سیاسی کھیل

وارث رضا  اتوار 15 جنوری 2023
Warza10@hotmail.com

[email protected]

سیاست اور اقتدار کی دل فریبی سے چمٹے رہنا بہت بھلا لگتا ہے، مگر سیاست اور اقتدار کی انگڑائی لینے کے خطرناک پہلو سے کم از کم وہ ہرگز واقف نہیں ہو پاتے جو کسی نہ کسی طور سیاست میں طاقت کی بیساکھیوں کے سہارے لائے گئے ہوں اور کسی خاص مقصد کے لیے اقتدار میں بٹھا دیے گئے ہوں۔

اہل دانش اور فکر و فلسفے پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سیاست کے ’’ہنہناتے گھوڑے‘‘ کو قابو میں رکھنا جہاں مشکل ہے وہیں اس کے ’’بدکنے کے لمحاتی‘‘ وقت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے،اسی لیے اہل دانش نے سیاست کو نہ صرف عالمانہ ہنر قرار دیا ہے بلکہ سیاست میں وقتی ٹہراؤ اور حکمت عملی کو ہی اہم جانا ہے۔

دنیا کی صلیبی جنگوں سے لے کر جدید ہتھیاروں کے جنگ و جدل میں وہی کامیاب رہا ہے جس نے بہتر حکمت عملی سے جنگ کے موضوعاتی انداز اپنائے ہیں،مگر یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر جیتی ہوئے جنگ بھی ’’دائمی‘‘ نہیں ہوتی، لہٰذا وقتی جیت اور شہرت سیاست کے اناڑی کھلاڑی کو وہاں لے جاکر پٹختی ہے، جہاں سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔

ملک میں موجودہ سیاسی ہنگامہ خیزی میں سیاست کے عمومی طالبعلم، پارٹی کارکن اور رہنما وقتی کامیابی یا ناکامی پر واہ واہ کرتے ہوئے سیاست کے میدان میں چلی جانے والی ڈھائی چال سے ناواقف ہوکر سیاست کے ان عوامل سے بے خبر رہتے ہیں جو انھیں جذبات کے دھارے میں نظر ہی نہیں آتے اور یہی لمحاتی تبدیلی اور چال انھیں سیاست کے میدان میں چاروں شانے چت کر دیتی ہے۔

پاکستان کی گھمبیر سیاسی صورتحال اور خاص طور پر پنجاب میں اسمبلی کی تحلیل اور 10 جنوری کو عمران خان کا طالبان کے بارے میں پالیسی بیان ایک ایسا تال میل اور سیاسی کھیل ہے جو عمران خان کی سیاست کی کمزوری کی جانب اداروں اور اہل سیاست کی ایک کامیاب زقند اور ڈھائی چال کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے،جس پر غور کرنے کی جانب ہمارے لاہور کے ایک نوجوان صحافی دوست کے پروگرام کے دوران تند وتیز اور دانش مندانہ سوالات تھے۔

یہ صحافی دوست پریشان تھے کہ طالبان کے پاکستان سے انخلا کے بعد دہشت گردی کی اس لہر کو بادی النظر میں عمران خان دہشت گردی کے عنوان سے سیمینار میں کیوں جواز یا حمایت فراہم کر رہے ہیں۔دوست صحافی فکر مند تھے اور چاہتے تھے کہ نئی نسل طالبنائیزڈ صورتحال کی تاریخ سے آگاہ بھی ہو اور عمران خان کی طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے واقف بھی رہے۔

عمران خان نے سیمینار سے وڈیو لنک کے ذریعے حکومت اور عوام کو ایک ساتھ یہ دھمکی دی کہ اگر افغانستان کی حکومت کو مستحکم نہیں کیا جائے گا تو پاکستان دوبارہ طالبان کی دہشت گردی کا شکار ہوگا اور پھر اس سے نجات ایک مشکل صورتحال بن جائے گی۔

اسی کے ساتھ عمران خان نے انکشاف کیا کہ ’’ان کی حکومت کی یہ منصوبہ بندی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ہزار جنگجو قبائلی علاقوں میں بسائے جائیں، جو آگے جاکر تعداد میں 35 ہزار تک ہو جائیں اور وہ جنگجو پاکستان کے لیے کارگر ثابت ہوں،مگر صوبوں کے عدم تعاون اور فنڈز کی عدم فراہمی کے باعت ہماری حکومت جنگجو طالبان کو قبائلی علاقوں میں بسانے کے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔‘‘

عمران خان کے مذکورہ بیان سے ان کی ذہنی و سیاسی سطح کا تجزیہ اہل سیاست عمران خان کی غیر جمہوری ہاتھوں تربیت اور مذہبی و سیاسی جماعت کی جہادی سوچ کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں جو ہمارے ملکی آئین و قانون کے نہ ماننے والے دہشت گرد طالبان کو ملک میں بسانا چاہتے ہیں۔

اس بیان کے تناظر میں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ کچھ لوگ عمران خان کے طالبان حمایت منصوبے کی ابتدا کر چکے تھے،جس کے انکشاف کے بعد ریاست کے طاقتور عناصر حرکت میں آئے،مگر خیبر پختونخوا میں گھس آنے والے طالبان آج بھی قتل و غارت اور بم دھماکے کرنے میں مصروف عمل ہیں جو پورے ملک کے لیے باعث تشویش بات ہے۔

ہنگامہ خیز ملکی سیاست کے اس مرحلے پر عمران خان کی جانب سے ’’طالبان حمایت‘‘ نے نہ صرف ملک کے پر امن عوام بلکہ خطے میں پر امن بقائے باہمی کے دوستوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا،جب کہ عمران خان کی جانب سے عوام پر ان کی تنگ نظر سوچ و سیاست کرنے کی نیت بھی واضح ہوگئی کہ عمران خان طالبان حمایت میں ملک اور زمانے کی ترقی کو پیچھے دھکیل کر اس ملک کو طالبان کے آمرانہ اور جاہلانہ سماج کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔

اس سیاسی صورتحال میں عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے ملک کی سیاسی صورتحال کو پیچیدہ کر رہی ہے ، حالانکہ گورنر پنجاب کے نوٹیفیکیشن کو وقتی طور سے معطل کرکے لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی اور عمران خان کو پورا موقعہ دیا کہ وہ دو سے تین ہفتے کے دوران اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو بھیج دیں، پھر اچانک جو جماعت پچھلے تین ہفتوں سے اسمبلی ارکان کی حمایت نہیں لے پا رہی تھی وہ کورٹ کی اگلی کاروائی سے پہلے اسقدر کیوں اور کیسے متحرک ہوگئی کہ ہفتوں کی ناکامی چند گھنٹوں میں کامیاب ہوگئی۔

یہ سب کچھ کیونکر ہوا اور اس میں کون کامیاب ہوا یہ حتمی طور پر طے ہونا ابھی باقی ہے،مگر یہ بات طے ہے کہ سیاسی اقتدار کے زیرک سیاسی ماہر اور سیاسی داؤ پیچ رکھنے والے وہ افراد جو پنجاب حکومت کے ارکان کی تعداد پوری نہیں ہونے دے رہے تھے وہ کس بات پر چشم زدن میں عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی خواہش کے ساتھ ہوگئے؟

سیاست کی باریکیاں بتاتی ہیں کہ تمام باخبر حلقوں کو عمران خان کی طالبان سوچ نے بادل نخواستہ آمادہ کیا کہ عمران خان اور اس کے اتحادیوں کے حکومتی وہ وسائل بھی نہ رہنے دیے جائیں جن کی طاقت سے عمران خان مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

سو ریاستی بقا کے رکھوالوں کے نزدیک خاموشی سے اعتماد کی تعداد پوری کرکے اسمبلی تحلیل کرنے اور سیاسی طور سے حکومتی وسائل سے عمران خان اور اتحادیوں کو بے دست و پا کرانا ٹہرا اور آخر کار عمران اور اتحادی اپنے ہی بنے جال میں شاید کہ پھڑ پھڑانے کی سمت بڑھ رہے ہیں اور قوی امید ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل روکنے کا کوئی نیا ڈرامہ عمران خان کی پٹاری سے نکالے جانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔

خیال رہے کہ اس پورے سیاسی کھیل میں عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے میں نئے انتخابات لینے کی خواہش عمران کی سیاسی کھیل کو پیچیدہ بنانے کی وہ ابتدا ہے جس کا جواز خود انھوں نے ملک اورخطے میں دہشت گرد طالبان کی حمایت اور پس پردہ دہشت گردی کے ذریعے حکومت یا طاقت حاصل کرنے کا اشارہ دینا یا طالبان جنگجوؤں کی فوج بنانا ہے۔

یہ رجحان عمران خان کی سیاست کو دھڑام سے گرانے کا وہ نقطہ آغاز ہے جس کے اثرات آیندہ ظاہر ہوں گے،مگر اس وقت تک وہ طالبان حمایت کی سیاست میں تنہا ہوکر سب کچھ گنوا چکے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔