میری ماں کا کیا ہوگا؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 4 فروری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

’’ کیا میں بچ جاؤں گا ؟ مجھے اور کوئی غم نہیں بس میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں ، اگر مجھے کچھ ہوا تو پتہ نہیں میری ماں کا کیا ہوگا۔ ‘‘ امدادی کارکن پشاور پولیس لائن مسجد دھماکے کے زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کررہے تھے تو پولیس کے زخمی اے ایس آئی نے آخری جملہ یہ ادا کیا تھا۔ پشاور میں ہزاروں پولیس والوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔

وہ نعرے لگا رہے تھے ’’ جو نامعلوم ہیں وہ ہمیں معلوم ہیں‘‘ وزیر اعظم شہباز شریف اس سانحہ پر ماتم خواں ہیں۔ وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ دہشت گرد کو کون واپس لایا ؟ کس نے کہا تھا کہ جہادی پاکستان کے دوست ہیں؟ شہباز شریف نے ایک اور سوال کیا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کو دس سال میں 417 ارب روپے دیے گئے تھے۔

خدا جانے یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔ ملک میں 15 سال پرانے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مذہبی دہشت گردوں نے پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں ظہر کی نماز میں خودکش دھماکا کر کے کابل میں گزشتہ سال القاعدہ کے دہشت گرد خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لے لیا۔

اس خودکش دھماکے میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناء پر مسجد کے ملبہ سے لاشوں کے نکالنے کا آپریشن 24 گھنٹے میں مکمل ہوا۔ پشاور کے مرکزی علاقہ میں پولیس لائن سینٹرل جیل اور دیگر اہم عمارتوں کے عقب میں واقع ہے ۔ خودکش حملہ آور نے 10 کلو سے زائد بارود اپنے جسم میں چھپایا ہوا تھا۔

پشاور کے دھماکے سے متعلق شایع ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس لائن کی مسجد کو باقاعدہ منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں نے ان افسروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جو صوبہ کے مختلف مقامات پر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے آپریشن میں شریک تھے۔

پہلے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ حملہ آور ایک دو دن پہلے سے ہی مسجد میں موجود تھا ، پھر کہا گیا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر پولیس یونیفارم میں آیا، سر پر ہیلمٹ اور چہرے پر ماسک تھا، یوں اب واضح ہو چلا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پولیس لائن مسجد کو نشانہ بنایا تاکہ ان افسروں کو قتل کردیا جائے جو صوبہ کے مختلف مقامات پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں تحقیقات کررہے تھے۔

اب دہشت گردوں نے پنجاب کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ، دہشت گردوں نے گزشتہ دنوں رات گئے میانوالی کے تھانہ پر حملہ کیا۔ پولیس کے جوانوں کی فوری کارروائی سے یہ حملہ آور منتشر ہوگئے مگر پکڑے نہیں گئے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی سرحد پار سے ہورہی ہے۔ دہشت گردوں کی سرگرمیاں کابل پر طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد تیز ہوئیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ دو سال قبل تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اور معاہدہ پر قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلہ پر ہونے والی بریفنگ نامکمل تھی، صرف ایوان کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ تحریک طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں نے جنوبی وزیرستان ، سوات ، دیر، بنوں اور دیگر مقامات پر حملے کیے تھے۔

ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ جب بنوں کی پولیس لائن اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر ان دہشت گردوں کی زد میں تھے۔ سوات ، دیر اور مالاکنڈ میں ان عناصر نے اپنی عملداری قائم کرلی تھی۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ طالبان کی حکومت اﷲ کی رحمت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے تیس سے چالیس ہزار جنگجوؤں کو خیبر پختون خوا میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

تحریک طالبان پاکستان 2007میں قائم ہوئی۔ گزشتہ پانچ برسوں کے واقعات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں حکومت کی واضح پالیسی کی بناء پر دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم ہو چلی تھیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو سرحد پار افغان علاقہ تک محدود کردیا گیا تھا۔

کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر دہشت گردوں کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنی پڑ گئی تھیں۔ پہلے کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ، بعد ازاں عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔

گزشتہ 23 برسوں کے دوران تحریک انصاف کی واحد حکومت تھی جو طالبان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی تھی۔ تحریک انصاف کے رہنما ڈرون حملوں کے خلاف مسلسل رائے عامہ کو زہر آلود کرتے تھے۔ یہ ڈرون حملے تھے جن سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد مارے گئے تھے اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک مفلوج ہوا تھا۔ عمران خان حکومت کی مدد کی بناء پر طالبان کے کابل پر حملے بڑھ گئے۔

جیسے ہی طالبان کی کابل پر حکومت قائم ہوئی تحریک طالبان پاکستان کو نئی زندگی مل گئی۔ اب تحریک طالبان پاکستان نے سابقہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خوا میں اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ دہرانا شروع کیا۔ حکومت پاکستان نے طالبان حکومت کی ایماء پر ان دہشت گردوں سے مذاکرات شروع کیے اور پھر باقاعدہ جنگ بندی کا اعلان ہوا۔

اس موضوع پر دستیاب مواد کے تجزیہ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی طالبان سے سیز فائر مقتدر قوتوں کی پالیسی سے انحراف تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے منظور نظر کچھ افراد نے اس سیز فائر کا فیصلہ کیا تھا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ 30سے 40 ہزار جنگجوؤں کو ان کے آبائی علاقوں میں آباد کر نے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ بقول ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اس فیصلہ پر عملدرآمد ہوتا تو یہ دہشت گردی کراچی تک پھیل جاتی۔

یہی وجہ تھی کہ عمران خان طالبان کے سب سے مقبول رہنما بن گئے اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو قتل کرنے کے فتوے جاری کیے مگر پشاور لائنز کی مسجد پر ہونے والی اس دہشت گردی کے بعد ضروری ہوا ہے کہ پوری افغان پالیسی کا از سر ِنو جائزہ لیا جائے۔ گزشتہ 10 برسوں کے واقعات کے اس سے پہلے 10 برسوں سے موازنہ کیا جائے تو ایک حقیقت تو بالکل واضح ہوتی ہے کہ خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی تحریک منظم ہوچکی تھی۔

ان تحریکوں کا آغاز جنوبی وزیرستان میں پختون قومی موومنٹ نے کیا ، بعد ازاں دیر، سوات اور دیگر شہروں میں عوام نے جنگی جنگجوؤں کی سرگرمیوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا۔ ان مزاحمتی تحریکوں میں مذہبی جماعتوں سمیت تمام جماعتوں کے اراکین اور ان کے حامی شامل ہیں مگر عجب ستم ظریفی ہے کہ ان مزاحمتی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے انھیں کچلنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے کیا گیا تھا۔

تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس نیشنل ایکشن پلان کو نظرانداز کردیا تھا۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے بعض ایسے فیصلے کیے تھے کہ مذہبی انتہا پسندی کو جلا مل رہی تھی ، اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والی تمام ایجنسیاں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا تہیہ کریں۔

برسر اقتدار حکومتیں محض انتہاپسندوں کی کمین گاہوں کے خاتمہ کے لیے عسکری ذرایع کے استعمال تک آپریشن کو محدود نہ کریں بلکہ نوجوان نسل کو ان انتہا پسندوں سے بچانے کے لیے جدید تعلیمی اداروں میں مؤثر اصلاحات کے منصوبہ پر عملدرآمد کیا جائے۔ اس منصوبہ کے تحت مدارس کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب سے انتہاپسندی پر مبنی مواد کے اخراج کے منصوبہ پر عملدرآمد شروع ہوا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومتوں نے اس منصوبہ کو روک دیا تھا، اب یہ کام دوبارہ شروع کیا جائے۔

مدارس کے اساتذہ سے لے کر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی ذہن سازی کے لیے پروگرام دوبارہ شروع کیے جائیں۔ انتہا پسندی کے عفریت کے خاتمہ کے لیے ابلاغ عامہ ایجنڈا کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے طریقہ کار وضح کیا جائے۔

طالبان حکومت کی رجعت پسند پالیسیوں کی بناء پر عالمی برادریوں نے سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان پابندیوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے اور کابل حکومت پر واضح کرنا چاہیے کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کی پالیسی کو ترک کیا جائے۔ تمام ریاستی اداروں کے ایک پیج پر متحد ہو کر انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے اقدامات سے ملک بچ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔