طلبہ یونین پر پابندی کا 39 واں سال، سندھ میں بحالی کا معاملہ پیچیدہ

صفدر رضوی  اتوار 5 فروری 2023
حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

  کراچی: پاکستان میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی کے 39 ویں برس سندھ میں اس کی بحالی کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ لیکن پیچیدہ ہوگئی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے جاری اقتدار کے چوتھے برس سال 2022 میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایکٹ منظور کرواتے ہوئے اسے قانون تو بنادیا ہے تاہم اس کے نفاذ میں حکومت کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے پہلے مرحلے میں سندھ کی جامعات میں طلبہ یونین کی بحالی اور نفاذ کا عمل رکا ہوا ہے۔

کئی اجلاسوں اور اس میں مسلسل غور و خوض و بحث و مباحثے کے باوجود سندھ کی جامعات میں طلبہ یونین کی بحالی کے معاملے پر وائس چانسلرز کی اکثریت اور حکومت کے مابین ڈیڈ لاک ہے، سندھ میں سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کی اکثریت طلبہ یونین کی اصل شکل میں بحالی کی شدید مخالف ہے اور اسے جامعات میں سیاسی مداخلت کا راستہ کھولنے سے تعبیر کررہی ہے جبکہ حکومت سندھ کا محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سلسلے میں 3 مسلسل اجلاسوں کے باوجود تاحال وائس چانسلر کو طلبہ یونین کی بحالی پر راضی کرنے میں ناکام ہے۔

واضح رہے کہ سندھ میں طلبہ یونین کا ایکٹ بنام “سندھ اسٹوڈنٹ یونین ایکٹ 2019″ ٹھیک ایک سال قبل 11 فروری 2002 کو صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا گیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب سندھ سمیت پورے ملک میں طلبہ یونین پر پابندی کو 38 برس پورے ہوچکے تھے کیونکہ سابق مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے 9 فروری 1984 کو پورے ملک میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی تھی اور اب اس پابندی کو 39 برس جبکہ سندھ میں اس یونین کی بحالی کے ایکٹ کی منظوری کو ایک سال ہوچکا ہے۔

منظور کیے گئے اس ایکٹ پر گورنر سندھ نے 2 مارچ 2022 کو دستخط بھی کردیے تھے، “ایکسپریس” نے اس سلسلے میں سیکریٹری برائے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز خرید راہیمو سے رابطہ کرکے ایکٹ کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں اور اس سلسلے میں وائس چانسلر کے موقف پر بات کی تو انہوں نے واضح کیا کہ کسی کا کچھ بھی موقف ہو اسٹوڈنٹ یونین اب قانون بن چکا ہے اور قانون ہی prevail کرے گا ہم اس سلسلے میں ایک حتمی میٹنگ کرنے جارہے ہیں جس کے بعد طلبہ یونین کے نفاذ سے متعلق سمری وزیر اعلیٰ کو بھجوادیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں مرید راہیمو کا کہنا تھا کہ جس اسٹوڈنٹس سوسائیٹیز کی بات وائس چانسلرز کررہے ہیں طلبہ یونین کا بھی یہی کام ہے تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت روکنا ہمارے معاشرے کی ذمے داری ہے۔ واضح رہے کہ سندھ میں طلبہ یونین ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے منعقدہ اجلاسوں میں سے پہلے اجلاس کی صدارت خود وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اسماعیل راہو نے کی تھی جس میں اس ایکٹ کے جامعات میں فوری نفاذ کی بات کی گئی۔

جامعات کے وائس چانسلر کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ نفاذ کے طریقہ کار طلبہ یونین کی فعالیت کے حوالے سے اپنی اپنی تجاویز بھجوائیں تاہم جب جامعات سے تجاویز سامنے آئیں تو اس میں سے بیشتر نے اداروں میں طلبہ سوسائیٹیز کے نفاذ اور فعالیت کی بات کی جس کی حدود متعین ہوتی ہیں ان کی نمائندگی جامعات کے کسی بھی آفیشل فورم پر نہیں ہوتی یہ سوسائیٹیز محض غیر نصابی ان سرگرمیوں تک محدود ہوتی ہیں جن کہ اجازت جامعات کے اسٹوڈینٹ افیئرز کا شعبہ دیتا ہے اور یہ سوسائیٹیز جامعات کی انتظامیہ کی زیر نگرانی ہی کام کرتی ہیں، عمومی طور پر یہ سوسائیٹیز انتخابات کے نتیجے میں قائم نہیں ہوتی بلکہ نامزدگیوں سے جنم لیتی ہیں۔

ادھر سندھ کے ایک وائس چانسلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر “ایکسپریس” کو بتایا کہ منعقدہ اجلاسوں اور دیگر مختلف غیر رسمی فورم پر ہم طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہ سرکاری جامعات میں سیاسی مداخلت، نقص امن اور بے چینی کی صورتحال کا باعث ہوگا، اب صورتحال 1984 جیسی نہیں ہے سوشل میڈیا کا دور ہے اور آج کا نوجوان کسی اور انداز میں سوچتا ہے پہلے صرف ملکی صورتحال یونین کے ذریعے تعلیمی اداروں پر اثر انداز ہوتی تھی اب سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی صورتحال پر اثر انداز ہوسکتی ہے جس کا کوئی تعلیمی ادارہ متحمل نہیں ہوسکتا۔

یاد رہے کہ سندھ میں 27 سرکاری جامعات ہیں جبکہ نجی جامعات اس کے علاوہ ہیں جبکہ طلبہ یونین کے حالیہ ایکٹ میں اسے سرکاری جامعات تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ ایکٹ میں لفظ Educational institution اور اس کی تفصیل میں جامعات اور اس کے الحاق شدہ  ادارے، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کالجز لکھا گیا ہے جبکہ جامعات کے ساتھ بھی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی اصطلاح نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح طلبہ یونین کے حالیہ ایکٹ میں بھی طلبہ یونین کو جامعات کے فیصلہ ساز ادارے سینڈیکیٹ ، سینٹ اور بورڈز میں نمائندگی دی گئی ہے جبکہ جامعات میں ہراسگی کے انسداد کے لیے قائم پروٹیکشن کمیٹی میں بھی اس کی نمائندگی ہوگی اور طلبہ یونین کو ماضی کی طرز پر ہی اس قدر نمائندگیاں دینے پر وائس چانسلرز معترض ہیں۔

ایک وائس چانسلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یونین کی بحالی کے ایکٹ کی تیاری سے قبل ہم اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرلی جاتی تو شاید اس ایکٹ کی یہ شکل نہ ہوتی اور یونین بحال کا معاملہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا، یاد رہے کہ جامعات کے اپنے ترمیمی ایکٹ 2018 میں سینڈیکیٹ کی تشکیل سے طلبہ یونین کی نمائندگی نکال دی گئی تھی یہ ترمیمی ایکٹ بھی جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سے وزیر اعلیٰ کو منتقل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کی گزشتہ صوبائی حکومت میں منظور ہوا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔