معیشت کا استحکام ، وقت کی اہم ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 9 جنوری 2023
پاکستانی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے۔ فوٹو:فائل

پاکستانی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے۔ فوٹو:فائل

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر چار نہیں 10 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کے واجب الادا قرض وقت پر واپس کر رہے ہیں، کمرشل بینکوں کے پاس موجود چھ ارب ڈالر بھی پاکستان کے ہیں۔

پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر بہت جلد دوبارہ مستحکم ہوں گے، آئی ایم ایف کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا، سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے فنڈز جلد پاکستان کو منتقل ہوں گے۔

ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے اور درست سمت میں گامزن کرنے کے حوالے سے اسحاق ڈار کا ریکارڈ بڑا واضح اور روشن ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے اسحاق ڈار کو میدان میں اتارنا صائب فیصلہ نظر آ رہا ہے۔

ڈالر اب اڑان نہیں بھر رہا ہے ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ایک جگہ پر رک گئی ہے ، بلکہ ان میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے ، ایک بہت بڑی رقم قرضوں کی مد میں ادا کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے وقتی طور پر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ کمی آئی ہے ، اس بات کو افواہیں پھیلانے اور غیر یقینی پیدا کرنے کے لیے بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔

وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام جس طور ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے، وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز تاحال باہم بر سرپیکار ہیں ، وہ کوئی ایسا میکنزم تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جسے اپنا کر سب کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔

انویسٹرز اور کاروباری طبقہ پریشان ہیں، دو صوبوں میں انتظامیہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہے ، شمال مغربی سرحد پر خطرات منڈلا رہے ہیں، ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم نظر نہیں آتا، خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی آزادانہ کارروائیاں کررہی ہے جب کہ صوبائی حکومت انھیں روکنے میں ناکام ہے بلکہ کئی معاملات میں اس نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ی

ہ کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک میں بیرونی ہی نہیں بلکہ مقامی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے اور برآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے پاکستان کو 2050تک قومی پیداوار میں مسلسل کمی کا سامنا رہے گا۔ اس تنزلی کا تخمینہ اٹھارہ سے بیس فیصد تک لگایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست اور معیشت بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہیں۔ معاملات دگرگوں ہیں، شدید پریشانی ہے،عامتہ الناس کی زندگی اور اس کے شب و روز درست نہیں ہیں۔ آٹا، دال،چاول، چینی ہی نہیں، بجلی گیس اور تیل بھی اس کی دسترس سے نکل چکے ہیں۔ قدرِ زر پست سے پست تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

عام انسان کی قوت خرید جامد ہو چکی ہے۔ معاشی معاملات کی فوری بہتری نہ ہونے کی ایک اہم وجہ روس، یوکرین کی جنگ بھی ہے جس نے عالمی منظر پر بے یقینی کی صورت حال طاری کر رکھی ہے۔

پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟ ملک دیوالیہ ہو چکا یا ہونے جا رہا ہے، پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کے کیا نتائج نکلیں گے، دوست ممالک کی مدد سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کی زبان پر ہیں۔

موجودہ حکومت تو پھر بھی کسی حد تک عالمی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ مواصلت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان اکثر دوست ممالک اور عالمی اداروں میں اپنا اعتبار کھو چکے ہیں ، یہ ممکن ہے کہ وہ کسی بھی طرح دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہے کہ وہ ملکی معیشت بحال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

موجودہ حکومت کی معاشی ناکامی کی حقیقی وجوہ بھی تحریک انصاف کی سیاست ہی میں تلاش کی جا سکتی ہیں ، اگرچہ یہ کوئی عذر خواہی نہیں ہے لیکن پوری تصویر دیکھنے کے لیے ان عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے جو ملک میں مسلسل بحران اور ہیجان کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

موجودہ اتحادی حکومت کی معاشی ناکامی کی دوسری اہم ترین وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ مالی امداد کا معاہدہ تھا۔

تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے 6 ارب ڈالر امداد کا یہ معاہدہ کیا اور مصنوعات پر سبسڈی کم کرنے اور ذرایع آمدنی میں اضافہ کے لیے متعدد نکات پر اتفاق کیا تھا البتہ جب تحریک عدم اعتماد کی صورت میں سیاسی دباؤ میں اضافہ ہوا تو عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ، حالانکہ عالمی منڈیوں میں اس وقت تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا ، اس کے علاوہ انھوں نے بجٹ تک قیمتوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا۔

عمران خان نے جان بوجھ کر مخالف سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ جال بچھایا تھا یا یہ اتفاقی امر تھا لیکن اس کی قیمت صرف موجودہ اتحادی حکومت کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ادا کرنا پڑی۔ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے ساتھ مالی معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کے ذریعے اسے بحال کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ معاہدہ پاکستانی معیشت کی بحالی اور قومی خزانے کی آمدنی میں اضافہ کے لیے بے حد اہم تھا تاہم عمران خان کے اٹھائے ہوئے سیاسی طوفان کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو مفتاح اسماعیل کے بجائے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانا پڑا تاکہ وہ ملکی معاشی فیصلوں کو سیاسی ضرورتوں کے مطابق تبدیل کرسکیں۔

عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مسلسل یہ کوشش کی ہے کہ ملک میں کسی بھی صورت میں امن بحال نہ ہو اور سیاسی درجہ حرارت مسلسل بلند رہے۔

اسی تنازعہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی موجودہ حکومت کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ انتخابات کو موخر کر کے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے ایک محتاط اندازے کے مطابق تین کروڑ افراد شدید متاثر ہوئے۔ سندھ اور بلوچستان میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔

سیلاب سے متاثرہ آبادی کا بڑا حصہ سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملک میں طوفانِ سیاست برپا ہے جس میں سیلاب زدگان کی آہ و پکار کہیں دب گئی ہے۔ پاکستان کا معاشی میزانیہ اور توازن حالیہ سیلاب کی وجہ سے خراب ہو گیا ہے۔

سیلاب سے صنعت پر خاص طور پر ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ اور خدمات، خاص طور پر تھوک تجارت اور نقل و حمل پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

پاکستان کے لیے مالی سال 2023 میں کمزور کرنسی، گھریلو توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ سیلاب سے فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات اور سپلائی میں خلل عارضی خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔

زیر آب آنے والا کثیر زرعی رقبہ ناقابل کاشت ہونے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہونے سے آنے والے چند ماہ میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ان میں سرفہرست بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جہاں درآمدی بل میں اضافہ ہوا ہے، وہیں برآمدات میں ہونے والی مسلسل کمی سے بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے ورلڈ بینک نے آیندہ مالی سال میں پاکستان کے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح دو فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

اسی لیے ایک بار پھر حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور اس پروگرام کا نواں اور دسواں ریویو مسلسل تعطل کا شکار ہے۔

آئی ایم ایف سے پیدا ہونے والے فاصلوں ہی کی وجہ سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں بھی سننے میں آتی ہیں۔ چار برس سے عالمی معیشت بھی بحران کا شکار چلی آ رہی ہے۔ پاکستانی معیشت بھی اس کی زد میں آئی ہے‘ اب پاکستان کے لیے بہتری کے اشارے سامنے آرہے ہیں‘ ملک میں سیاسی عدم استحکام ابھی تک موجود ہے تاہم اس کی شدت میں کمی ہوتی نظر آرہی ہے ، پاکستان میں اگر سیاسی استحکام آجائے تو اس کے معیشت پر مزید اچھے اثرات پڑیں گے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہوتا جائے گا۔ پاکستان کے لیے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔

ان مواقعے سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے ، اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ، ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں ، سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔

پاکستانی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ بے شک سیاسی اختلافات اپنی جگہ ، لیکن اگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے اور معاشی ترقی کا سفر شروع کرنا ہے تو ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھا ہو جائیں جس سے معیشت کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کو متوازن پالیسی اپنانا ہو گی ، ملک کو قرضوں کی معیشت سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہوگا ، جس کے لیے انڈسٹریل گروتھ ، برآمدات میں اضافہ ضروری ہے جو تب ممکن ہے جب ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔