مسلم دشمن مودی، کیا وزیر اعظم بننے کا اہل ہے؟

مرزا ظفر بیگ  اتوار 13 اپريل 2014
بھارت کا اعتدال پسند طبقہ اور سنجیدہ سیاسی جماعتیں مودی کو کسی قیمت پر وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

بھارت کا اعتدال پسند طبقہ اور سنجیدہ سیاسی جماعتیں مودی کو کسی قیمت پر وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے انڈیا کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ ان کے دل میں اس کرسی پر بیٹھنے کی خواہش نے انہیں بے چین کررکھا ہے۔

نریندر مودی نے حال ہی میںبھارتی ریاست بہار میں ایک ریلی کے دوران اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’بھارت کا پردھان منتری بننے کی خواہش مجھے سونے نہیں دیتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سیٹ کے لیے میں سب سے زیادہ موزوں امیدوار ہوں۔‘‘

یہ بھارت کے وہ انتہا پسند ہندو لیڈر ہیں جن کے پیچھے انڈیا کے بے شمار انتہا پسند ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ 2002ء میں جس طرح خون کی ہولی کھیلی گئی، ان کی املاک تباہ کی گئیں، ان کے گھر نذر آتش کیے گئے، وہ سب چیزیں ریکارڈ پر ہیں اور ریکارڈ کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ اس وقت نریندر مودی ہی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور اس حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ وہ گجرات میں فرقہ ورانہ فسادات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرتے اور خاص طور سے مسلمانوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرتے، مگرانہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، بلکہ ان کے مسلمان مخالف اقدامات کو ساری دنیا نے دیکھا۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بنے اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ایسا انسان جو مسلمانوں کے قتل کا بنیادی کردار تھا، آج کس منہ سے مسلمانوں سے ہمدری کررہا ہے اور ان سے ووٹ مانگ رہا ہے، تاکہ وہ بھارتی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر مزید من مانیاں کرسکے۔

انڈیا میں مودی کے مخالفین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ملک کا اعتدال پسند طبقہ اور سنجیدہ سیاسی جماعتیں مودی کو کسی قیمت پر وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ان کے خیال میں مودی ایک غیرسنجیدہ انسان ہیں اور ان کے پاس وہ سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہے جو اس بڑے ملک کے وزیراعظم کے لیے ضروری ہے۔ صرف یہی نہیں کہ نریندر مودی کی مخالفت بھارت کے مسلمان کررہے ہوں، بلکہ اعتدال پسند ہندو اور سیاسی جماعتیں بھی ان کے جنونی پن کو پسند نہیں کرتیں۔ خود سنجیدہ انڈین سیاسی لیڈر بھی ان کی مخالفت کررہے ہیں۔

حال ہی میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے نریندر مودی کے بارے میں کہا:’’جو لوگ اس وقت بھارت کے پردھان منتری کی دوڑ میں شریک ہیں، کیا ان کے پاس مجھ جیسا تجربہ ہے؟ کیا یہ لوگ پارلیمنٹ کی قیادت کرسکتے ہیں؟ کیا ان لوگوں کے پاس پارلیمنٹ کا تجربہ ہے؟ مودی نے پہلے کبھی پارلیمنٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، وہ تو صرف بھارتی ریاست گجرات کی اسمبلی کے ممبر ہیں، ان کے پاس پارلیمنٹ کا نہ تجربہ ہے اور نہ ہی مہارت۔ مودی نے 2002 میں گجرات کے فسادات پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے تھے جن میں ایک ہزار سے زیادہ بھارتی لوگ مارے گئے تھے اور ان میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔‘‘

مودی کی غیر شائستگی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے حال ہی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے بارے میں گھٹیا ریمارکس ادا کیے، جس کے جواب میں بی جے پی نے مودی کی جانب سے ان ریمارکس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معذرت بھی کی۔

مودی نے سونیا گاندھی کے بارے میں جو کچھ کہا، اس کے جواب میں کانگریس کے شکیل احمد نے مودی کو ’’وحشی درندہ‘‘ کہہ ڈالا۔ ہوا یوں کہ مودی چھتیس گڑھ میں اپنی انتخابی ریلیوں سے خطاب کررہے تھے کہ انہوں نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کے بارے میں ناشائستہ ریمارکس دیے۔ انہوں نے سونیا گاندھی کی خراب صحت کو بنیاد بناتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے ’’شہزادے‘‘ کو کانگریس کی قیادت سونپ دیں اور خود سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس پر شکیل احمد نے ٹوئٹر پر پیغام دیا:’’انسان کے روپ میں کوئی وحشی درندہ ہی کسی کی صحت کو بنیاد بناکر ایسا تبصرہ کرسکتا ہے۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ وہ (مودی) ایک ذہنی مریض ہے۔‘‘

بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کو اس حد تک گرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے معذرت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان میم افضل نے اخباری رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم جانتے ہیں کہ مودی بذات خود ایک شائستہ انسان ہیں، لیکن انہیں کم از کم اپنی پارٹی کے وقار کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے جس نے انہیں وزیراعظم کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ انہیں (مودی کو) ان ریمارکس پر معذرت کرنی چاہیے۔‘‘

ساری دنیا جانتی ہے کہ مسٹر نریندر مودی آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے ممبر ہیں۔ انہیں میڈیا اور اسکالرز تو ہندو قوم پرست کہتے ہی ہیں، خود وہ بھی اپنے آپ کو بڑے فخر سے ہندو قوم پرست کہتے ہیں۔ وہ انڈیا میں اور بین الاقوامی سطح پر ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ خاص طور سے 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے ان کی ناقص ایڈمنسٹریشن پر انڈیا میں بھی شدید تنقید کی گئی تھی اور بین الاقوامی برادری نے بھی ان پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ لیکن ان کے بہی خواہوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے بہترین معاشی پالیسیاں بنائیں، جن کی وجہ سے گجرات میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی، لیکن آج بھی ان کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ ریاست میں انسانی بہبود کے حوالے سے وہ قابل ذکر کام نہ کرسکے اور اس شعبے میں ناکام رہے۔

انڈیا کے نوجوانوں کا ایک طبقہ انہیں ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ اسے توقع ہے کہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گام زن کرسکتے ہیں۔ مگر تجربہ کار لیڈر اور تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس خیال کی حامی ہے کہ وہ اچھے وزیر اعظم ثابت نہیں ہوں گے، کیوں کہ انہیں مجموعی طور پر عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ اپنی منفی شعلہ بیانی کی وجہ سے مودی بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد پڑوسی ملکوں چین اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ پاکستان سے دو طرفہ تجارت کے حق میں بھی نہیں ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس سے بھارت کو زیادہ نقصان ہوگا۔ اسی طرح وہ چین کے ساتھ بھی ایسا کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جس سے چین کو بھی فائدہ پہنچنے کی امید ہو۔ قصہ مختصر بھارتی آبادی کی اکثریت کا خیال ہے کہ نریندر مودی اس ملک کے وزیربننے کے اہل نہیں ہیں، اس عہدے پر پہنچنے سے انہیں ذاتی فائدے تو مل سکتے ہیں، ان کے نام کے ساتھ ’’وزیراعظم‘‘ کے الفاظ لگ سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ بھارتی عوام کی کوئی خدمت نہیں کرسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔