوزروم تبدیل ہورہے ہیں، لوگ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ورچوئل ریئلیٹی اور مشین لرننگ کو اپنا چکے ہیں اور نیوز روبوٹکس کی طرف جارہے ہیں جب کہ ہمارے صحافی اور ادارے ان تمام چیزوں سے خوف زدہ نظر آتے ہیں اور ان کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔

معروف انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی اور میڈیا ٹرینر نعیم سہوترا نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا پوری دُنیا کی طرح پاکستان میں بھی روایتی میڈیا پر سبقت حاصل کر رہا ہے۔ لہٰذا، صحافیوں کے لیے موبائل فون جیسے جدید آلات سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ موبائل فون آج آپ کی جیب میں دفتر کی طرح بن گیا ہے۔

اگرچہ یہ بات پریشان کن ہے کہ بی بی سی اور نیویارک ٹائمز جیسے بین الاقوامی میڈیا اداروں نے پچھلے کچھ سالوں سے اپنے عملے کی تعداد کم کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل ڈیجیٹل جرنلزم ہی کا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خاص طور پر صحافت میں ٹیکنالوجی نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم صحافیوں کا مستقبل ہے، چاہے ہم اسے قبول کریں یا نہ کریں۔

سنیئر صحافی اور میڈیا ٹرینر شیراز حسنات کا کہنا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم ہی صحافت کا مستقبل ہے۔ اب ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم اس مستقبل کو کیسے اور کتنے وقت میں اپنے لیے فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایک روایت رہی کہ جب بھی کوئی نئی چیز اور ٹیکنالوجی متعارف ہوتی ہے تو معاشرہ ابتدائی طور پر اُس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا ہے۔

معاشرے کا وہ حصہ بھرپور مذمت کرتا ہے جو پہلے سے موجودہ ٹیکنالوجی اور چیزوں کو استعمال کررہا ہوتا ہے۔ میڈیا میں بھی اسی طرح الیکٹرونک میڈیا کی آمد سے پرنٹ میڈیا متاثر ہوا اور اب الیکٹرونک میڈیا کی جگہ ڈیجیٹل میڈیا نے لے لی ہے۔ اس پر ابھی تک روایتی صحافی سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں جب کہ نوجوان نسل، کیوںکہ وہ ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال بخوبی کررہی ہے۔ اس لیے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔

اصل چیز آپ کا مواد ہے کیوںکہ Content is the king ہے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے آپ کون سے میڈیم استعمال کررہے ہیں۔ آپ نئی اسکلز کو سیکھنے اور نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں کیوںکہ ڈیجیٹل میڈیا ایک ایک ہنر ہے، جو اس نئے ہنر کو وقت پر سیکھ لیں گے وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنالیں گے۔

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یاسر حمید کا کہنا ہے۔ خبر تو ریڈیو ٹی وی اور اخبار پر بھی مل ہی رہی تھی، مگر ڈیجیٹل جرنلزم ایک بہت بڑی تبدیلی لے کر آیا ہے، جہاں اس نے ناصرف خبر پڑھنے والے صارف کی اہمیت کو سمجھا ہے بلکہ ایک صحافی کی اہمیت کو بھی بڑھایا ہے۔

پہلے خبر اخبار، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے کسی ایک نیوز ایجنسی سے نشر کی جاتی تھی۔ اور خبر کو پہنچانے تک ناصرف خبر کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہوتی تھی بلکہ کئی معلومات بھی عام شہری تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔

صحافیوں کے لیے سب سے بڑی آسانی یہ ہو گئی ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم کے ذریعے وہ خود ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ ہر عام شہری کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے خبر کو دینے والے صحافی کی خبر اور اس درست معلومات کی جانچ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور صحافی کسی بھی جگہ سے درست معلومات کے ساتھ خبر سوشل میڈیا صارفین تک پہنچا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل جرنلزم میں کام یابی اسی کی ہے جو خبر کو وقت پر اور زیادہ سے زیادہ معلومات کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ دُنیا بھر کی طرح ترقی پذیر ممالک میں حکومتی اداروں سمیت تمام نجی ادارے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہو رہے ہیں۔

اس پر دُنیا بھر میں ریسرچ آرٹیکلز بھی شائع کیے جا رہے ہیں، کیوںکہ سب کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ مستقبل پورے انداز میں دراصل ڈیجیٹل میڈیا کا ہی ہوگا۔ اخبار ٹی وی کی اپنی ایک افادیت ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا نے دُنیا بھر کی خبر کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافی بلال ظفر سولنگی کا کہنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی پر کشش مارکیٹ اور زیادہ پہنچ کے سبب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے بڑے اور چھوٹے تمام ادارے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب رخ کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آجکل ویب سائٹ، یو ٹیوب، ٹوئٹر بشمول دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ عوام کی بہ آسانی پہنچ بھی ہے کیوںکہ آج کے دور میں اکثریتی عوام کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے جس میں ہر اسمارٹ فون استعمال کرنے والا شخص سب سے پہلے یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر و دیگر سوشل میڈیا ایپس ڈاؤنلوڈ کرتا ہے تاکہ وہ مختلف دوستوں، رشتہ داروں سے رابطہ کے ساتھ ساتھ مختلف اہم سیاسی و سرکاری شخصیات، میڈیا کے اداروں کو فالو کرکے حالات حاضرہ پر نظر رکھ سکیں۔

شہر کی مصروف زندگی میں اخبارات اور ٹی وی دیکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جس کا احساس اب حکومت کو بھی ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ وزارت اطلاعات میں سوشل میڈیا ونگ بھی قائم کیا جارہا ہے جس کے سبب مستقبل قریب میں ڈیجیٹل میڈیا پر سرکاری اشتہارات بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

ڈیجیٹل میڈیا کے دُور میں یہ بات بڑی عام فہم ہے کہ وقت کے ساتھ خود کو بدلنے والے معاشرے، ادارے اور زندگی کے مختلف شعبے سے وابستہ افراد ہی وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہیں۔ آپ کوئی ادارہ ہیں یا فرد واحد، آج کے دُور میں خبر اور نظر میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ یہ ڈیجیٹل میڈیا یا جرنلزم کا مستقبل ہے یا نہیں بلکہ اس فیصلہ اس چیز کا ہے کہ آپ کس سمت میں کب اپنے نئی سفر کا آغاز کررہے ہیں۔

مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ انسان ایک لمبے عرصے ایک کام کو مسلسل ایک ہی طریقے سے کرنا عادی ہوجائے تو اُس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے کام کے طریقہ کار کو بدلنا قدرے مشکل ہو تا ہے لیکن جب انسان معصم ادارہ کر لے اور خود کو ذہنی طور پر تیار کرلے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

زندگی میں کبھی دیر نہیں ہو تی جب تک آپ نے اپنے سفر کا آغاز نہیں کیا ہوتا ہے۔ آئیں آج سے نئے اسکلز سیکھنے کے لیے شروعات کریں، بس آغاز کی ضرورت ہے، انتظار کی نہیں، ابھی وقت ہے ،اگر کوئی چیز آپ کو بدلنے سے روک رہی ہے تو وہ آپ خود ہیں، آپ کو خود کو تیار کرنا ہے۔ چیزیں آپ کے اردگرد بلکہ کچھ تو پاس ہی موجود ہیں۔ اس نئی دُنیا کے لیے خود کو تیار کرلیں ورنہ آپ دُنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

ڈیجیٹل میڈیا عمر، تعلیم، مہارت اور تجربے کی قید سے آزاد ہے اگر آپ اس کو مناسب وقت دیکھ چند بنیادی اور اہم چیزیں سیکھ لیتے ہیں تو بہت جلد آپ اس میں دل چسپی اور مہارت حاصل کر سکیں گے۔

یاد رکھیں، وقت کی رفتار کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے ہمکنار ہو کر صحافت اور صحافی اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اندر اتنا اسکوپ ہے کہ یہ آپ کے مستقبل کو مضبوط اور محفوظ بناسکتا ہے۔ آج ہی نئی اسکلز اور ٹریننگ کو حاصل کریں، ماہرین سے رابطہ کریں اور ڈیجیٹل جرنلزم کے ساتھ مستقبل اپنے ہاتھ میں رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔