اہل کراچی پیپلز پارٹی کو دوبارہ آزما لیں

محمد سعید آرائیں  جمعرات 12 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

15 جنوری کو کراچی و حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے یا نہیں ،کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 14 گھنٹوں کے نوٹس پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا جو فیصلہ دیا تھا۔

اس پر عمل نہیں ہوا مگر کراچی میں جلد بازی نہیں ہوئی تھی اور عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کو 15 جنوری کو الیکشن کرانے کا حکم ضرور دے رکھا ہے مگر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو الیکشن کے انعقاد پر تحفظات ہیں اور پی پی کی سندھ حکومت اب بھی بلدیاتی انتخابات کا التوا چاہتی ہے مگر کیوں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔

پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیاں پیپلز پارٹی کی خواہشات کے عین مطابق ہیں، پیپلز پارٹی مسلسل دعوے کر رہی ہے کہ کراچی کا آیندہ میئر ہمارا ہوگا کیونکہ ہم نے کراچی کے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جب کہ کسی اور پارٹی کے اتنے امیدوار نہیں ہیں۔

انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم پاکستان نے کافی عرصہ قبل اعتراضات کیے تھے ، جن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ، حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن نے کر رکھی ہیں۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو ان پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہے اور دونوں میئر شپ حاصل کرنے کی دعویدار ہیں اور انھیں جلد اور 15 جنوری کو ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہیے دونوں مزید التوا کے خلاف ہیں۔

الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کو 15 جنوری کو انتخابات کی تیاریوں کا حکم دے دیا ہے۔ ایم کیو ایم اپنی درخواست عدالتی بینچ سے مسترد ہو جانے کے بعد عدالت عالیہ کے فل بینچ میں شنوائی چاہتی ہے اور انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں درست کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔

ایم کیو ایم کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ شہری علاقوں میں تقریباً نوے ہزار ووٹروں پر اور کراچی کے دیہی اور پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کے علاقوں میں یوسیز کے حلقے چھوٹے اور پچیس تیس ہزار آبادی پر بنائے گئے ہیں جب کہ شہری علاقوں کی یوسیز بڑے علاقوں پر مشتمل بنائی گئی ہیں ۔

کراچی میں اپنا میئر لانا پیپلز پارٹی کا پرانا خواب رہا ہے ،پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنی حکومت کو جنرل ضیا کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کرنے سے نہیں روکا تھا۔

پی پی پی حکومت اپنی اکثریت کے زور پر سندھ اسمبلی سے ایک بے اختیار اور سندھ حکومت کا محتاج رہنے والا بلدیاتی نظام منظور کرایا تھا اور 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن اسی قانون کے تحت کرائے تھے اور قائم علی شاہ حکومت نے سندھ میں اپنے امیدوار بھاری اکثریت سے منتخب کرا لیے تھے۔

پیپلز پارٹی کے بے اختیار بلدیاتی نظام کے خلاف ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سپریم کورٹ تک گئے مگر آئین کی دفعہ 140 کے تحت سندھ کے بلدیاتی منتخب نمایندوں کو اختیارات نہیںملے ۔

یوں تو ساڑھے 14 سال سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیہ عظمیٰ پی پی کی سندھ حکومت کے مقرر کردہ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلائی گئی اور سندھ کی وزارت بلدیات نے 2015 کے منتخب بلدیاتی نمایندوں اور میئر کو بے اختیار اور اپنا محتاج رکھا ۔

پرانی اور نئی ایم کیو ایم بے بس رہی ، صرف دعوے کرتی رہی۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنے میئر لانے کے دعوے تو کر رہی ہیں مگر آثار بالکل نہیں ہیں کیونکہ سندھ حکومت کا کام پکا ہے جس کے تحت پی پی اپنا میئر لے آئے گی اور جماعت اسلامی کو ڈپٹی میئر کا عہدہ دیا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم میں پھر بائیکاٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔

سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی پر اپنا سیاسی ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کیا تھا اور اردو بولنے والے پی پی سے پرانا تعلق رکھنے والے خاندان کے مرتضیٰ وہاب ہی پی پی کے نئے میئر منتخب ہوسکتے ہیں۔

جس سے پی پی کی ازلی خواہش پوری ہو جائے گی اور سندھ حکومت انھیں بااختیار تو شاید نہ بنائے مگر انھیں کراچی کے لیے اضافی فنڈز ضرور دے گی تاکہ کراچی والوں کو دکھا سکے کہ وہ اندرون سندھ ہی نہیں کراچی کی بھی خیر خواہ ہے اور کراچی کی بھی ترقی چاہتی ہے۔

ویسے بھی پی پی اندرون سندھ سے اپنے حامی بڑی تعداد میں کراچی میں آباد اور انھیں ملازمتیں بھی دے چکی ہے جو کراچی والوں کا حق تھا مگر نہیں ملیں کیونکہ کراچی شہر میں پی پی کا ووٹ بینک کم ہے۔

کراچی والے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو آزما چکے اب کراچی کی ترقی، مسائل کے حل اور ملازمتوں میں اپنا حق لینے کے لیے کراچی میں پی پی کو ووٹ دینا اب ان کی اشد مجبوری بن چکی ہے۔

پی پی اپنا میئر تو لے ہی آئے گی اگر اس کا شہری علاقوں میں ووٹ بڑھا تو ممکن ہے آیندہ کے لیے سندھ کی قوم پرست حکومت کراچی کو درپیش اہم مسائل حل کرا دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔