معیشت کے لیے مژدہ جانفزا

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 جنوری 2023
فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

عالمی امداد کی کل رقم 9.7ارب ڈالر ہے، ایک ایک پائی کو شفافیت کے ساتھ استعمال کریں گے، مخالفین نے ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، کرپشن کا خدشہ ہوتا تو جنیوا کانفرنس میں اتنے بڑے اعلانات نہ کیے جاتے، دن رات محنت کرکے متاثرین کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

بلا شبہ یہ پاکستان کی سفارتی و معاشی میدان میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ اقوام عالم کی طرف سے امداد کا اعلان پاکستان پر اعتماد کا اظہار ہے، جو ملک کی بہتر ساکھ کا آئینہ دار ہے۔

پاکستان کو اب، اپنے معاشی معاملات درست کرنے کے لیے درکار مالی وسائل کے حصول میں مزید آسانیاں پیدا ہونگی، بالخصوص آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کرنے میں سہولتیں پیدا ہوں گی۔ حکمران اتحاد وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک کو مخدوش معاشی و سفارتی صورتحال سے نکالنے کی مسلسل کاوشیں کر رہا ہے۔

حکومت کی ایسی کاوشیں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جنیوا کانفرنس میں 10 ارب ڈالر کی امداد کے وعدے، اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اقوام عالم پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں۔

اس وقت پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے، بجٹ خسارہ ہو یا مالی خسارہ، توازن تجارت ہو یا زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت کچھ بھی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں بلکہ انتہائی خراب حالت میں ہے۔ قدر زر میں گراؤٹ نے مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھول دیا ہے جس کے باعث عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ انتظامی بدانتظامی نے معاملات کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔

بلوم برگ نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے معاشی معاملات جون 2023 تک بہتری کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی ساکھ مستحکم ہے عالمی برادری نے اس پر صاد بھی کیا ہے اور ڈالروں کے ذریعے اپنے اعتماد کا عملی ثبوت بھی فراہم کر دیا ہے۔

یہ امدادی رقم زیادہ تر سڑکوں، گھروں، پلوں، عمارتوں کی تعمیر اور دیگر تعمیر نو کے منصوبوں پر استعمال ہو گی، طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے حکومت پروجیکٹس ڈیزائن کرتی ہے اور اس کے تمام تر لوازمات پورے کرتی ہے، پھر امداد یا قرضہ دینے والے ممالک و ادارے ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ مانیٹرنگ سسٹم ان کا قائم کیا جائے۔

یہاں پر ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حکومت کو اگر بڑے پیمانے پر اشیاء درآمد کرنی پڑیں، تو پھر زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم کوئی پروجیکٹ بنا رہے ہیں تو اس میں کنسلٹنٹس ہمارے اپنے ہونے چاہییں، فزیبلٹی رپورٹ بھی پاکستانی فرم کو ہی تیار کرنا چاہیے جب کہ سامان بھی ہماری اپنی صنعتوں کا ہونا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر ذخائر متاثر ہوں گے۔

جہاں حکومت اور مالی امور کے کچھ ماہرین کا ان قرضوں اور امداد کی آمد پر مثبت رد عمل ہے، وہیں کچھ معاشی امور کے ماہرین ان قرضوں کے پیچھے چھپے ہوئے طوفان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

ایک ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 10 بلین ڈالرز سے زیادہ کے یہ قرضے آئی ایم ایف کی شرائط سے اور اس کے پروگرام سے مشروط ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ یہ بہت آسانی سے مل جائیں گے بلکہ ہمیں آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننی پڑیں گی۔

جن میں سرفہرست یہ ہے کہ ہمیں ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑے گا ، جب کہ انرجی کی قیمتوں اور شرح سود میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پیداواری لاگت شرح سود کے بڑھنے سے آسمان سے بات کرے گی اور صنعتیں تباہ ہوں گی۔

ترقی یافتہ دنیا میں معیشت ٹیکسز پر چلتی ہے اور اس سے کوئی مبرا نہیں ہوتا خصوصاً حکمران و تاجر طبقہ کو اس سے چھوٹ نہیں ہوتی لیکن وطن عزیز میں ٹیکسز کے حوالے سے تمام تر توجہ تنخواہ دار طبقے پر ہے یا منی بجٹ دینے پر۔ تاجر طبقہ تو لفظ ’’ٹیکس‘‘ سننا ہی نہیں چاہتا۔ دنیا میں ٹیکس کے عوض صحت، تعلیم سمیت عوام کو دیگر بنیادی سہولتیں مہیا کی ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ٹیکس حکومتی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ٹیکس سے انکاری ہو گا لیکن وطن عزیز کا تاجر طبقہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دے گا لیکن حکومت بے بس ہے کیونکہ اس کی ترجیح ووٹ بینک ہے نہ کہ معیشت۔ انرجی کرائسس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تمام کاروباری سرگرمیاں جلد بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتیں سیاسی تقسیم کی وجہ اس کے خلاف محاذ آرا ہیں۔

وفاقی و صوبائی کابینہ کے سائز اور ان کی مراعات دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ہم معاشی بدحالی کے باعث اپنے اخراجات آدھے کر دیتے لیکن ہم نے یہ اخراجات چار گنا کر دیے ہیں۔ حکومت معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے تئیں اقدامات اٹھانے کے بجائے سارا انحصار بیرونی امداد پر کرتی ہے جس سے قرضے اور بڑھتے ہیں اور معیشت دبتی چلی جاتی ہے۔

امداد دینے والے بھی ہماری معاشی منصوبہ بندی اور اللے تللے دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان سے امداد لیں یا دیں۔ ہماری حکومت معاشی بدحالی کا رونا روتی ہے تو پھر اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز گھر سے کیوں نہیں کرتی۔ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو عوام کو اس طرف لانے کے لیے حکومتوں کو بھی ایسے علامتی اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے عوام کو بھی لگے کہ ان کا پیسہ حکومتی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔ سیاستدان اور پاکستان کا درد دل رکھنے والے سرمایہ دار ہی ملک کو معاشی بھنور سے نکال سکتے ہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دانوں کا ایجنڈا اپنے مخالفین کو نیچادکھانا اور اگلے انتخابات سے ہٹ کر یکجا ہونے کا ہو۔

10ارب ڈالر کے وعدے ایسے وقت میں جب پاکستان ایک ایک ڈالر کے لیے ترس رہا ہے، کسی نعمت سے کم نہیں ہیں یہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کے لیے مژدہ جانفزا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ریلیف سے فائدہ اٹھایا جائے۔

حکمران اپنے اخراجات میں کمی کریں، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے ۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بے شک برقرار رکھیں اور مفادات کا تحفظ بھی کریں لیکن ملک کی معیشت پر سیاست نہ کریں، سیاسی قیادت ذمے داری کا مظاہرہ کرے اور ملک کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اور تعمیری سیاست کریں کیونکہ محاذ آرائی کی سیاست کی وجہ سے ملک و قوم کا بہت سا نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ کاش اس کا احساس کر لیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔