گردشی قرضے سے جان چھڑانے کیلیے نیا غیرحقیقت پسندانہ منصوبہ

شہباز رانا  بدھ 1 فروری 2023
بجلی کے استعمال پر 2.93 روپے فی یونٹ ڈیٹ (قرضہ) سرچارج لگانے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ۔ فوٹو: فائل

بجلی کے استعمال پر 2.93 روپے فی یونٹ ڈیٹ (قرضہ) سرچارج لگانے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: گردشی قرضوں کے پہلے سے انتہائی بھاری بھرکم حجم میں مزید 952 ارب روپے کا اضافہ ہونے جارہا ہے۔

نظرثانی شدہ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان سے منکشف ہوا ہے کہ گردشی قرضوں کے پہلے سے انتہائی بھاری بھرکم حجم میں مزید 952 ارب روپے کا اضافہ ہونے جارہا ہے حالانکہ یہ قومی خزانے میں ایک ایسا شگاف ہے، جسے وفاقی حکومت اب بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈیز کے ذریعے پُر کرنا چاہتی ہے۔

اس سال فروری سے مئی تک 69 پیسے فی یونٹ سے لے کر 3.21 روپے فی یونٹ تک تین الگ الگ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ لگانے کی تجویز زیرغور ہے۔

اس کے علاوہ ماضی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی عائد کردہ دو مزید شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے فی یونٹ 2.93 روپے ڈیٹ (قرضہ) سرچارج بھی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، ساتھ ہی زیرالتواء فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کو بھی نافذ کیا جارہا ہے۔

تاہم حکومت کا یہ منصوبہ غیرحقیقت پسندانہ لگتا ہے کیونکہ یہ 232 روپے فی ڈالر کی شرح تبادلہ اور 16.84% کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ کے مفروضے پر بنایا گیا ہے جبکہ موجودہ شرح مبادلہ 268 روپے فی ڈالر ہے اور کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ 18% کے قریب ہے۔ اب سے جون تک کسی بھی وقت بجلی کی قیمت میں 3.62 روپے فی یونٹ سے 6.14 روپے فی یونٹ تک اضافہ کر دیا جائے گا۔

اگر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈیز کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوتا کہ جس کا وزارت توانائی نے 952 ارب روپے کے گردشی قرضے کا شگاف پُر کرنے کے لیے منصوبہ بنایا ہے تو بجلی کی قیمت میں کیا جانے والا اضافہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ نظرثانی شدہ منصوبہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور اب اس پر بات چیت اسی ہفتے ہوگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران گردشی قرضے میں تقریباً 952 ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اسے کم کرکے 75 ارب روپے تک لانے کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ بڑی کمی لانے کیلیے حکومت سے 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈیز مانگی گئی ہیں، یہ اقدام اس وجہ سے بھی غیرحقیقت پسندانہ لگتا ہے کہ بجٹ میں اتنی بڑی رقم دینے کی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔