بلدیاتی انتخابات کیا کچھ نیا ہوگا

موجودہ حالات میں کوئی ایک جماعت بھی اکیلے کراچی کی میئرشپ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے


راؤ محمد بلال January 14, 2023
کراچی کے عوام سیاسی جماعتوں سے مایوس اور انتخابی عمل سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ 6 ماہ کے دوران کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات 3 بار ملتوی کیے جانے کے بعد بالآخر صوبائی حکومت عدالتی احکامات کی روشنی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور ہوگئی۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے سولہ اضلاع میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

تادمِ تحریر متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کراچی، حیدرآباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات کا التوا اور الیکشن کمیشن کے لازمی انتخابات کرانے کے حکم پر یہ معاملہ ہنوز ابہام کا شکار ہے کہ کیا واقعی اتوار کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوپائیں گے؟

کراچی میں اس بار جماعت اسلامی کی جانب سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا امکان ہے جبکہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

جماعت اسلامی کراچی کے سیاسی میدان میں عملی طور پر دوبارہ جنم لے چکی ہے اور اس کا سہرا جماعت اسلامی کی متحرک قیادت بالخصوص کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو جاتا ہے۔ سیاسی میدان میں طویل خاموشی کے بعد حافظ نعیم الرحمن بلدیاتی انتخابات اور کراچی کے مسائل پر جس طرح متحرک ہوئے، اس نے نہ صرف جماعت میں نئی روح پھونک دی بلکہ ایک بڑی تعداد میں نوجوان نسل کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کے بعد پی ٹی آئی بھی بہتر پوزیشن میں آگئی۔ اور حالیہ دنوں تحریک انصاف بھی جماعت اسلامی کی مقبولیت کو کیش کرانے کے لیے متحرک ہوگئی ہے، سننے میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ وہ ماضی کی طرح جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن میں اتریں، تاہم اس بار جماعت اسلامی سولو فلائٹ کےلیے تیار نظر آتی ہے۔

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے 2015 میں بلدیاتی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لیا تھا تاہم اس اتحاد کو ایم کیو ایم سے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ 2015 کے انتخابات کی فاتح ایم کیو ایم خراب کارکردگی اور تقسیم کے عمل سے دوچار ہونے کے بعد دوڑ سے باہر نظر آرہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کراچی کی سیاست میں یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تقسیم ہونے جارہا ہے۔

ماضی میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو تین تین بار میئر کا عہدہ ملا۔ لیکن جماعت اسلامی کے دور کی خاص بات یہ تھی کہ 1979 اور 1983 میں ایم کیو ایم کا وجود نہیں تھا اور 2001 میں ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس بار ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اس دوڑ میں نمایاں سیاسی جماعتیں ہیں۔ گزشتہ اتوار جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ عوامی طاقت کے اس مظاہرے میں بھی جماعت اسلامی کو برتری حاصل رہی اور باغ جناح میں مرد و خواتین کی بڑی تعداد جمع ہوئی۔ تاہم، کامیاب ریلیاں انتخابی سیاست میں ایک لازمی عنصر ضرور ہیں، لیکن حرف آخر نہیں۔

کراچی میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے اس خیال کو بھی تقویت دی ہے کہ کراچی کے عوام تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس اور انتخابی عمل سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن دراصل سیاسی جماعتوں کے الیکشن ہوں گے، جو بھی سیاسی جماعت اپنی تنظیم اور کارکنوں کو پوری طرح متحرک کرنے میں کامیاب ہوجائے گی وہی کراچی پر راج کرے گی۔

گزشتہ چند سال میں پیپلز پارٹی نے اپنی صوبائی حکومت کا فائدہ اٹھا کر اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر ملیر، کیماڑی، شرقی اور جنوبی اضلاع کے اپنے روایتی حلقوں میں بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں ہے۔ مزید یہ کہ جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے بھی پیپلزپارٹی نے اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کےلیے پیپلز پارٹی نے مقامی سطح پر ہر ممکن جوڑ توڑ کرکے انتخابی اتحاد بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی فتح یاب ہوسکتی ہے، لیکن کراچی میں بیڈ گورننس خصوصاً کراچی کے شہریوں کا ڈکیتیوں میں قتل اور اس پر حکومت کی بے حسی پیپلزپارٹی کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

بالکل اسی طرح 2022 کی شروعات میں ایسا لگتا تھا کہ تحریک انصاف ختم ہوگئی ہے لیکن اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کے ووٹرز ایک بار پھر متحرک ہوگئے۔ تحریک انصاف کے پاس میئر کے امیدوار کے طور پر کوئی موثر لیڈر موجود نہیں۔ لیڈر کی عدم موجودگی اور موثر تنظیمی سیٹ اپ نہ ہونا تحریک انصاف کی ناکامی کی وجہ بن سکتے ہیں اور چونکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ووٹرز کا مزاج بھی تقریباً یکساں ہے، اس لیے تحریک انصاف کے ووٹرز جماعت اسلامی کی طرف بھی راغب ہوسکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام وجوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنا امیج بہتر بنانے کےلیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے پہلے ہی یہ ہدف مقرر کر رکھا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کم از کم چھ ماہ کےلیے ملتوی کیے جائیں، جس میں وہ عملی طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اب بھی خوفزدہ ہے۔ اس نے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اتحادی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی نے مزید تعاون سے انکار کردیا ہے۔

ایم کیو ایم کی قیادت بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا یہ جواز پیش کررہی ہے کہ اسے خاص طور پر کراچی کی 73 یونین کمیٹیوں کی حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے، جن کی آبادی کی شرح ان یوسیز میں حلقہ بندیوں کے حساب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے سیاسی اثر و رسوخ والے علاقے متاثر ہورہے ہیں۔ اس لیے ان حلقوں میں دوبارہ حلقہ بندیاں کی جانی چاہئیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کراچی میں بلدیاتی حلقہ بندیوں سے خوش ہے، وہ ان حلقوں کی دوبارہ تقسیم نہیں چاہتی۔ پھر بھی کسی سیاسی چال کے تحت جمعہ کو سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کا بہانہ کرکے کراچی، حیدرآباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا جسے الیکشن کمیشن نے رد کرتے ہوئے لازمی انتخابات کا حکم دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ موجودہ قانون کے تحت دوبارہ حلقہ بندیاں ہونا ممکن نہیں، تاہم انہوں نے مہاجر ووٹرز کو متحرک کرنے کےلیے جو حکمت عملی تیار کی ہے اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے حلقوں میں ناانصافی پر بات کرتی رہے گی تاکہ انتخابات کے نتائج ان کے حق میں نہ آنے پر بھی حلقہ بندیوں کا جواز پیش کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم نے 11 جنوری کو صوبائی الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی کیا۔ ایم کیو ایم کو سب سے بڑا خوف یہ بھی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں زیادہ تر اردو بولنے والے ووٹرز نے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب کس طرح ان ووٹرز کو پہلے کی طرح متوجہ کیا جائے؟

کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں ابتدا سے ہی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ تاہم اب تحریک انصاف کی حکومت اپنی مظلومیت کا پرچار کرنے پر زیادہ زور دے رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پی پی قیادت نے کراچی کے سات میں سے چار اضلاع پر زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ان میں ملیر، کیماڑی، مشرقی اور جنوبی اضلاع شامل ہیں۔ جس کےلیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے مختلف رہنماؤں کو ذمے داریاں سونپ دی ہیں۔ اس تمام صورتحال میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ متحرک نظر آئی، جس نے متاثر کن مہم چلائی ہے۔

کراچی کی میئرشپ کس کے حصے میں آئے گی، اس کےلیے اصل معرکہ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد ہوگا اور اس کے بعد ہی اصل جوڑ توڑ شروع ہوگا کہ کون سی پارٹی کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایک جماعت اکیلے کراچی کی میئرشپ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے اتحادیوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ انہیں یقین دلائیں کہ انہیں کراچی کی میئر شپ ملے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس قسم کی یقین دہانی سے صاف انکار کردیا ہے، کیونکہ موجودہ حکومتی اتحاد فطری اتحاد نہیں ہے بلکہ تمام جماعتوں کی مجبوری ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت بھی سمجھتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت جوڑ توڑ کی سیاست میں زیادہ ماہر ہے اور پیپلز پارٹی کو صوبائی حکومت ہونے کا فائدہ بھی حاصل ہے۔

پیپلز پارٹی کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ کراچی کی میئر شپ کسی طرح ان کے ہاتھ لگ جائے۔ اب تک پیپلز پارٹی کی قیادت نے انتخابات ملتوی کرانے میں ایم کیو ایم کی حمایت کی ہے، اس کے پیچھے بھی یہی خواہش تھی۔

کراچی کے مزاج کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اصل معرکہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوگا، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ سادہ اکثریت کس کو ملے گی۔ میئر کے انتخاب کےلیے 246 میں سے 124 نشستوں (یونین کمیٹی چیئرمین) کا ہدف حاصل کرنا ہے، جس کے بعد مخصوص نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی ممکن ہوگا۔ دیکھتے ہیں کون سی پارٹی 100 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں